بحران ہی بحران، حکومت کہاں ہے؟

ذوالقرنین زیدی  جمعرات 22 جنوری 2015

بجلی کا بحران، گیس کا بحران اور اب تیل کا بحران…پانی کا بحران، تعلیم کا بحران، صحت کا بحران، انصاف کا بحران، قانون پر عملداری کا بحران، یہ بحران اور وہ بحران، فراوانی اگر ہے تو لاشوں کی، بیماریوں کی، بم دھماکوں کی، خودکش حملوں کی، دہشت کی، لاقانونیت کی، رشوت کی، بدعنوانی کی، چوری کی، ڈکیتی کی، احتجاجوں کی، ہڑتالوں کی اور ساتھ میں مہنگائی کی، ٹیکسوں کی  اورحکمرانوں کی عیاشیوں کی۔ ہم پاکستانی بھی کیا چیزہیں؟، ایک زخم بھرتا نہیں دوسرا آنے کی ضد کرتا ہے، ابھی عوام سانحہ پشاور کا غم بھول نہیں پائے تھے کہ راولپنڈی کا سانحہ رونما ہوگیا، پھر ایک فرانسیسی میگزین نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، عوام ابھی انھی الجھنوں میں گرفتار تھے کہ ایک دم سے پٹرول غائب کردیا گیا۔

پٹرول کے بحران کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا بجلی کے بحران پر نظر ڈالتے ہیں۔ شدید سردی کا موسم ہے، جب سردی پڑتی ہے تو بجلی کی طلب میں غیر معمولی کمی آجاتی ہے، گرمی کے موسم میں جو طلب انیس ہزارمیگاواٹ تھی، وہ کم ہوکر گیارہ ہزار میگاواٹ پر آگئی ہے، مگر بجلی کا بحران ہے کہ اسے ٹلنے ہی نہیں دیا جاتا۔ ملک کی بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت اگرچہ بائیس ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ ہے، صرف چودہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے، سردی میں پیداوارموجودہ طلب سے تین ہزار میگاواٹ زیادہ ہونی چاہیے تھی جب کہ یہ انتہائی کم کرکے چھ ہزار میگاواٹ کردی گئی ہے اور طلب گیارہ ہزار میگاواٹ پر آنے کے باوجود پانچ ہزار میگاواٹ کا بحران پیدا کردیا گیاہے۔

کیا یہ قوم کے ساتھ مذاق نہیں کہ حکومت بجلی کے نئے پلانٹس لگانے کے لیے سرمایہ کاری کے نام پر چین سے بھاری سود پر بتیس ارب ڈالر کے قرضے لے رہی ہے، جب کہ گزشتہ سیزن میں پیداواری صلاحیت سے آٹھ ہزار میگاواٹ کم بجلی پیدا کر کے بحران پیدا کیا جاتا رہا جب کہ موجودہ سردی کے سیزن میں اس صلاحیت سے سولہ ہزار میگاواٹ بجلی کم پیداکی جا رہی ہے؟ جب سردی کے باعث بجلی کی طلب کم ہوگئی ہو، جب دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہوتے ہوتے ساٹھ فیصد تک نیچے آگئی ہوں، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو فرنس آئل نصف سے بھی کم قیمت میں دستیاب ہوسکتا ہو۔

حکومت بجلی پیدا کرنے کے سیکڑوں نئے منصوبے شروع اور درجنوں سے پیداوار کا آغاز کرچکی ہو پھر بجلی کا بحران پیدا کرنا، اس کی قیمتیں بڑھانا، آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کرانا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کسی صورت بھی بجلی نرخ کم کرکے عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا، کا کیا مقصد  ہوسکتا ہے؟  دوسری جانب بجلی چوری یا لائن لاسز کا سارا بوجھ عام صارفین پر ڈالنا جب کہ تمام ٹرانسفارمرز کے ساتھ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اپنے الگ سے میٹر نصب کررکھے ہوں کہ علاقے میں جتنی بھی بجلی  استعمال یا چوری ہو، وہ ہر صورت اس کی قیمت صارفین سے وصول کریں، مزید یہ کہ حکومت پر بھی یہ نقصان پورا کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہیں، حکومت خود ان کمپنیوں کی سب سے بڑی نادہندہ ہو، حکومتی ادارے اربوں کے بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے بلیک میل ہوتے رہیں، حکومتی ارکان ان کمپنیوں کے ساتھ ساز باز میں لگے رہیں اور عوام کو طفل تسلیاں دیتے رہیں۔

اب بات کرتے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی، پٹرول کے بحران کے محرکات بھی بجلی بحران سے مختلف نہیں، بجلی کی پیداوار تو طلب کم ہونے کے باوجود گھٹا دی گئی ہے، مگر پٹرول کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کی طلب پچیس فیصد بڑھ گئی ہے، اس لیے کمی واقع ہوئی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ پنجاب میں پٹرول کا بحران ایک ہفتے سے جاری تھا مگر مقتدر حلقوں کو اس کی خبر نہ تھی، یا اگر خبرتھی بھی تو پرواہ نہیں۔ ایکسپریس نیوز نے معاملہ اٹھایا تو حکومت جاگ گئی۔

ہر ادارے کا سربراہ ملبہ دوسرے ادارے پر ڈالنے لگا، ایکسپریس وزیر اعظم کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرانے کی کوشش میں لگا رہا، دو روز کی تگ و دو کے بعد بات وزیراعظم تک پہنچ ہی گئی۔ وزیراعظم نے نوٹس لیا، اجلاس طلب کیے، عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے چار افسران کو ذمے دار ٹھہرا کر معطل بھی کردیا مگر یہ تو جمہوری حکومت ہے، یہاں تو ذمے داری عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کی ہونی چاہیے، کوتاہی پر سزا بھی انھی کو ملنی چاہیے، پھر بیوروکریسی کو کیوں قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے؟ اوراگروزیر اتنے ہی بے خبر ہیں تو پھر ان کی ضرورت کیا ہے؟

یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پٹرول کے بحران میں پی ایس او کا قصور نہیں ہے، پی ایس او تو کئی ماہ سے بقایاجات کی مد میں پھنسی ڈھائی سو ارب روپے سے زیادہ کی رقم کا تقاضا کر رہا تھا، اور اپنے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سے آگاہ کررہا تھا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس سلسلے میں وزارت پٹرولیم نے بھی کئی بار وزارت خزانہ سے رقم طلب کی تھی مگر ادائیگی نہیں کی گئی۔

پٹرول بحران پر وزارت خزانہ کچھ اور موقف اختیار کرتی ہے تو وزارت پٹرولیم کچھ اور، ماہرین کچھ اور کہتے ہیں اور تجزیہ کار کچھ اور، کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی چھٹی قسط کے حصول کے لیے پی ایس او کو دسمبر 2014 کے دوران تیل کی خریداری کے لیے ادائیگیاں کرنے سے روک دیا گیا تھا، اگر پی ایس او مطلوبہ مقدار میں تیل کی خریداری کے لیے ادائیگیاں کرتا تو زرمبادلہ کے ذخائر 15ارب ڈالر سے نیچے آ جاتے جب کہ مالیاتی خسارہ 2.5فیصد سے بڑھ جاتا، چونکہ آئی ایم ایف نے پاکستانی وزارت خزانہ کو 15اکتوبر 2014 تک زر مبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک پہنچانے اور جولائی تا دسمبر تک کا مالیاتی خسارہ 2.5فیصد سے نیچے لانے کا ہدف مقرر کیا تھا، اس صورت میں رواں ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کے ساتھ دبئی میں چھٹے جائزہ مذاکرات کی کامیابی خطرے میں پڑ جاتی۔ پی ایس او کی جانب سے وزارت پٹرولیم اور وزارت خزانہ کو تیل کی متوقع قلت سے بار بار آگاہ کرنے کے باوجود حکومت نے اس وجہ سے کان نہیں دھرے کہ وزارت خزانہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اقتصادی اہداف ہر صورت پورے کرنا چاہتی تھی۔

آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے دسمبر 2014 میں منعقدہ اجلاس میں چوتھے اور پانچویں جائزہ مذاکرات کی منظوری کے وقت وزارت خزانہ کو واضح طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اگر مالی سال 2014-15 کی پہلی سہ ماہی کے اقتصادی اہداف پورے نہ ہوئے تو جنوری میں قرضے کی چھٹی قسط کے لیے شروع ہونیوالے جائزہ مذاکرات کی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے،  وزارت خزانہ نے تیل کی متوقع قلت سے آگاہ کیے جانے کے باوجود پی ایس او کو تیل کی خریداری کے لیے 31دسمبر تک فنڈزجاری نہیں کیے۔اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے معاشی رول کو جواز بنا کر وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے زر مبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک پہنچانے کی تاریخ میں توسیع کی اجازت لے لی تھی جس کے نتیجے میں نئی تاریخ 31دسمبر 2014 مقرر ہوئی تھی۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ موجودہ حکومت اس وقت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے، حکمران صرف مال جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کی توجہ صرف بڑے بڑے ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں پر مرکوز ہے، عوام سے متعلق حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہے تو نہ کوئی منصوبہ بندی۔ پاورپلانٹس کے لیے فرنس آئل کے ذخائر ختم ہونے کو ہیں، جس سے بجلی کا طویل بریک ڈاؤن سر پر منڈلا رہا ہے مگر کیوں نہ قربان جائیں ان وزرا پر جو عوام کو اس مصیبت سے نکالنے کے بجائے ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں گپ شپ کرنے میں مصروف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔