ٹیلی پیتھی کے تجربات

شایان تمثیل  اتوار 1 مارچ 2015

گزشتہ کالم میں جسم مثالی سے متعلق اپنے تجربے کا تذکرہ کیا تھا، یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی کہ اس دوران ہم سایہ بینی کی مشقیں بھی کررہے تھے۔

قارئین کا اصرار ہے کہ ذاتی تجربات پر مشتمل کالم پیش کیے جائیں، مستقل ایک ہی سلسلہ برقرار رکھنا مناسب نہیں کیونکہ یہ کالم نفسیات ومابعد نفسیات کے مختلف پہلوؤں اور معلومات کو قارئین تک پہنچانے کے لیے شروع کیا گیا ہے لیکن اپنے ذاتی تجربات بھی ان کالموں کے ساتھ پیش کرتے رہیں گے۔

یہاں اس تنبیہہ کا بھی خلاصہ کرتے چلیں جو ہم ان مشقوں کے لیے کسی ماہر استاد اور نگران کی موجودگی لازم قرار دیتے ہیں، اپنے ذاتی تجربات کے دوران ہمیں جہاں کچھ محیر العقول واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہیں مناسب رہنمائی نہ ہونے کے باعث  کچھ نقصانات بھی اٹھانا پڑے جن کا ازالہ برسوں بعد بھی نہیں ہو پایا ہے، جیسا کہ جسم مثالی کی پرواز کے دوران ناسمجھی کے باعث ہم اسے کنٹرول نہ کرسکے اور ایسی گرہ لگ گئی کہ پھر دوبارہ جسم مثالی کو خود سے الگ کرنا ممکن نہ ہوپایا، اسی طرح ٹیلی پیتھی کی کامیاب مشقیں کرنے کے بعد بھی یہ علم ہم سے کوسوں دور رہا۔ آج کے کالم میں ٹیلی پیتھی کی مشقوں کے دوران پیش آمدہ واقعات کا بیان ہے۔

ٹیلی پیتھی سیکھنے کے حوالے سے مختلف مشقوں کا تذکرہ گزشتہ کالموں میں کیا جاچکا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مختلف مشقیں ٹیلی پیتھی کے حوالے سے مجرب ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہم نقطہ بینی، ماہ بینی اور شمع بینی کی مشقوں پر کسی حد تک عبور حاصل کرچکے تھے، سورج سے نگاہیں ملانے کی ابھی ابتدا ہی تھی لیکن ذہن کی کشادگی میں اضافہ ہورہا تھا۔

اس دوران ایسے واقعات پیش آرہے تھے کہ ہمیں اپنی کامیابی کا یقین ہوچلا تھا، حتی الامکان کوشش یہی تھی کہ اپنے کامیاب تجربات کو چھپا کر رکھا جائے کیونکہ ہر دور کی طرح عام لوگ ان علوم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہچکچاتے ہیں اور یقین رکھنے والوں کو طرح طرح کے مذاق اور طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ بات ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ان علوم سے متعلقہ مشقیں ہم نے لڑکپن میں ہی شروع کردی تھیں۔

بچپن میں زود حس اور روحیت پسند طبیعت کے باعث کسی بھی قسم کی مشق کے بغیر ہی عجیب تجربات پیش آئے جیسے خواب میں ان واقعات کو دیکھنا جو پیش آنے والے ہوں، گھر میں کسی مہمان کی آمد سے پہلے اس بات کا ادراک ہوجانا اور ایسے ہی کئی دیگر واقعات۔ گھر کے بڑے اکثر کہا کرتے تھے میرے خواب سچے ہوتے ہیں لیکن جب بڑے ہونے کے بعد تعلیم حاصل کی اور ان ماورائی علوم پر کتابیں پڑھیں تو علم ہوا کہ ہر شخص کے بچپن میں ’’غدہ صنوبری‘‘ ہرا بھرا ہوتا ہے، بچوں میں اس غدہ صنوبری کے باعث ایک تیسری آنکھ کھلی رہتی ہے جو انھیں مستقبل کے واقعات اور خطرات سے آگاہ کردیتی ہے۔

یہ واقعات بسا اوقات خواب کی شکل میں نظر آجاتے ہیں جنھیں ہم سچے خواب کے نام سے پکارتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ہمارے غدہ صنوبری والی تیسری آنکھ کی کارستانی ہوتی ہے جو مستقبل میں جھانک کر چپکے سے ہمارے لاشعور کو آگاہ کردیتی ہے۔ وقت گزرنے اور بڑھتی عمر کے ساتھ یہ غدہ صنوبری سوکھنا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ نوجوانی کی حدود تک پہنچتے پہنچتے یہ بالکل مرجھا جاتا ہے۔

اگر اس دور میں ماورائی علوم سے متعلقہ مشقیں کی جائیں تو نہ صرف غدہ صنوبری کو مرجھانے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ اس کی قوت میں اضافہ کرکے اپنی مرضی کے مطابق بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ٹیلی پیتھی سے متعلقہ مشقوں کے دوران درون بینی اور ’’ماضی کی آوازیں‘‘ سننے کی بھی کوشش کی۔ کچھ قارئین کے لیے ماضی کی آوازوں کا بیان یقیناً نیا ہوگا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں پیش آچکا ہے وہ یکسر فنا نہیں ہوا بلکہ ان ھی فضاؤں میں مختلف زاویوں میں مقید ہے، اسی طرح دنیا میں جتنی بھی آوازیں گزری ہیں وہ بھی ان ھی ہواؤں، ان ھی فضاؤں میں گردش کررہی ہیں، جنھیں عام سماعت سے نہیں سنا جاسکتا لیکن اپنی اندرونی سماعت کو اس قدر طاقتور بنایا جاسکتا ہے کہ ماضی کی ان گمشدہ آوازوں کو سننا ممکن بنایا جاسکے۔

انشاء اﷲ ماضی کی ان آوازوں کو سننے سے متعلق مشقوں کا بیان بھی آئندہ کسی کالم میں کیا جائے گا۔ ہاں تو تذکرہ تھا ان واقعات کا جو ان مشقوں کے دوران پیش آئے۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت سے متعلقہ مشقیں چاہے وہ سانس کی مشقیں ہوں یا ماورائی علوم کے حصول کی مشقیں، تمام نہ صرف آپ کی ظاہری حسوں بلکہ باطنی حس کو بھی توانا و مضبوط بناتی ہیں، اور چھٹی حس کی قوت میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے جو عموماً ناگہانی وقت میں متحرک ہوتی ہے لیکن ان مشقوں کے دوران (کامیابی کی صورت میں) چھٹی حس مسلسل متحرک رہتی ہے۔

اس دوران چھٹی حس کی قوت کے کئی مظاہر دیکھنے میں آئے، بچپن میں جو سچے خواب سوتے میں آیا کرتے تھے اب ہونے والے واقعات کا احساس جاگتی حالت میں پیشگی ہونے لگا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ بیٹھا گفتگو میں مصروف ہوتا اور بولنے سے پہلے اندازہ ہوجاتا کہ سامنے والے کا جواب کیا ہوگا اور بعد ازاں حرف بہ حرف وہی الفاظ مقابل ادا کرتا جو ہمارے ذہن میں ہوتے۔ اپنی بڑی ہمشیرہ سے اس قدر ذہنی ہم آہنگی ہوگئی تھی کہ گفتگو کے لیے الفاظ کی ضرورت نہ پڑتی تھی، صرف چہرہ دیکھ کر احساس ہوجاتا تھا کہ کیا بات ذہن میں ہے اور بعد ازاں اس کی تصدیق بھی ہوجاتی۔

یہی نہیں بلکہ مستقبل قریب کے کچھ واقعات کا اس قدر شدید احساس ہوا کہ وہ سب کچھ دیکھا بھالا لگا، جیسے کچھ مناظر اور واقعات میں یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ پہلے ہوچکا ہے لیکن بعد میں تجزیہ کرنے پر علم ہوا کہ دراصل چند دن پہلے ان ھی واقعات کو خود تنویمی کی غیر ارادی حالت میں دیکھ چکا ہوں جو اس وقت اسی طرح پیش آرہے تھے۔

جو لوگ کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے حوالے سے ان مشقوں کی پریکٹس میں مشغول ہیں انھیں اپنے روزمرہ واقعات پر مشتمل ایک ڈائری ضرور ترتیب دینی چاہیے کیونکہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جنھیں ہم غیر ضروری اور غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں وہ ان مشقوں کی کامیابی کی طرف ایک واضح اشارہ ہوتی ہیں، اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان مشقوں کی کامیابی کے لیے پختہ ارادہ اور مستقل مزاجی ازحد ضروری ہے، ہوسکتا ہے ابتدائی کچھ عرصے میں آپ کو کسی تبدیلی کا احساس نہ ہو لیکن کبھی نہ کبھی یہ مشقیں اپنا اثر ضرور دکھاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔