- کیا سچی بات کرنے پر آپ وزیراعظم کو بھی بلائیں گے؟، فیصل واوڈا
- بھارت اور بنگلہ دیش میں موسلادھار بارشوں سے 38 افراد ہلاک
- نیب کا بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفتر پر چھاپہ، ریکارڈ قبضے میں لے لیا
- عید الاضحیٰ پر کراچی میں مویشیوں کا سب سے بڑا شہر آباد، خریدار غائب
- پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تیسرا ٹی ٹوئنٹی بارش کے باعث منسوخ
- شدید گرمی میں پالتوجانوروں اور پرندوں پر خصوصی توجہ ضروری
- خیبرپختونخوا اسمبلی میں الیکشن ٹریبونل آرڈیننس کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور
- حکومتی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان نے نیب ترامیم پر اعتراضات اٹھادیے
- جیسے انگریزوں سے آزادی لی ویسے ہی اپنا حق لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
- پاکستانی والی بال ٹیم کا آسٹریلیا کے خلاف فاتحانہ آغاز
- فلسطینی شہداء کے 1000 لواحقین بطور شاہی مہمان حج کریں گے
- شدید گرمی، اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو روم کولر کی سہولت مل گئی
- کراچی: مویشیوں کی فیس کے نام پر ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف
- خیبرپختونخوا پولیس کے ٹک ٹاک استعمال پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ
- کراچی میں آج سے یکم جون تک ہیٹ ویو کی پیش گوئی
- پاک بحریہ نے بھاری مقدار میں منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی
- بھارت جنوبی ایشیا میں میزائل ڈیولپمنٹ قاتل ہے، جنرل(ر) زبیرمحمود حیات
- امریکا میں طوفان نے تباہی مچادی؛ 23 افراد ہلاک
- فوج کے قدموں میں بیٹھنے والا عمران خان آج فوجیوں اور انکے خاندانوں کو بدنام کررہا ہے، وزیراعظم
- ٹیٹو بنوانا خون کے کینسر کے خطرات بڑھا دیتا ہے، تحقیق
عدلیہ میں مداخلت ہے، جسٹس اطہر؛ تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے جج نہیں ہونا چاہیے، گھر بیٹھ جائے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے عدلیہ میں مداخلت کے خط پر ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے کل تک کا وقت مانگ لیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا لکھا ہوا اضافی نوٹ پڑھا کہ وفاقی حکومت ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہے، لہذا حکومت الزامات کا جواب دے، اسے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں ہورہی۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل نے دلائل دیے کہ چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات چاہتے ہیں، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، 76سال سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، ہم خوفزدہ کیوں ہیں، سچ کیوں نہیں بولتے، ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے، اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہ بات کہی ہے، حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے، تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کیساتھ کھلواڑ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا، 2018 اور 2019 میں ہائیکورٹ کے آزاد ججز کیلئے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عوام کو حقیقت بتانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ہمیں ملی بھگت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جوابا کہا اگر ملی بھگت ہے تو پھر بینچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔
سپریم کورٹ نے ججز خط کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔