اٹھارہ کروڑ تیل کے کنوئیں مگر

سعد اللہ جان برق  بدھ 1 جولائی 2015
barq@email.com

[email protected]

اب کیا بھی کیا جا سکتا ہے، مرض تو ہمیں لگ ہی چکا ہے اور ایسے امراض کے بارے میں شعراء، ادباء، حکما، فضلاء، علماء اطبا بلکہ اینکر و اسپیکرز سب کا کہنا ہے کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ یا عادت بری بلا ہے یا علت چلی جاتی ہے لیکن ’’عادت‘‘ کبھی نہیں جاتی، جس مرض کا ذکر ہم کر رہے ہیں ،کوئی نیا مرض نہیں ہے بلکہ اس کا دکھڑا ہم کئی بار اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رو چکے ہیں۔

جی ہاں وہی کم بخت ’’رگ تحقیق‘‘ جو پشتو اکیڈمی کے سائے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صحبت اور تحقیقاتی و تعیناتی محکموں کی برکت سے ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور بات بات پر پھڑکتی رہتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ اس کی وجہ سے ہمارا خواب و خور دونوں حرام ہو چکے ہیں اور ہمارے ہر مسئلے پر معاملے کے ڈانڈے اسی سے جا کر ملتے ہیں گویا

کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
کسی سے جو بھی گلہ ہے ترے سبب سے ہے

ابھی ابھی یہ جو ہمارے ہاں ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ جڑا ہے جسے لوگ لوکل گورنمنٹ وغیرہ بھی کہتے ہیں حالانکہ ہمارے خیال میں صرف ’’گورنمنٹ‘‘ کا محدود لفظ اس کی کفایت نہیں کرتا ہے۔ اس نئے ہلے میں کم از کم آٹھ دس حکومتیں تو ہم ابھی سے پنپتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور آگے اللہ مالک ہے، حالانکہ ابھی جس کے یہ عجیب الخلقت ’’بچہ‘‘ ہوا ہے اس ’’زچہ‘‘ کو بھی پتہ نہیں ہے کہ یہ کیا ہے جو چھپائے نہ بنے، لیکن ہماری رگ تحقیق تو پھڑکنے کو تیار بیٹھی تھی، سو پھڑک اٹھی اور پہلا تحقیق طلب نکتہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ یہ ’’بھان متی‘‘ کون تھا اور اس کم بخت کو اور کوئی کام نہیں تھا کہ ’’کنبے‘‘ جوڑتا رہتا تھا وہ بھی اس حالت میں کہ ’’مٹیریل‘‘ بھی موجود نہیں تھا چنانچہ کہیں سے اینٹ کہیں سے روڑہ کر کے کنبے جوڑتا تھا۔

چلیے کنبے جوڑنے کو تو اس کی عادت سمجھ لیجیے لیکن آخر یہ اتنے کنبے بناتا کیوں تھا ، کیا کسی نے اسے ٹھیکہ دیا ہوا تھا کہ اینٹ اور روڑے وہ بھی یہاں وہاں سے لے کر کنبے جوڑنے میں لگے رہو منا بھائی خیر اس ’’بھان متی‘‘ کے ویرا بائوٹ کا پتہ تو ہم کسی نہ کسی طرح چلا ہی لیں گے لیکن اصل مسئلہ اس تازہ ترین کنبے کا ہے جو کچھ زیادہ نہیں، یہی کچھ پچاس ساٹھ ہزار اینٹ روڑوں پر مشتمل ہے اور ایک کے ساتھ … ’’بائی ون گٹ ون فری‘‘ کے حساب سے شمار کیا جائے تو اتنا بڑا دستر خوان آئے گا کہاں سے اور بچھے گا کہاں ،چلیے یہ مسئلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن ’’کونسلروں‘‘ کی اتنی بہتات اور کثرت بھی تو ایک مسئلہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ڈوبتی ہوئی کشتی کا سا معاملہ ہو جائے، کہتے بیچ منجدھار میں ایک کشتی کو زیادہ زیر بار ہونے کا مسئلہ درپیش تھا، ملاح نے سنا تھا کہ قمر جلالوی نے ایسے مواقع پر ہدایت دی ہے کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی تو سامان اتارا کرتے ہیں چنانچہ اس ملاح نے بھی سواریوں سے درخواست کی کہ اپنا فالتو سامان دریا برد کر کے کشتی کو ہلکا کر دیں، ایک امریکی نے تو فوراً اپنا کمپیوٹر پھینک دیا کہ یہ ہمارے ہاں بہت ہیں۔

روسی نے ایک میزائل پھینک دیا کہ اپنے ہاں ان کی کوئی کمی نہیں ہے، عرب نے تیل پھینکا، جاپانی نے وی سی آر اور ٹیپ ریکارڈ دریا برد کیا، باری پاکستانی کی آئی تو اس نے پاس بیٹھے ہوئے افغانی مہاجر کو دھکا دیدیا کہ اپنے ہاں ہزار اقسام کے لاکھوں مہاجر دستیاب ہیں، ڈر ہے کہ اگر اپنے ہاں بھی کچھ سیلاب وغیرہ کی کیفیت پیدا ہو گئی تو آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اپنے ہاں کیا ’’زیادہ‘‘ ہے اور اگر دو چار مرتبہ یہ عمل چلا تو پھر تو سابق اور لاحق … خطرہ ہے کہ کوئی عام آدمی مل بھی سکے گا یا نہیں، لیکن وہ جو مین پرابلم اور سب سے بڑی سمسیا ہے وہ تو ہم نے ابھی بتائی ہی نہیں اس کے لیے ہم ایک ’’کونسلن‘‘ کے شوہر کے ساتھ اپنے مکالمے کا ذکر کرنا ہو گا، پوچھا بھئی یہ کیا؟

اپنے ساتھ بیوی کو بھی کونسلر بنانے چلے ہو، بولا کیا کروں اس کم بخت کو کسی نے بتایا ہے کہ بیس ہزار روپے تنخواہ گھر بیٹھے ملے گی اور پھر ضلع تحصیل میں ووٹ بیچ کر بھی اچھی خاصی رقم ہاتھ آئے گی۔

خیر وہ بے چارے تو دونوں…یہ نہ تھی ہماری قسمت … ہو گئے لیکن اس حساب سے اگر حساب و کتاب کیا جائے تو اور پھر اس کے ساتھ ہمارے وزیراعلیٰ کے مسلسل بیانات کہ ہر ویلج کونسل کو 20، 20 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

حساب کتاب میں زیادہ لائق نہ ہوتے ہوئے بھی جب موٹا موٹا حساب لگایا تو فی ویلج کونسل کوئی ایک کروڑ کا تخمینہ بیٹھا کیوں کہ اپنے خرچے جتنے زمین کے اوپر ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ زیر زمین بھی ہوتے ہیں، تب سے اب تک ہماری نیندیں حرام ہو چکی ہیں کیوں کہ ہم بھی ان اٹھارہ کروڑ تیل کے ’’کنوئیں‘‘ میں سے ایک ’’کنواں‘‘ ہیں جن سے یہ سارا تیل نکالا جائے گا جب کہ صوبائی قومی سینیٹروں اور وزیروں کے ’’ثواب دیدی‘‘ فنڈز، عشر و زکوٰۃ، بیت المال اور انکم سپورٹ اسکیموں کے پائپ پہلے ہی سے دھڑا دھڑ تیل نکالے جارہے ہیں، ٹھیک ہے ابھی تیل بہت ہے اور اٹھارہ کروڑ کنوئیں بھی کچھ کم نہیں ہوتے یعنی

ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت
قلم چھین لے روشنائی نہ دے

لیکن… اس لیکن کے بعد ہماری تحقیق کا ٹٹو رک ہی نہیں گیا ہے بلکہ ڈھے گیا ہے اسلیے باقی کا کام ہم اپنے پیارے پیارے عوام جو کالانعام بھی ہیں کے حوالے کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔