مکھی مچھر چیونٹی مکوڑے!

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 4 جولائی 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

انسان بہت سارے کام غیر ارادی اور میکانیکی انداز میں کرتا ہے لیکن ان کے اسرار و رموز پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ مثلاً اگر مچھر جسم کے کسی حصے پر بیٹھا محسوس ہو خواہ وہ کاٹ بھی نہ  رہا ہو تو ہمارا ہاتھ از خود ایک میکانیکی انداز میں اٹھتا ہے اور مچھر کو مسل دیتا ہے۔

مچھر سوائے ایک دو مخصوص نسل کے عموماً نقصان دہ نہیں ہوتے، البتہ کانوں میں ان کی بھنبھناہٹ اور کاٹنے کا خوف ہماری نفسیات پر اس قدر حاوی رہتا ہے کہ ہم اسے زندہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان سے بچنے کے لیے کمروں میں اسپرے کرتے ہیں اپنی خواب گاہوں میں مچھر دانیاں لگاتے ہیں اور جس گندے پانی میں اس کی افزائش ہوتی ہے، اس میں جراثیم کش ادویات چھڑک کر اس کی افزائش کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ہم اس کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے حالانکہ اس کے کاٹنے یا کانوں پر بھنبھنانے سے ہمیں نہ جان کا خطرہ ہوتا ہے نہ ہمیں کوئی بہت بڑا نقصان ہوتا ہے اگر بہت بڑا نقصان ہوا تو یہ کہ انسان ملیریا میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

مچھر کے بعد مکھی کو لے لیں مکھی ایسا کیڑا ہے جو ہر گھر میں ڈھیروں کی شکل میں موجود رہتا ہے بڑے لوگ تو ایسے محل بنا لیتے ہیں جہاں مکھی مچھر کا گزر ہی نہیں ہوتا لیکن غریبوں کی گندی بستیوں میں ان کی بہتات ہوتی ہے۔ گوشت، دودھ جیسی خوردنی اشیا کی دکانوں پر اگر وہ مکھی پروف نہ ہوں تو اژدھام ہوتا ہے بلاشبہ مکھی انسانوں کو مختلف بیماریوں سے دوچار کر دیتی ہے لیکن عموماً یہ جان لیوا نہیں ہوتی لیکن ہم اسے کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور انھیں مارنے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرتے ہیں اور ان کی افزائش گاہوں کو بھی جراثیم کش ادویات سے تباہ کر دیتے ہیں۔

ان حشرات الارض کے خاتمے کے لیے سرکاری طور پر بھی شہر بھر میں اسپرے کی مہم چلائی جاتی ہیں اور انھیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ چیونٹی کے کاٹنے سے بھی انسانی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا نہ کوئی بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن چیونٹیوں کو دیکھتے ہی انھیں ختم کرنے کی سو سو طرح کی تدبیریں کی جاتی ہیں اور ان کے جتھوں کو جلا کر مار دیا جاتا ہے، حالانکہ چیونٹی نہ ہماری جان کی دشمن ہوتی ہے نہ اس کے کاٹنے سے کوئی بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

لیکن انسان چیونٹی کو بھی برداشت نہیں کرتا۔ آج مجھے اس حوالے سے کالم لکھنے کا خیال بھی اس لیے آیا کہ ایک چیونٹی میری گردن پر منڈلانے لگی اور میرا ہاتھ میکانیکی انداز میں اٹھا اور چیونٹی کو مسل دیا۔ یہی صورتحال مکوڑوں کی ہے مکوڑے کے کاٹنے سے بھی انسانی جان کو کوئی خطرہ ہوتا ہے نہ کسی بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کہیں مکوڑا نظر آئے تو فوری اسے جوتے یا جھاڑو سے مار دیا جاتا ہے اگر مکوڑے کسی جگہ زیادہ تعداد میں نظر آئیں تو انھیں فوری جلا دیا جاتا ہے۔

چھپکلی بھی ایک جان کو نقصان نہ پہنچانے والے رینگنے والا جانور ہے البتہ یہ زہریلا ضرور ہے لیکن مخصوص حالات ہی میں یہ نقصان دہ ہوتی ہے لیکن اگر اسے دیوار و در پر رینگتا ہوا دیکھ لیا جائے تو فوری اسے مارنے کی تیاری کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ سارے جاندار گندگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں اور انسان گندگی کو پسند نہیں کرتا۔

سانپ، بچھو سمیت رینگنے والے مختلف جاندار انسان کو تکلیف بھی پہنچاتے ہیں اور جان کے لیے خطرہ بھی بنتے ہیں لیکن وہ اس احساس سے عاری ہوتے ہیں کہ ان کے کاٹنے سے انسان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور اس کی جان کو خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے سانپ بچھو کو دیکھتے ہی انھیں جلد از جلد مارنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں یہ سارے حشرات عقل سمجھ بوجھ سے عاری ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بالکل علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی انسان کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ قابل گردن زنی ہوتے ہیں اور انسان انھیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

میرے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا انسان ان حشرات سانپ بچھو سے زیادہ خطرناک نہیں ہے؟ دنیا کے ہر ملک میں آبادی کا 90-80 فیصد حصہ غربت کی آگ میں جل رہا ہے پسماندہ ملکوں کی آبادی کا لگ بھگ 50 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے سیکڑوں لوگ بھوک، بے کاری سے تنگ آکر خودکشی کر رہے ہیں ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے مر جاتے ہیں لاکھوں بچے دودھ اور مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں لاکھوں انسان علاج معالجے کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے جان سے چلے جاتے ہیں۔ لاکھوں خواتین ناقص غذا اور طبی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے حمل اور زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہیں کیا یہ طبعی موت ہے یا قتل عام؟ اگر قتل عام ہے تو اس کا ذمے دار کون ہے ان کا قاتل کون ہے؟

دنیا میں نہ غلے یا اجناس کی کمی ہے نہ اشیائے صرف کا قحط ہے۔ ہماری مارکیٹیں ہمارے اسٹور ہماری دکانیں ہمارے بازار ان تمام اشیا سے بھرے پڑے ہیں لیکن 90 فیصد غریبوں کی دسترس سے اس لیے باہر ہیں کہ ان کے پاس ان اشیا کی خریداری کے لیے روپے نہیں ہیں اور روپے اس لیے نہیں کہ ملک کی 80 فیصد دولت پر صرف دو فیصد اشرافیہ قابض ہے اور وہ بھی ناجائز طریقے سے قابض ہے۔

کیا یہ دو فیصد طبقہ مچھر، مکھی، چیونٹی، مکوڑے، لال بیگ، سانپ، بچھو سے زیادہ خطرناک نہیں ہے؟ پھر مکھی، مچھر، چیونٹی، مکوڑے، سانپ، بچھو کو بلا توقف مار دینے والے اس سانپ بچھو سے زیادہ خطرناک جانور سے کیوں غافل ہیں کیوں ان انسانیت کے قاتلوں کو ان کے مظالم کی سزا نہیں دیتے جب کہ وہ 90 فیصد کی بھاری اکثریت میں ہیں اگر یہ 90 فیصد دو فیصد انسان اور انسانیت دشمن طبقے پر تھوک دیں تو یہ طبقہ غرق ہو جائے لیکن صدیوں سے غریب طبقات کان دبا کر ان کے مظالم کیوں سہتے آ رہے ہیں؟

اس کی ایک وجہ تو عوام میں طبقاتی شعور کی کمی دوسری وجہ تقدیر پرستی تیسری وجہ ان کی بے شمار خانوں میں تقسیم اور چوتھی اور سب سے بڑی وجہ ’’قانون‘‘ کا خوف ہے اور قانون بنانے والا اور قانون کو نافذ کرنے والا وہی طبقہ ہے جس کی تعداد دو فیصد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت کے لامحدود حق کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور کوئی شہری کسی کی نجی ملکیت پر قبضہ نہیں کر سکتا خواہ یہ ملکیت عوام کا خون چوس کر حاصل کی گئی ہو یا دیگر ناجائز طریقوں سے۔

اس کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ کل میں نے ایک خبر پڑھی کہ کراچی کے ایک علاقے میں عوام نے دو ڈاکوؤں کو پکڑ کر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہو گئے پھر مشتعل عوام نے انھیں جلا دیا۔ اس قسم کی خبریں آئے دن اخباروں میں آ رہی ہیں عوام کیا یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ہزار دس ہزار کی ڈکیتیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو عوام مار رہے ہیں، جلا رہے ہیں، اربوں کھربوں کی ڈکیتیوں کا ارتکاب کرنے والے اور عوام کی دولت پر قبضہ کر کے عوام کو بھوکا مارنے والے عوامی غیظ و غضب سے کیوں محفوظ ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔