کڑوا سچ

منظور ملاح  جمعـء 10 جولائی 2015

میں نے مختلف موضوعات پر جوکتابیں پڑھی ہیں ،ان میں سے کچھ ایسی کتابیں ہیں، جن میں کڑوا سچ لفظ بہ لفظ پایا جاتاہے۔ ایسے ہی میں سے زیر نظرکتاب’’ آپ بیتی، پاپ بیتی‘‘ شامل ہے۔ اسی کے مصنف ساقی فاروقی، اصل نام قاضی محمد شمشاد نبی صدیقی،والد خان بہادر تھے جب کہ نانکے فاروقی تھے۔ اس لیے والد کے خان بہادرسے ناراض ساقی نے اپنے آپ کو فاروقی کہلوایا۔ لیکن بقول اردو افسانہ نگار اسد محمد خان’’ سر‘‘ ہونے سے سید احمد خان اور اقبال کی عظمت میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ساقی کے دادا کے گورکھ پور، نانکے سیوان کے تھے۔

والدین کراچی آئے تو سسرال ویانا میں تھے۔21 دسمبر 1935 گورکھپور (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہوئے تعلیم کی تلاش میں پہلے بنگلہ دیش پہنچے، تقسیم ہندکے بعد سمندری سفر کے ذریعے کراچی پہنچے۔ کراچی اور لندن کے درمیان چکر لگاتے رہے۔ جدید اردو شاعری کے بڑے ناموں فیض احمد فیض اور ن،م راشد کے علاوہ حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز،جمیل جالبی، جمیل الدین عالی اورکئی شعراء سے صحبت رہی۔ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے گیت بھی لکھے تو مضامین بھی لکھے ، لیکن اصل شہرت ان کی شاندار شاعری اور دماغ کے درکھٹکھٹانے والی تنقید ہے۔ جس کی زد میں کئی بڑے بڑے نام آئے۔ اس کے جتنے حلیف ہیں، اتنے بھی حریف ہیں، وجہ ننگی تلوار جیسی تنقید۔ 1963 میں کراچی کو الوداع کرکے لندن کی سرزمین بسائی، وہی ایک گوری سے شادی کرلی۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اردو کے تین بڑے شاعروں فیض احمد فیض نے ایلس ، ن،م راشد نے شیلا اور ساقی فاروقی نے گن ہیلڈ سے شادی کی۔ 176 صفحات پر مشتمل اپنی آپ بیتی (پاپ بیتی) میں کئی پرمغزحقیقتیں اور علم کا دریا بہتا ہے۔ جس میں اردو کے بڑے بڑے ادیب ’’سب ایک ہی حمام میں ننگے ہیں‘‘ کے مثل ہیں۔ہندوستان کے خفتی لکھاری خشونت سنگھ کے بقول کوئی بھی ادیب جتنا متنازعہ ہوگا، اتنی اس کی کامیابی ہوگی۔ ساقی نے بھی یہی کچھ اس کتاب میں لکھا ہے۔ نام نہاد جدت پسندوں کی کھال اتارکر ،حقیقی جدت پسندی کی بات کرتے ہیں۔ ذرا ان کی یہ بات پڑھیں’’ سیاست اور معشیت کے جبر اور امریکن انگریزی کی جارحیت نے دنیا میں ایسا بحران پیدا کیا ہے کہ لگتا ہے کہ اردو بھی کچھ وقت میں دوسری علاقائی زبانوں کی طرح اپنے علاقے تک محدود ہوجائے گی۔ ایک اندازے کیمطابق آگے والی صدیوں میں انگریزی،چائینیز، اسپینش اورعربی کے علاوہ باقی اکثر زبانیں اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گی۔‘‘

اپنی یہ آپ بیتی لکھنے سے پہلے انھوں نے اگسٹین، روسو، رسل اور سارتر غیرہ کے خطوط،انٹرویوز، مضامین اورآپ بیتیوں کا مطالعہ کیا ہے، سعیدہ بانو،کشور ناہیداور انتظار حسین کو پڑھا ہے۔1951 میں 15 سال کی عمر میں ایک رسالے’’ شاہین‘‘ میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ وہ کلاسیکل اردو شعراء کی شاعری کو ڈیم فول شاعری کہتا ہے۔ اس کتاب میں دی ہوئی ایک پولش شاعر کی خوبصورت سطر’’تم!  جسے میں بچا نہ سکا، غورسے سنو…میں اپنی خاموشی کے ذریعے تم سے مخاطب ہوں‘‘  2000 میں اقوام متحدہ اور اردومرکز نیویارک میں منعقدہ سیمنار’’ جدید دورکے تقاضے‘‘ میں ساقی نے اپنی یہ رائے دی ’’ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے گوشت سے بنے انسان سے محبت کی لیکن اکثر ترقی پسند شعراء نے اصل انسانوں کی نہیں بلکہ انسانی شکل وصورت کی پوجاکی۔ جو ان کے رومانوی ذہنوں میں بنی ہوئی تھی۔‘‘ ذرا شاعری کے بارے میں ان کے خیالات سن لیں ’’جہاں تک میں نے شاعری پڑھی ہے یا اسے سمجھا ہے وہ کسی بھی مکمل شخصیت کا اظہار اور اپنے سر زندگی کاخوشگوار احساس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک شاعراس وقت کے موجود تاریخی حالات میں جنم لیتا ہے۔ لیکن اسے ایک جگہ ہاتھ باندھ کر بیٹھنا نہیں چاہیے ،اسے ہمیشہ بدلتے حالات پر نظر رکھنی چاہیے، زبان، تصورات،خیالات اور انسپائریشن کے ذریعے نئے ذرایع کی تلاش کرنی چاہیے، ایک شاعر کو ہمیشہ اپنے آپ کو لاشعور اور بے علمی میں ظاہر کر نا چاہیے‘‘ اب ذرا اس کی شاعری ،خیالات کی گہرائی اور زبان کا حسن دیکھیں۔بھاگ رہا تھا جھاگ / کہ پانی بہت خفا تھا/ ساحل پرکہرام مچا تھا/ اور ساحل کے دکھ سواگت کو کھڑے تھے۔یہ سطر یں ہندوستان سے سمندرکے راستے کراچی پہنچنے کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔

ذراکتاب پڑھنے کے بارے میں ان کے رائے سنیں ’’کتاب شخصیت پردوطریقوں سے اثر انداز ہوتی ہیں۔اچھی کتاب پڑھنے سے عاجزی اور خراب کتاب پڑھنے سے غرور بڑھتا ہے۔‘‘ ان کی نظرمیں بنیاد پرستی کی تعریف ’’سب بنیاد پرست ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، چاہے مسلمان، عیسائی یا یہودی ہوں، صرف مسلم بنیاد پرستی کو مت دیکھو ، بنیاد پرستی کو بنیاد پرستوں کے پس منظر میں دیکھو… تاریخ یعنی لکھی ہوئی تاریخ گواہ ہے کہ مغرب ہو یا مشرق ،شمال یا جنوب، جب جب، جہاں جہاں اور جس جس صدی میں آزاد خیالی کا بیج پھوٹا ہے تو بنیاد پرست طوفان کی طرح اڑ گئے ہیں۔ کتے بھونکتے رہیں گے، قافلے چلتے رہیں گے۔یہی سبب تھا کہ ہر پیغمبر روشن خیال تھا۔

جس نے پرانی فرسودہ  روایات کی مخالفت کی لیکن وہاں کی اکثریت مخالف ہونے کے باوجود انھیں نہ روک سکی’’ساقی نے مشہور امریکی ناول نگارجان اپڈائک کے اسلام متعلق معنی خیز خیالات بھی حوالے طور دیے ہیں۔ ساقی کی وطن یا گھر سے محبت ،اندرکی اداسی اور اکیلائی ان کی ان سطروں میں پڑھیں’’ گھرلوٹ چلو، اب گھر سے نکلے دیر ہوئی، وہ دل کا چمکیلا سورج بھی ڈوب چلا، گھر لوٹ چلو۔1952 سے لے کر 1963 تک کراچی میں رہنے کے دوران ساقی نے کمال کی یاداشتیں لکھی ہیں۔ جمیل الدین عالی سے لے کر جمیل جالبی تک مختلف شخصیتوں پر آرٹسٹک طریقے سے لکھا ہے۔غربت ،دکھ سکھ ، علمی و ادبی سرگرمیوں اوردوستوں کے تعلقات پرگہری نظر ڈالی ہیں۔

اپنی بے باک تنقید کی وجہ سے ناصرکاظمی سے لے کر انتظارحسین تک اسے اینگری ینگ مین کہتے ہیں۔ عوامی شاعر حبیب جالب کے بارے میں طوفانی رائے میں سے کچھ الفاظ ’’ حبیب جالب شاعرکم ، سیاسی آدمی زیادہ تھے،وہ تخلیقی شاعری کی بجائے سیاسی عوام/ شاعری کی طرف نکل گئے، ان کی شاعری آکر ان الفاظ پرختم ہوتی ہے کہ ایسے دستورکو، صبح بے نورکو، میں نہیں مانتا…‘‘ میری پسند یا ناپسند سے ساحرلدھیانوی اورکیفی اعظمی کی شہرت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لیکن ان لوگوں کے الفاظ اور لہجہ لے کر 35 سالوں کے بعد حبیب جالب اور احمد فراز جیسے شاعرمحفلیں لوٹتے نظر آتے ہیں ۔‘‘ان کا جمالیاتی حس کو چھونے والا جملہ بھی پڑھ لیں‘‘ اگر زندہ ہوتو خط کیوں نہیں لکھتے ، مرگئے ہوتو اس کی اطلاع کیوں نہیں دیتے۔‘‘

صحافت اور ادب کے بارے میں ان کے خیالات ’’ ادب کے مقابلے میںصحافت دوسرے ،تیسرے درجے کی چیز ہوتی ہے۔ ایک اچھا فنکار صرف اپنے دل اور روح کی حکمرانی کو قبول کرتا ہے لیکن اچھے سے اچھے صحافی کو بھی اخبارکی پالیسی، مالک کی مرضی اورایڈ یٹر کی خوشنودی کا غلام رہنا پڑتاہے۔‘‘ اس کتاب کے اہم باب لندن میں رہائش کے دوران فیض احمد فیض اور ،ن،م راشد سے ملاقاتیں، ان کی شاعری پر تنقیدی آراء پر مشتمل ہیں ۔ساقی کیا کہتے ہیں ، سن لیں’’ جس طرح سارترکے فلسفے کا منطقی نتیجہ وہ خط تھا جو انھوں نے ہوچی من کو لکھا، جس میں آزادی کی جنگ میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار تھا۔

اسی طرح راشد کی زندگی کا نقطہ عروج ان کی میت آگ کے حوالے کر دینا تھی کہ جب کوئی فرد ساری زندگی زنجیریں توڑتا رہے تو پھر وہ ایک زنجیر بھی ٹوٹنے سے کیوں بچے۔‘‘ان کی اپنے بارے میں رائے سنیں ’’میرا سیاسی مسلک یہ ہے کہ میں کمیٹڈ سوشلسٹ ہوں، بلکہ لندن میں ڈیرہ ڈالنے کے بعد اور بائیں طرف کھسک گیا ہوں، لیکن شاعری میں صرف ایک ہی خیال اور جذبے کا قائل نہیں ہوں، کیونکہ میری کمٹمنٹ صحافت سے نہیں شاعری سے جو میری ذات کا مکمل اظہار چاہتی ہے۔‘‘

ساقی نے اپنی اس کتاب ’’ آپ بیتی پاپ بیتی‘‘ میں اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو قلم کی تیز دھار سے لکھا ہے ، انھوں نے اپنے اور خاندان کے بارے میں تلخ اورکڑوی حقیقت بھی لکھی ہے،جس سے پتا چلتا ہے کہ انسان صرف انسان ہوتا ہے، مکمل فرشتہ یا شیطان نہیں ہوتا۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد قاری کم سے کم اردو شاعری کی رموز اور جہاں دیدہ شاعروں کے حالات واقعات سے واقف حال ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔