پاک بھارت کرکٹ سیریز نہ ہوئی تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا؟

سلیم خالق  اتوار 2 اگست 2015
مالی فوائد کی خاطر ملکی وقار دائو پرلگانا درست نہیں ۔ فوٹو : فائل

مالی فوائد کی خاطر ملکی وقار دائو پرلگانا درست نہیں ۔ فوٹو : فائل

’’سر جی ایک بات کہوں تو بُرا تو نہیں مانیں گے؟‘‘

ابوظبی سے دبئی جاتے ہوئے جب ایک ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے یہ جملہ کہا تو میں نے ہاں میں جواب دیا۔ ہماری کچھ دیر سے بات چیت جاری تھی اور میں اس کی آئی ڈی دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ اُس کا تعلق بھارت سے ہے، اس نے کہا ’’پاکستانی ہر جگہ آتنک (دہشت) کیوں پھیلاتے ہیں؟ ہمارے پنجاب میں ابھی ایک واقعہ ہوا اس میں بھی حملہ آور آپ کے ملک سے آئے۔‘‘

میں نے اسے بتایاکہ مذکورہ واقعے میں پاکستان ملوث نہیں، اُن کے انتہا پسند میڈیا نے خوامخواہ یہ بات پھیلا دی، اُن کا بس چلے تو ملک میں آنے والے زلزلوں اور سیلاب کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈال دیں۔اس پر وہ چپ ہو گیا مگر میں جان گیا کہ اس سمیت تمام بھارتیوں میں پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھر دیا گیا ہے جو چند جملوں سے ختم نہیں ہو گا۔

چند برس قبل دونوں ممالک کے عوام میں اتنی نفرتیں نہیں تھیں مگر ممبئی واقعات کے بعد اب عام بھارتی شخص بھی پاکستانیوں سے بغض رکھنے لگا ہے، حالیہ واقعہ بھی جیسے ہی ہوا بھارتی میڈیا نے الزام پاکستان پر دھرا اورسب نے اسے سچ مان لیا۔ بورڈ کے سیکریٹری انوراگ ٹھاکرنے گورداس پور واقعہ کے فوراً ہی بیان داغ دیا کہ ’’دہشت گردی رکنے تک کرکٹ نہیں ہوگی۔‘‘ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا ثبوت ہے کہ ایسا پاکستان نے کیا تو وہ بغلیں جھانکنے لگیں گے۔

دراصل مسئلہ سیاست کا ہے، ٹھاکر ایک سیاستدان بھی ہیں جنھوں نے عوام کو غصے میں دیکھ کر ایسا بیان دیا جس سے ان کی ساکھ بہتر ہو۔افسوس ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کہ بھارت یہاں کیا کچھ کروا رہا ہے مگر خاموش ہیں، چیئرمین شہریارخان کو چاہیے تھا کہ انوراگ ٹھاکر کے بیان کی مذمت کرتے الٹا وہ افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ’’شاید اب کرکٹ سیریز نہ ہو۔‘‘حکام ملکی عزت کا سوچنے کے بجائے مالی نقصان کا سوچتے ہیں۔

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی پاکستانی بورڈ نے مقبوضہ کشمیر میں قتل عام، بلوچستان میں مداخلت یا کسی اور واقعے پر یہ کہا ہو کہ ’’ہم بھی کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔‘‘ وجہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا نہیں بلکہ پیسہ ہے، یہ معاملہ صرف پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی ہے، آپ دیکھ لیں کبھی کسی نے نہیں کہا کہ فلاں واقعہ ہو گیا اب اپنی فلمیں پاکستان نہیں بھیجیں گے، وجہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہونا ہے، ہم ان دنوں ’’بجرنگی بھائی جان ‘‘ نامی فلم کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کیے ہوئے ہیں۔

اسی فلم کے ڈائریکٹر کبیرخان کی اگلی فلم میں ہمارے ملک اور شہریوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنی ’’دوستی‘‘ چاہتے ہیں،کاروبار کے وقت کسی کو نفرت یاد نہیں آتی مگر جہاں کرکٹ کی بات ہو فوراً نہ کھیلنے کا بیان داغ دیا جاتا ہے، اب برابری کی سطح پر بات ہونی چاہیے۔

پہلے بھی بھارت کتنی باہمی سیریز ہم سے کھیل چکا؟ ذکا اشرف کے دور میں آخری بار ٹیم وہاں گئی تو بورڈ کے خزانے میں کچھ اضافہ نہ ہوا البتہ بھارت اربوں روپے کما چکا تھا،اس بار بھی اگر سیریز نہ ہوئی تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا، اگر بھارتی پنجاب کا حالیہ واقعہ نہ ہوتا تب بھی مجھے یقین ہے کہ بھارت کوئی اور بہانہ گھڑ کرکھیلنے سے انکار کر دیتا، شہریارخان دوستی کا پیغام لے کر وہاں گئے مگر کولکتہ ایئرپورٹ پر انھیں اور اہلیہ کو گھنٹوں حراست میں رکھا گیا، وہ بیچارے پھر بھی دوستی کا راگ الاپتے پھر رہے ہیں۔

پی سی بی کو کشکول توڑ دینا چاہیے،اس کے پاس دولت کی کمی نہیں، یہ تو وہ ادارہ ہے جہاں کوئی کام نہ کرنے پر بھی کئی لوگ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں بٹور رہے ہیں، بعض سابق کرکٹرز کو تو سیلری سے الگ بورڈ کے حق میں ٹی وی انٹرویوز، اخباری کالمز اور بیانات پر فی انٹرویو اور بیان ادائیگی بھی ہوتی ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کی تنخواہ لیٹ ہوئی، سب کو کاریں، پٹرول، موبائل و دیگر مراعات بھی حاصل ہیں، وہ لاہور سے کراچی آ کر بھی ہزاروں روپے حاصل کر لیتے ہیں،اس سے صاف ظاہر ہے کہ پی سی بی کی مالی حالت انتہائی مستحکم اور آئندہ کئی برس تک دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں، پھر دیگر ٹیمیں تو پاکستان سے کھیل ہی رہی ہیں۔

اسپانسرز کی بھی کمی نہیں، سری لنکا، زمبابوے اور بنگلہ دیش تک میں میچز کے دوران پاکستانی اداروں کے بینرز گراؤنڈز میں لگے ہوتے ہیں، کئی بار تو مین اسپانسر بھی پاکستانی ہوتا ہے، ایسے میں ہمیں اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنی چاہئیں، شہریارخان اور نجم سیٹھی سے درخواست ہے کہ برابری کی سطح پر بی سی سی آئی سے بات کریں، کشکول لے کر گھومنے سے کچھ نہیں ملے گا، بھارت اگر لفٹ نہیں کرا رہا تو دیگر 8 ٹیسٹ اقوام بھی ہیں، ان سے روابط بہتر بنائیں،ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔

لہٰذا معذرت خواہانہ انداز میں نہیں سینہ تان کر بات کریں،کرکٹ نہیں کھیلنی تو نہ کھیلو، آئی پی ایل میں ہمارے پلیئرز کو نہیں کھلایا تو کیا اس سے ملکی کرکٹ ختم ہو گی؟کاش ایسا ہو کہ اعلیٰ حکام بھارتیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں، فی الحال تو مفادات کی وجہ سے ایسا ممکن نظر نہیں آتا، پاکستانی میچز کا براڈ کاسٹر بھی بھارتی چینل ہے، آگے لیگ کی ٹیمیں بھی فروخت کرنا ہیں۔

ایسے میں شاید ہی کوئی سخت موقف سامنے آ سکے۔ حکام کو کچھ ’’پلان بی‘‘ کا بھی سوچنا چاہیے، دسمبر میں صرف بنگلہ دیش اور زمبابوے ہی فارغ ہوں گے، اس سے پہلے کہ وہ بھی کہیں میچز رکھ لیں پی سی بی کو بات کر لینی چاہیے، بنگال ٹائیگرز ان دنوں اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں، کچھ نہ ہونے سے ان کے خلاف سیریز کا انعقاد ہی بہتر ہوگا۔

پی سی بی ان دنوں سپرلیگ کے معاملے پر بھی خاصا سرگرم ہے، البتہ گروپنگ سے اسے خاصا نقصان ہونے لگا،نجم سیٹھی کی پوری کوشش ہے کہ ایونٹ کا انعقاد ہو جائے مگر شہریارخان اس سے متفق نہیں،گزشتہ دنوں نجم سیٹھی نے کراچی آ کر ٹیموں کی فروخت کے حوالے سے کئی اہم ملاقاتیں کیں مگر چند روز بعد ہی شہریارخان نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں سپر لیگ کی مخالفت کر دی۔

انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ مسائل کے سبب ایونٹ ہوتا دکھائی نہیں دیتا، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایونٹ کا بیرون ملک انعقاد نہیں چاہتے تھے مگر بات نہ سنی گئی، ایک چیئرمین جب یہ کہہ رہا ہے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنا بااختیار ہو گا،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ شہریارخان بعض امور سے سخت ناخوش اور اسی وجہ سے خود کو معاملات سے دور کیا ہوا ہے،ان دنوں وہ برطانیہ میں تعطیلات منا رہے ہیں، بعض لوگ تو یہ تک کہتے ہیں کہ انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر اعلیٰ حکومتی شخصیت نے ایسا کرنے سے باز رکھا۔

شہریارخان کے بیان پر نجم سیٹھی خاصے چراغ پا ہوئے اور اسی لیے اگلے روز وضاحتی بیان بھی جاری کروایا گیا، بورڈ میں اعلیٰ سطح پر اختیارات کی اس جنگ کا نچلے لیول پر بھی شدید نقصان ہو رہا ہے، میڈیا کے ایک آفیشل انگلینڈ میں موجود چیئرمین کے انٹرویوز کروا رہے ہیں، دوسری جانب نجم سیٹھی کو ان کے ساتھیوں نے ان دنوں خاصا ’’اِن‘‘ رکھا ہوا ہے، اس سے مزید تنازعات سامنے آنے لگے، درحقیقت لیگ ہونا واقعی مشکل اور شہریار خان کی یہ بات درست ہے کہ انعقاد ملک میں ہی کرانا چاہیے۔

پاکستان سپرلیگ اگر یو اے ای اور قطر میں ہونی ہے تو نام بھی امارات یا قطر لیگ رکھ دیں، دونوں ممالک میں الگ مسائل ہیں، یو اے ای حکام پر غصے سے کوئی فائدہ نہیں، جس وقت انھوں نے ویٹرنز لیگ کے لیے گراؤنڈز دیے پی سی بی نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، اب جب معاہدے پر دستخط ہو چکے تو وہ کیسے مکر سکتے ہیں، قطر کا اسٹیڈیم شہر سے دور اور عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا، بھاری سرمایہ کاری کر بھی لی تو وہاں میچز دیکھنے کون آئے گا؟ کئی مسائل سامنے ہیں مگر نجم سیٹھی کی پوری کوشش ہے کہ آئندہ سال فروری میں انعقاد کر لیا جائے، نجانے اس کے پیچھے کیا راز ہے؟

ویسے اس معاملے میں انتظار کرنا بہتر ہوگا، بہت سے منصوبے کاغذ پر اچھے لگتے مگر عملی جامہ پہنانے میں سخت مشکلات پیش آتی ہیں، جیسے ڈومیسٹک ٹیموں کی اسپانسر شپ کا معاملہ ہے، اب تک اتنا اچھا رسپانس نہیں ملا اسی لیے بورڈ نے بڈز کی تاریخ بڑھا دی، لیگ جیسے منصوبوں کے لیے طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، پہلے بھی یہ ایونٹ کروڑوں روپے خرچ کرا کے ختم ہو چکا، اب بھی غیرملکی کنسلٹنسی فرم اور چند اعلیٰ پوزیشنز پر ملازمت حاصل کرنے والے چند افراد کو مالی فائدہ پہنچا کر شاید سپر لیگ پھر ملتوی ہو جائے۔

اب کچھ قومی ٹیم پر بات کرتے ہیں، سری لنکا میں کارکردگی عمدہ رہی، شاہد آفریدی کی زیرقیادت پہلا ٹوئنٹی 20بھی باآسانی جیت لیا مگر بعض باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے، جیسے پہلے ٹی ٹوئنٹی کے لیے اِن فارم سرفراز احمد کو ہی ڈراپ کر دیا گیا، اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔

نجانے ایسی کیا بات ہے کہ انھیں ٹیم میں سیٹ نہیں ہونے دیا جا رہا، ورلڈکپ میں باہر بٹھایا گیا، پھر میڈیا کی تنقید پر جب موقع دیا تو وہ عمدہ پرفارم کر کے شائقین کی آنکھ کا تارا بن گئے، مگر بیٹنگ آرڈر میں چھیڑچھاڑ سے اعتماد متزلزل کیا گیا، سری لنکن ٹور پر رضوان کی صورت میں تلوار لٹکا دی گئی۔

 

حد تو اس وقت ہوئی جب انھیں پہلے ٹی ٹوئنٹی میں ہی نہ کھلایا گیا، اگر کسی کو سرفراز سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے حل کریں، ان کے کیریئر اور ملک سے نہ کھیلا جائے، رضوان یقینا بہت اچھے بیٹسمین ہیں مگر سرفراز بھی اتنے ہی عمدہ کھلاڑی ہیں ایسے میں کامران اکمل اور عمر اکمل کے وکٹ کیپنگ کرتے وقت انھیں کیوں بطور بیٹسمین نہیں کھلایا گیا؟ ابھی تو ٹیم جیت رہی ہے جب خدانخواستہ چند شکستیں ہوئیں تو سب کو یہ مسائل یاد آئیں گے۔

سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں شعیب ملک، رضوان ،حفیظ اور سرفراز سب نے ہی اچھا کھیل پیش کیا،اظہر فی الوقت ٹیم کو اچھی طرح لیڈ کر رہے ہیں، امید ہے کہ یہ سلسلہ برقرار رہے گا،پیس اٹیک کی کارکردگی اوسط درجے کی رہی جبکہ یاسر شاہ ایک میچ میں ہی زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے، گرین شرٹس کی خوش قسمتی تھی کہ سری لنکا کو سنگاکارا اور جے وردنے جیسے پلیئرز کی خدمات حاصل نہیں رہیں جبکہ بعض دیگر اسٹار پلیئرز بھی آؤٹ آف فارم تھے، ایسے میں فتح کا اچھا موقع ملا جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔

ٹیم کی فیلڈنگ میں بھی غیرمعمولی بہتری دکھائی دی، نوجوان کھلاڑی اس شعبے میں خوب جان لڑانے لگے، بھاری معاوضے لینے والے کوچز کی محنت اپنی جگہ مگر شاہد اسلم بھی بہترین انداز سے خدمات انجام دے رہے ہیں، انھیں اکیڈمی سے ہٹا کر ٹیم کے ساتھ رکھنے پر خاصی تنقید ہوتی رہی مگر اکثر کھلاڑی ان کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں، لو پروفائل میں رہنے کی وجہ سے ان کے کارنامے پس پردہ چلے جاتے ہیں۔

آئی لینڈرز سے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں زیرعتاب عمراکمل اور احمد شہزاد نے بھی عمدہ بیٹنگ کی، دونوں ٹیلنٹ سے مالامال مگر ارباب اختیار کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں، البتہ شاہد آفریدی ان کے ٹیلنٹ سے واقف اسی لیے ٹیم میں شامل کرانے کے لیے سب سے ٹکر لے جاتے ہیں، دونوں نے کپتان کے اعتماد کی بھی لاج رکھی مگر اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی ٹیم کے لیے خدمات انجام دینا ہوں گی۔

احمد شہزاد نے ون ڈے میں بھی ایک اچھی اننگز کھیلی جس نے کیریئر بچا لیا، انھیں اور عمر اکمل کو اپنے ٹیلنٹ سے انصاف کرتے ہوئے ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرانا ہوگا،مختصر طرز میں پاکستانی ٹیم خاصی متوازن لگتی ہے، اسے شیر دل کپتان شاہد آفریدی کا ساتھ بھی حاصل ایسے میں آئندہ سال بھارت میں شیڈول ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں فتح حاصل کی جا سکتی ہے، واحد مسئلہ فیلڈنگ کا تھا وہ بھی اب حل ہوتا دکھائی دینے لگا، البتہ حکام کو ذاتی پسند ناپسند پر ٹیم کو ترجیح دینا ہو گی، سرفراز کو ڈراپ کرنے جیسے معاملات اسکواڈ کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا ان سے گریز کیا جائے۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔