شخصیت پرستی کا بد ترین کلچر

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 28 اگست 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

قیام پاکستان کو اب 68 سال ہو رہے ہیں لیکن اس ملک میں جمہوریت تو کیا جمہوریت کی طرف پیشرفت کی بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے ایک مخصوص طبقہ ہے جو سیاست اور اقتدار پر قابضین ہے اس طرز سیاست کا جائزہ لیں تو جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک ہم قبائلی جاگیردارانہ نظام بلکہ اس سے آگے بادشاہی نظام حکومت کی بھول بھلیوں ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

مذکورہ نظاموں میں شخصیت پرستی ایک مستحکم طرز زندگی کے طور پر موجود رہی ہے تخت اور تخت کے وارثوں کا نظام اس قدر مضبوط رہا ہے کہ عوام یہ سوچنے ہی سے قاصر رہتے تھے کہ حکمرانی ان کا بھی حق ہو سکتی ہے شاہی ادوار کو گزرے بھی اب سیکڑوں برس گزر چکے ہیں۔ ہندوستان میں مغلیہ دور کی آخری یادگار بہادر شاہ تھے جنھیں انگریزوں نے اقتدار سے ہٹا کر رنگون میں ملک بدر کر دیا اور یہ بادشاہ اسی ملک میں اسیری کی زندگی گزارتے ہوئے زندگی کی حد پار کر گیا۔ یہ عجیب بد قسمتی ہے کہ مسلمان اب تک پدرم سلطان بود کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکے۔

آج بھی انتہا پسند طاقتیں لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے سحر میں گرفتار ہیں۔ پاکستان کے قیام کو اب 68 سال گزر چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے لیکن جمہوریت جن حوالوں سے پہچانی جاتی ہے ان میں سے ایک بھی حوالہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں نظر نہیں آتا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہماری سیاست میں شخصیت پرستی اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ فیوڈل ہیئت کی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس کی سیاسی پارٹیاں بھی شخصیت پرستی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکیں۔

ہمارے ملک میں جتنی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں ان میں نہ اجتماعی قیادت نظر آتی ہے کہ یہ جماعتیں اپنے منشور اپنے پروگرام کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں مثلاً پیپلز پارٹی کا مطلب آصف علی زرداری اور بلاول زرداری ہے اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی کوئی شناخت نہیں جب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو اس کی پہچان صرف ذوالفقار علی بھٹو تھے، مائینس بھٹو پیپلز پارٹی کچھ نہ تھی بھٹو صاحب کے بعد بے نظیر ان کی جاں نشین بنیں اور ان کی زندگی تک پیپلزپارٹی انھیں کے نام سے جانی جاتی رہی۔بے نظیر کے غیر متوقع قتل کے بعد حالات نے آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی کی قیادت تک پہنچادیا۔ پھر پیپلز پارٹی کا مطلب زرداری ہو گیا، با شعور اور روشن خیال کارکن ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگانے لگے۔

جب زرداری اپنے کارناموں کی وجہ سے غیر مقبول ہونے لگے تو موصوف نے بلاول کو آگے بڑھایا اب تک تو باپ بیٹے پی پی پی  کی مشترکہ قیادت بنے رہے لیکن حالات کے تقاضوں نے زرداری کو مجبور کر دیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے صاحبزادے بلاول کو مکمل تفویض کر دیں اب بلاول ہی پیپلز پارٹی ہے اور اس روشن خیال پارٹی کے روشن خیال کارکنوں کے نزدیک بلاول ہی پیپلز پارٹی کے نا خدا ہے اگر ضرورت پڑی تو بختاور اور آصفہ آگے آنے کے لیے تیار ہیں یوں باقی کی بادشاہتیں حال کی جمہوریتوں میں بدل گئی ہیں۔

مسلم لیگ میں شخصیت پرستی کا سب سے اولین نشان (ن) ہے یعنی مسلم لیگ کی اپنی کوئی پہچان نہیں بلکہ یہ (ن) یعنی نواز شریف ہی مسلم لیگ کی پہچان ہے مسلم لیگ جو ماضی کی واحد مسلم لگ کا ایک دھڑا ہے میاں برادران کی تحویل میں ہے، نواز شریف شہباز شریف ہی مسلم لیگ ہیں اور ساری مسلم لیگ (ن) کی دنیا ان ہی دو اصولوں کے گرد گھومتی ہے، ایک اور مسلم لیگ ہے جس کے آگے (ق) لگا ہوتا ہے یعنی مسلم لیگ قائد اعظم مسلم لیگ کے اس دھڑے نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے مسلم لیگ کو قائد اعظم سے منسوب کیا ہے لیکن ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ مسلم لیگ دو چوہدری برادران کے زیر تصرف  ہے اس مسلم لیگ (ق) سے دو چوہدری برادران کو ہٹا دیا جائے تو مسلم لیگ (ق) کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ جاتی ہے۔

ہمارے تازہ دم سیاست دان عمران خان نے تحریک انصاف کے نام سے ایک جماعت بنائی عمران خان جمہوریت کے علمبردار ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں عوامی جمہوریت لا کر رہیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ہی تحریک انصاف ہیں۔ مائنس عمران خان تحریک انصاف پانی کا ایک بلبلہ ہے۔ لگتا ہے کہ ولی عہدی نظام کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں اور ریحام خان کو آگے لا رہے ہیں۔

مسلم لیگ ویسے تو کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے جن کے نام یاد رکھنا مشکل ہے لیکن چوں کہ یہ ساری مسلم لیگیں کسی نہ کسی اوتار کی جیب میں ہیں اس لیے ان کی شناخت بھی کوئی نہ کوئی اوتار ہے مثلاً ایک مسلم لیگ پگارا کے نام سے زندہ ہے تو دوسری مسلم لیگ ضیا الحق کے صاحبزادے کے نام سے سیاست، سیاست کھیل رہی ہے اور ایک دلچسپ مسلم لیگ جو شیخ رشید کے نام سے جانی جاتی ہے اگر شیخ رشید کا نام ہٹا دیا جائے تو یہ ایک رکنی مسلم لیگ زمین بوس ہو جائے گی اور تو اور ہمارے ایک سابق صدر محترم پرویز مشرف کی شمع کے گرد بھی ایک مسلم لیگ چکر لگا رہی ہے اگر پرویز مشرف کا نام اس مسلم لیگ سے ہٹا دیا جائے تو اس شمع کے ارد گرد پروانے تو ایک بھی نظر نہیں آئیں گے البتہ ان کے بال و پر ضرور نظر آئیں گے۔

اب ذرا مذہبی جماعتوں کی طرف آیئے ماضی میں ایک جے یو آئی ہوا کرتی تھی اب اس جمعیت علما اسلام کی پگڑی حضرت مولانا فضل الرحمن کے سر پر رکھی ہوئی ہے اگرچہ یہ جماعت بہت سارے علمائے کرام پر مشتمل ہے لیکن اسے بھی جے یو آئی (ف) کے حصار میں قید کر دیا گیا ہے یعنی اس جماعت کی شناخت بھی مولانا فضل الرحمن ہیں اسی کا ایک ٹکڑا جے یو آئی (س) یعنی مولانا سمیع الحق کے نام سے معروف ہے۔

کہنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے لیکن مختصراً جو کہا گیا ہے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہم بادشاہتوں کے پس منظر سے ابھی تک نہیں نکل سکے ہمارا یہ جاگیردارانہ کلچر اس قدر مضبوط ہے کہ شخصیت پرستی کی بد ترین غلامی سے آزاد ہونے کے لیے تیار نہیں۔ شخصیت پرستی جمہوریت کی ضد اور  رقیب روسیاہ  ہے لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہماری ہر سیاسی اور مذہبی جماعت شخصیت پرستی کے شکنجے میں کسی ہوئی ہے اور ہر جمہوری سیاست دان نہ صرف بادشاہ بنا  ہوا ہے بلکہ اپنے  ولی عہدوں  کی ایک بھیڑ بھی رکھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔