جو دو بارجیل سے بھاگ چکا دنیا کا مطلوب ترین مفرور

سید عاصم محمود  اتوار 30 اگست 2015
امریکا میں 80 فیصد منشیات میکسیکو کے راستے آتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک 1993 میل لمبی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں ۔ فوٹو : فائل

امریکا میں 80 فیصد منشیات میکسیکو کے راستے آتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک 1993 میل لمبی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں ۔ فوٹو : فائل

11جولائی 2015ء کی رات پونے نو بجے جواکین گزمان المعروف بہ ال چاپو (Joaquín Guzmán El Chapo )نہانے کے کے لیے مختص جگہ داخل ہوا اور پھر اُسے کسی گارڈ نے نہیں د یکھا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ موصوف تقریباً ایک میل لمبی سرنگ کے ذریعے جیل سے فرار ہو چکے ۔یوں اس نے خود پہ نظر رکھنے والے سیکڑوں گارڈوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دی۔ یہ دنیا کی طویل ترین سرنگ ہے جو کسی جیل کے نیچے ایک مجرم کو فرار کرانے کی خاطر کھودی گئی۔

منشیات کی عالمی تجارت میں ملوث دنیا کا سب سے بڑا یہ ڈرگ لارڈ میکسیکو سٹی کے قریب واقع ایک جیل خانے‘ فیڈرل سوشل ریڈیپٹیشن سینٹر نمبر1 میں قید تھا جو عرف عام میں التیپلانو کہلاتا ہے۔

یہ بہ لحاظ وسعت اور گارڈوں کی تعداد میکسیکو کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے۔ وہاں ہزار ہا رکھوالے بارہ سو قیدیوں کی نگرانی پر مامور ہیں… وہ خطرناک ترین قیدی جنہیں خصوصی طور پہ اس جیل خانے میں بند رکھا جاتا ہے۔ وجہ یہی کہ 1990ء میں جیل خانے کی تعمیر کے بعد اب تک کوئی قیدی یہاں سے بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ مگر 11جولائی کی شب ال چاپو نے یہ پچیس سالہ روایت توڑ ڈالی۔ یوں اس نے اپنے گرد تنا طلسماتی و دیومالائی شخصیت ہونے کا ہالہ مزید گہرا کر ڈالا۔

ال چاپو کی ہنگامہ خیز زندگی عیاں کرتی ہے کہ جب ایک انسان شر کا راستہ اختیار کر لے‘ تو وہ اپنی ذہانت و صلاحیتوں کا انسانیت کے خلاف کیونکر استعمال کرتا ہے۔میکسیکو ہی نہیں دنیا کی اکلوتی سپر پاور‘ امریکا کے ہزار ہا خفیہ ایجنٹ اس میکسکین ڈرگ لارڈ کے پیچھے لگے ہیںجو ارجنٹائن سے لے کر آسٹریلیا تک جرائم پیشہ گروہوں سے تعلقات رکھتا ہے۔

امریکا اور میکسکو نے اسے گرفتار کرانے پہ 88 لاکھ ڈالر(نوے کروڑ روپے)دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ال چاپو دو بارگرفتار بھی ہوا‘ مگر ہر دفعہ اپنی ذہانت اور دولت کے بل بوتے پر فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ اس شخص کی داستان حیات بڑی ڈرامائی اور عبرت انگیز ہے۔

پھل لے لو پھل
جواکین گزمان 1957ء میں لاتونا نامی ایک دیہہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ کسان تھا اور عیاش و ظالم بھی! جو کماتا رنگ رلیوں میں اڑا دیتا۔ گھر میں خوراک کا اتنا کال تھا کہ بیوی اور سات بچے پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ کھا پاتے۔

باپ کے ہاتھوں روزانہ پٹتے ہوئے گزمان کا بچپن گذرا چنانچہ وہ لڑکپن ہی میں سختیاں برداشت کرنے والا لڑکا بن گیا۔ تیسری جماعت تک زیر تعلیم رہا‘ پھر باپ کے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانے لگا۔ افیون باپ کی پسندیدہ فصل تھی کیونکہ اسی کے ذریعے سب سے زیادہ کمائی ہوتی۔

گزمان بڑا ہوا‘ تو باپ پر ہاتھ اٹھانے اور لڑنے لگا۔ باپ نے اسے گھر سے نکال دیا۔ خود مختار ہو کر جواکین نے کچھ عرصہ دوستوں کے ساتھ افیون اگائی ۔پھر بازار میں پھل وسبزیاں فروخت کیں۔ اسی دوران وہ اپنے ناٹے قد اور مضبوط ڈیل ڈول کی وجہ سے ’’ال چاپو‘‘ کہلانے لگا۔ اس میکسکین لفظ کے معنی ہیں: چھوٹے قد والا۔

اس زمانے میں میکسیکو منشیات کی عالمی تجارت کا بڑا مرکز بن کر ابھر رہا تھا۔ لاطینی امریکا اور ایشیا سے کوکین، ہیروئن،میری جوانا اور دیگر منشیات پہلے میکسیکو پہنچتیں اور پھر میکسیکن اسمگلر انہیں امریکا اسمگل کر دیتے۔ امریکا میں پیسے کی ریل پیل ہونے کے باعث منشیات کی کھپت بھی بہت زیادہ تھی۔

رفتہ رفتہ میکسیکو میں اسمگلروں کے بڑے گروہ یا کارٹل وجود میں آ گئے۔ انہوںنے باہمی تصادم سے بچنے کی خاطر امریکا جانے والے اسمگلنگ کے راستے آپس میں بانٹ لیے۔ آہستہ آہستہ میکسیکن ڈرگ کارٹل طاقتور ہوتے گئے اور محض اسمگلر نہ رہے بلکہ منشیات کی خرید وفروخت بھی کرنے لگے۔گزمان جوش و جذبے سے بھرپور نوجوان تھا۔ اسی کی تمنا تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسا کمائے اور کچھ کر کے دکھائے۔ اس کی خواہشات گاؤں میں رہ کر پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ وہ ریاستی صدر مقام‘ کلیکان روسالیں جا پہنچا۔

منشیات فروشی کا آغاز
اس وقت گزمان کی آبائی ریاست‘ سینالوا (Sinaloa) میں منشیات کا دھندا زور شور سے چل رہا تھا۔ تب وہاں پیدرو لییریز نامی ایک بڑا ڈرگ لارڈ سرگرم عمل تھا۔ گزمان اس کی تنظیم میں کام کرنے لگا۔ اپنی ذہانت‘ چستی اور تنظیمی صلاحیتوں کے باعث اس نے تیزی سے ترقی کی اور باس کا چہیتا اسمگلر بن گیا۔

تب گوادالجارا ( Guadalajara Cartel)میکسیکو کا سب سے بڑا ڈرگ کارٹل تھا۔ چست و چالاک اور ذہین گزمان اسی کے سربراہ‘ فیکس گالاردو کی نظروں میں آ گیا۔ اس نے اسے اپنے گروہ میں شامل کر لیا۔ یہاں بھی گزمان نے تیزی سے ترقی کی اور اس کا شمار کارٹل کے اہم رہنماؤں میں ہونے لگا۔

1989ء میں فیلکس گالاردو پکڑا گیا اور اب التیپلانو میں چالیس سال کی قید کاٹ رہا ہے۔ وہ منظر عام سے غائب ہوا‘ تو گوادالجارا کارٹل کے علاقے گروہ کے بڑے لیڈروں نے آپس میں بانٹ لیے۔ یوں تین نئے کارٹل… تیجوانا‘ جوریز اور سینالوا وجود میں آئے۔ گزمان سینالواکارٹل کے تین بڑے لیڈروں میں سے ایک تھا۔

جلد ہی مختلف وجوہ کی بنا پر تیجوانا اور سینالوا کارٹلوں میں جنگ چھڑ گئی۔ دونوں گروہوں کے غنڈوں نے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا۔ اس جنگ کو عالمی شہرت 1993ء میں ملی جب تیجوانا کے غنڈوں نے گزمان کے دھوکے میں مشہور میکسیکن آرچ بشپ‘ جوان جیوسز کو مار ڈالا۔

اس قتل نے میکسیکن عوام کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ انہوںنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کارٹلوں کی باہمی جنگ رکوائی جائے۔ عوامی دباؤ کے باعث میکسیکن پولیس حرکت میں آئی اور کارٹلوں کے لیڈر گرفتار کرنے کی غرض سے وسیع پیمانے پر چھاپے مارنے لگی۔

گزمان نے جعلی پاسپورٹ بنوایا اور گوئٹے مالا فرار ہو گیا۔ وہ وہاں سے ال سلواڈور پہنچ کر مقیم ہونا چاہتا تھا۔ قانون سے بچنے کے لیے پولیس افسروں کو بھاری رشوت دینا گزمان کا خاص ہتھیار ہے۔ چنانچہ اس نے گرفتاری سے بچنے کی خاطر میکسیکو اور گوئٹے مالا کی پولیس کو لاکھوں ڈالر دے ڈالے ۔ اس کی بدقسمتی کہ ایک پولیس افسر ڈبل ایجنٹ نکلا۔ اسی کی مخبری پر 9 جون 1993ء کو گوئٹے مالا کے فوجیوں نے اسے تیاجوالا نامی شہر سے گرفتار کر لیا۔

پہلا فرار
گزمان پر مقدمہ چلا اور ا سے 20 سال قید سخت کی سزا سنائی گئی۔ وہ دو سال التیپلانومیں رہا‘ پھر اسے جالیسکو ریاست میں واقع پونٹے گرینڈ نامی جیل خانے بجھوا دیا گیا۔ جلد ہی پانی کی طرح پیسا بہا کر گزمان نے جیل خانے کی تقریباً پوری انتظامیہ کو خرید لیا۔

اب وہ جیل خانے میں کسی بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ وہ دوستوں کے اعزاز میں تقریبات منعقد کرتا۔ اور جی کرتا تو طوائفیں بلا لیتا۔ باہر سینالوا کارٹر کے کارندے ہر دم اس سے رابطہ رکھتے اور ’’کاروبار‘‘ جاری رکھنے کی خاطر ہدایات لیتے رہتے۔ غرض گزمان کے لیے جیل خانے آنا ایسے ہی تھا جیسے وہ چھٹیاں منانے اور تفریح کرنے آیا ہو۔

اس کی عدم موجودگی میں سینالواکارٹل کا پھیلاؤ جاری رہا اور وہ طاقت پکڑتا گیا۔امریکا اور میکسیکو میں منشیات کی اسمگلنگ کے بیشتر روٹس اس کے قبضے میں آ گئے۔ شاید گزمان سزا کاٹ کر ہی قید خانے سے باہر آتا کیونکہ وہاں وہ بہت مزے میں تھا۔ مگر میکسیکن سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے اسے ہڑبڑا کر رکھ دیا۔

درج بالا قانونی فیصلے سے گزمان کو امریکا بھجوانے کی راہ ہموار ہو گئی۔ اب وہ چونکا اور اسے ہوش آیا۔ اگر وہ امریکی جیل میں پہنچتا تو ظاہر ہے ،آرام و آسائش کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ یہی نہیں‘ شاید اسے ساری عمر امریکی جیلوں میں سڑنا پڑتا۔ یہ سوچ کر گزمان نے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

19 جنوری 2001ء کی رات فرانسسکو ریورا نامی گارڈ نے گزمان کے قید خانے کا دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی میلے کپڑے لے جانے والی ٹرالی کھڑی تھی۔ وہ اس میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ ریورا پھر ٹرالی چلاتا اسے باہر لے جانے لگا ۔ کئی دروازوں سے گزرنے کے بعد ٹرالی آخر جیل خانے کے مرکزی دروازے سے باہر پہنچ گئی۔ تھوڑی دور ایک کار کھڑی تھی‘ وہ گزمان کو لیے روانہ ہو گئی۔ یوں میکسیکو کا سب سے بڑا ڈرگ لارڈ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

بعدازاں انکشاف ہوا کہ گزمان نے 25لاکھ ڈالر (25کروڑ روپے) خرچ کر کے جیل انتظامیہ ہی نہیں ریاستی پولیس کے افسروں کو بھی خریدلیا۔ جیل انتظامیہ نے آنکھیں میچ کر اسے فرار ہونے دیا۔ جبکہ ریاستی پولیس بھی 24 گھنٹے تک بے خبر رہنے کی اداکاری کرتی رہی تاکہ گزمان ریاست سے باہر نکل جائے۔اس کے فرار سے بہر حال بیرون ممالک میںمیکسیکن حکومت کی بہت ہیٹی ہوئی۔میکسیکو کا شمار بھی کرپٹ ملکوں میں ہونے لگا جہاں قانون جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس ہے۔

قانون سے آنکھ مچولی
رہائی کے بعد گزمان اپنے سینالوا کارٹل کی وسعت و طاقت میں اضافہ کرنے لگا۔میکسیکن حکومت نے سبکی دور کرنے کی خاطر خصوصی اسکواڈ تشکیل دیئے جن کا واحد کام گزمان کو دوبارہ گرفتار کرناتھا ۔مگر وہ تو کوئی چھلاوا بن گیا،آج یہاں ہوتا تو کل وہاں! چندبار خصوصی اسکواڈ گزمان کے قریب پہنچ بھی گئے‘ مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔

گزمان نے اپنے بچاؤ کے لیے دو بڑے حربے اختیار کیے: اول وہ جہاں بھی قیام کرتا‘ وہاں غریبوں اور ضرورت مندوںمیں بڑے پیمانے پر رقوم تقسیم کرتا ۔ علاقے کی سڑکیں درست کراتا اور غربا کے چھوٹے موٹے کام کرا دیتا۔ یوں علاقے کے لوگ شکر گزار ہو کر اس کی محبت کادم بھرنے لگتے اور حکومت کو گزمان کی موجودگی کا نہ بتاتے ۔ غریبوں میں رقم تقسیم کرنے کے باعث ہی گزمان کو ’’رابن ہڈ‘‘ کہا جانے لگا۔

دوسرے گزمان جس گھر میں بھی طویل قیام کرتا‘ وہاں زیر زمین سرنگیں بنوا لیتا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھاکیونکہ سینالوا کارٹل کے انجینئر سرنگیں بنانے میں طاق ہیں۔ مورخین کے مطابق یہی وہ کارٹل ہے جس کے انجینئروں نے 1989ء میں امریکی میکسین سرحد پر پہلی سرنگ بنائی تاکہ منشیات اس کے ذریعے اسمگل کی جا سکیں۔

پچھلے پچیس برس کے دوران کارٹل کے انجینئر سرنگیں بنانے کے ماہر ہو چکے ۔گزمان کو پھانسنے میں ناکامی پر ایک طرف میکسیکن حکومت کی پریشانی و خجالت بڑھتی گئی ‘ دوسری سمت گزمان عالمی سطح پر نمایاں ہو گیا۔

2009ء میں مشہور امریکی رسالے‘ فوربس میگزین نے اسے دنیا کی ایک سو طاقتور شخصیات میں شامل کیا۔ وہ میکسیکو میں کھرب پتی‘ کارلوس سلیم کے بعد دوسرا طاقت ور شخص بن گیا۔دولت نے بھی چھپر پھاڑ کر گزمان کا گھر دیکھ لیا۔ 2011  میںاندازہ لگایا گیا کہ وہ ایک ارب ڈالر (ایک کھرب روپے) کی جائیداد و رقم کا مالک ہے۔ اس امر نے اسے میکسیکو کی دسویں امیر ترین ہستی بنا دیا۔

اسی دوران سینالواکارٹل کی وسعت و قوت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ آج امریکا پہنچنے والی 50 فیصد منشیات اسی کارٹل کے توسط سے پہنچتی ہے۔ یہی نہیں‘ کارٹل کے کارندے سرزمین امریکا کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ امریکیوں کو سستے داموں منشیات فراہم کرتے ہیں۔ یہ منشیات کولمبیا کے علاوہ جنوبی ایشیا اور افریقا سے بھی منگوائی جاتی ہے۔ اسی لیے آج گزمان ال چاپو دنیا کا سب سے بڑا ڈرگ لارڈ اور دنیائے منشیات کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔

ایک طرف گزمان نے اپنے بچاؤ کے بہترین اقدامات کر رکھے تھے،ادھر میکسیکن فوج اسے پکڑنے کے لیے بے تاب تھی۔ آخر گزمان ہی کی غلطی نے اسے دوبارہ جیل خانے پہنچا دیا۔

دراصل وہ ریاست سینالواکے ’’علاقہ غیر‘‘(پہاڑی علاقوں)  میں وقت گزارتے بور ہو چکا تھا۔ لہٰذا فروری 2014ء میں سیر و تفریح کی غرض سے ساحلی شہر‘ مازتین پہنچ گیا۔فوج کے جاسوسوں نے پتا چلا لیا کہ گزمان کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ چنانچہ 22 فروری کی صبح تقریباً ایک سو فوجیوں نے اس کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا۔ گزمان نے فرار کی راہ مسدود پا کر ہتھیار ڈال دیئے۔

محیر العقول سرنگ
گزمان کی گرفتاری پر میکسیکن حکومت نے اطمینان کا سانس لیا‘ تو امریکیوںنے خوشیاں منائیں ۔ اسی دن اسے تین فوجی ہیلی کاپٹروں کے قافلے کی صورت التیپلانو جیل منتقل کر دیا گیا۔

اس کی نگرانی کے لیے مزید سپاہی تعینات کیے گئے۔لیکن میکسیکن حکومت کی ساری سکیورٹی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں جب 11 جولائی 2015ء کو گزمان ال چاپو دوبارہ جیل سے فرار ہو گیا۔ جس نے یہ خبر سنی‘ حیرت سے انگلیاں منہ میں داب لیں۔ میکسیکو میں تو اب کئی لوگ اسے’’جادوگر‘‘ اور دیو مالائی شخصیت سمجھنے لگے ہیں۔

گزمان کا فرار حقیقتاً جرائم کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ ہوا یہ کہ آج سے چھ ماہ قبل التیپلانو جیل سے تقریباً ایک میل دور ایک گھر کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ مزدور کام کرتے دکھائی دیتے اور سیمنٹ و اینٹوں سے بھری گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دیتیں۔ مگر اس جگہ کوئی باقاعدہ گھربنانا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں گزمان کے سیل تک سرنگ کھودنا مقصود تھا۔ چناںچہ سینالواکارٹل کے انجینئروں نے دیکھتے ہی دیکھتے بنیادی ڈھانچا کھڑا کیا اور پھر اپنے اصل کام پر جت گئے۔

ان چار پانچ انجینئروں نے سرنگ بنا کر تعمیراتی شاہکار تخلیق کر دیا۔ وجہ یہی کہ اس دوران انہیں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ حیران کن طور پر ہر رکاوٹ پار کرتے چلے گئے۔

التیپلانو جیل خانہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے ۔اور اس جیل میں گزمان ایک چھوٹے سے سیل میں قید تھا۔ اس سیل کی کوئی کھڑکی نہیں اور اسی میں نہانے اور جائے حاجت کی ننھی سی جگہیں بھی واقع ہیں۔ اس سیل میں گزمان 23 گھنٹے تن تنہا زندگی گزارتا ۔ صرف ایک گھنٹے کے لیے اسے باہر نکالا جاتا اور وہ پارک میں چہل قدمی کرتا۔ دس دن میں ایک بار رشتے دار اور وکلا اس سے مل سکتے تھے۔اس کوٹھری میں چھوٹی سی جگہ نہانے کی خاطر مخصوص تھی۔

اب وسیع و عریض جیل خانے میں شاور کی اس چھوٹی سی جگہ تک سرنگ لے جانا نہایت کٹھن کام تھا‘ مگر سینالوا کارٹل کے تجربے کار انجینئروں نے یہ مشکل مرحلہ سر کر ہی لیا۔ یقین واثق ہے کہ انہیں جیل کا مکمل نقشہ مل گیا اور اسی کی مدد سے غسل گاہ تک سرنگ کھودی گئی۔

تعجب کی بات یہ کہ التیپلانو جیل کے گارڈ زمین کے نیچے کئی فٹ تک جھانکنے والے ریڈار اور برقی آلات رکھتے ہیں۔ مدعا یہی ہے کہ کوئی قیدی سرنگ کھود کر فرار نہ ہو سکے۔ مگر یہ جدید آلات بھی سینالوا ا کارٹل کے انجینئروں کی کھودی سرنگ تک نہ پہنچ سکے اور بیکار ثابت ہوئے۔ممکن ہے، ال چاپو کے پیسے نے ریڈاروں کا منہ بند کر دیا۔

انجینئروں نے ڈیڑھ کلو میٹر (0.93میل) لمبی سرنگ کھودی۔ یہ 5.7 فٹ اونچی اور 29.5انچ چوڑی تھی۔ اس میں پٹڑی بچھائی گئی تاکہ اس پر موٹر سائیکل سے چلنے والی ٹرالی سفر کر سکے۔ کھودی گئی مٹی اسی ٹرالی کے ذریعے باہر لائی جاتی۔ ماہرین کا کہنا ہے ‘ سرنگ کھو دتے ہوئے انجینئروں کو 3250ٹن مٹی نکالنا پڑی۔ اس سرنگ کی چھت پر ایک پائپ لگایا گیا جس میں وقفے وقفے سے سوراخ تھے۔

اسی پائپ کے ذریعے باہر سے ہوا سرنگ کے اندر داخل کی جاتی۔ پائپ پر ہی بلب بھی نصب تھے تاکہ اندر روشنی ہو سکے۔ غرض تمام بندوبست کر کے انجینئر زمین سے 10 میٹر (32.8فٹ) نیچے پہنچ کر سرنگ کھودنے میں مصروف ہوئے۔

حیرت ہے، جیل انتظامیہ نے قریب ہی تعمیر ہوتے اس گھر کی چھان بین نہ کی اور امنڈتا خطرہ محسوس نہیں کر سکی۔ روزانہ ٹرکوں کی آمدورفت سے اسے کچھ تو چوکنا ہوناچاہیے تھا۔بہرحال جیسے ہی سرنگ مکمل ہوئی‘ رات کو گزمان ال چاپو اس کے ذریعے سکون سے فرار ہو گیا۔ اب وہ پھر اپنی کسی خفیہ رہائش گاہ پر آرم و آسائش کی زندگی گزار رہا ہے۔

گزمان کو کئی لوگ غریبوں کی مدد کرنے پر ’’رابن ہڈ‘‘ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کا تعلق منشیات کے مکروہ دھندے سے ہے جو لاکھوں نوجوانوں کو نشئی بناتااور ان کی زندگی تباہ کر دیتا ہے۔ لہٰذا وہ غریبوں کی چاہے جتنی بھی مد د کر لے‘ سڑکیں و گھر بنائے‘ حقیقتاً وہ ایک جرائم پیشہ شخص ہے۔کبھی نہ کبھی قانون کے لمبے ہاتھ اسے پھر دبوچ لیں گے۔

میکسکیکو کی خون ریز ڈرگ وار
منشیات کی منافع بخش غیر قانونی تجارت عالمی عجوبہ ہے۔ اس تجارت کی سالانہ مالیت 300 تا 550 ارب ڈالر کے مابین بتائی جاتی ہے۔ اس مالیت کے زبردست حجم کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کا پچھلا قومی بجٹ 34 ارب ڈالر کا تھا۔جنوب مشرقی ایشیا، افغانستان اور لاطینی ممالک میں مختلف منشیات اگائی اور تیار کی جاتی ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں پھر ان کی بیشتر کھپت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیار شدہ تقریباً آدھی (ہزاروں ٹن) منشیات امریکی استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا امریکا دنیا میں منشیات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔

امریکا میں 80 فیصد منشیات میکسیکو کے راستے آتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک 1993 میل لمبی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا کا مصروف ترین سرحدی علاقہ ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ یہ سرحد پار کرتے ہیں… اور ان میں کئی منشیات کے اسمگلر ہوتے ہیں۔ ان اسمگلروں کا تعلق میکسیکو کے بڑے ڈرگ کارٹلوں یا منشیات کی پیداوار ،تیاری اور خرید و فروخت سے منسلک گروہوں سے ہے۔ جو ڈرگ کارٹل اسمگلنگ کے سب سے زیادہ راستے اپنے قبضے میں رکھے، وہی مضبوط ترین کہلاتا ہے۔

اس وقت یہ مقام گزمان ال چاپو کے سینالو اکارٹل کو حاصل ہے۔دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک کی طرح میکسیکو میں بھی بیشتر وسائل و دولت پر آبادی کا ایک دو فیصد بااثر و طاقتور طبقہ قابض ہے۔

بچے کھچے وسائل 99 فیصد متوسط اور غریب طبقوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ غریب میکسیکن کمائی بڑھانے کی خاطر منشیات کے دھندے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ وہ منشیات اگاتے یا کارٹلوں میں شامل ہوکر اس کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کی رو سے میکسیکن ڈرگ کارٹلوں کو سالانہ 50 ارب ڈالر (50 کھرب روپے) آمدن ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بڑا منافع بخش دھندا ہے۔

بیسویں صدی کے آخر میں سات آٹھ بڑے ڈرگ کارٹل میکسیکو میں کام کررہے تھے۔ ان کے لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں حکمران کی حیثیت رکھتے۔

ان کی اجازت کے بغیر چڑیا تک پر نہ مارتی۔ وہ دولت یا اسلحے کے بل پر انتظامیہ و عوام، دونوں کو اپنی مٹھی میں رکھتے۔جلد ہی منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں پر قبضے کی خاطر ان کارٹلوں میں جنگ چھڑگئی۔ ان کے کارندے ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ عوام بھی اس لڑائی کی لپیٹ میں آگئے۔ لڑائی نے کئی میکسیکن شہروں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا اور عام لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی۔

آخر 2006ء میں میکسیکن حکومت کو ہوش آیا اور اس نے ڈرگ کارٹلوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔ اب حکومت اور کارٹلوں کے مابین بھی جنگ چھڑگئی جو تاحال جاری ہے۔ ایک طرف اڑھائی لاکھ میکسیکن فوجی اور پینتیس ہزار سپاہی ہیں، تو دوسری طرف کارٹلوں کے غنڈے و کارندے جن کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

چھوٹے پیمانے پر جاری اس میکسیکن خانہ جنگی میں تقریباً ایک لاکھ چونسٹھ ہزار انسان جاں بحق ہوچکے۔ نیز سولہ لاکھ افراد کو ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مزید برآں سوا لاکھ جرائم پیشہ لوگ فوج کے ہتھے چڑھے۔ مقتولین میں چار ہزار سے زائد سپاہی اور پانچ فوجی شامل ہیں۔

صد افسوس کہ پچھلے نو برس سے جاری فوجی آپریشن بھی ڈرگ کارٹلوں اور جرائم پیشہ گروہوں کو ختم نہیں کرسکا… وجہ یہی کہ میکسیکن حکمران طبقہ کرپٹ ہے۔ وہ مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے ان سے رقم لیتا اور عیش و آرام کی زندگی گزارتا ہے۔ اسے یہ پروا نہیں کہ عوام کن مسائل، مصائب اور دشواریوں میں گرفتار ہے۔ حد یہ ہے کہ کرپٹ حکمرانوں نے ملک میں غربت و جہالت مٹانے کے لیے ’’دانستہ‘‘ کوششیں نہیں کیں تاکہ ان کا اقتدار بحال رہ سکے۔

دراصل جب الیکشن کا موقع آئے، تو سیاسی جماعتیں غریبوں میں وسیع پیمانے پر رقم اور مختلف اشیا مثلاً ٹی وی، فریج، فرنیچر وغیرہ بانٹتی ہیں تاکہ ان سے ووٹ لے سکیں۔ اگر یہ غریب غربت کے شکنجے سے نکل کر پڑھ لکھ گئے، اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے تو وہ کرپٹ حکمرانوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔

اسی لیے حکمران طبقہ دانستہ عوام کو غریب رکھتا ہے تاکہ وہ ان کا محتاج رہے۔حکمرانوں کی خود غرضی کا نتیجہ ہے، آج میکسیکو کی 46 فیصد یعنی تقریباً آدھی آبادی غربت کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان میں سے بہت سوں کو الیکشن کی آمد کا انتظار رہتا ہے کیونکہ اسی وقت انہیں کمائی ہوتی اور سیاست دانوں سے عام استعمال کی اشیا مفت ملتی ہیں۔

 

افغان طالبان کا ’’گریٹ اسکیپ‘‘
ماضی میں بادشاہوں نے اپنے محلات وقلعوں میں زیر زمین سرنگیں بنانے کا آغاز کیا۔ دوران جنگ جب شکست کا خطرہ منڈلانے لگتا‘ تو حکمران اہل خانہ کے ہمراہ سرنگوں کے ذریعے فرار ہو جاتے اور اپنی جان بچا لیتے۔رفتہ رفتہ بعض بادشاہ جلد نقل و حرکت کے لیے بھی سرنگیں بنانے لگے۔ مثلاً مشہور ہے کہ لاہور کے شاہی قلعے سے ایک سرنگ دہلی کے لال قلعے تک جاتی تھی۔ آج بھی شاہی قلعہ لاہور میں بعض سرنگوں کے دروازے محفوظ ہیں‘ گو انہیں بند کیا جا چکا ۔

جیلوں یا قید خانوں سے فرار ہونے کے لیے سرنگیں بنانے کا رواج دوسری جنگ عظیم سے پڑا۔ تب نظر بندی کیمپوں میں قید کئی شہریوں اور فوجیوں نے سرنگیں کھودیں تاکہ رہائی کی نعمت پا سکیں۔دوسری جنگ میں فرار کا ایک مشہور واقعہ سٹالاگ لفٹ سوم نامی جرمن نظر بندی کیمپ میں مارچ 1945ء میں پیش آیا۔ یہ کیمپ پولش شہر ،ساگان کے نزدیک واقع تھا۔ وہاں اتحادی فضائیہ کے افسر قید کیے جاتے۔ اس جگہ نظر بند برطانوی افسروں نے سرنگ کھود کر فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔

مارچ 1943ء سے سرنگ کھودنے کا آغاز ہوا جو مارچ 1945ء میں مکمل ہوئی۔ زمین کی سطح سے 30 فٹ نیچے واقع یہ سرنگ 102 میٹر (334فٹ) لمبی اور ڈھائی فٹ چوڑی تھی۔24 مارچ 1945ء کی رات اس سرنگ سے 76 قیدی فرار ہوئے۔ لیکن ان میں سے صرف 3 بھاگنے میں کامیاب ہوسکے۔

بقیہ کو نازی جرمنوں نے پکڑلیا۔ سرنگ کی تعمیر نے جرمن لیڈر، ایڈلف ہٹلر کو بہت براوختہ کیا۔ وہ گرفتار شدہ تمام 73 قیدی قتل کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی ہوتی۔ لہٰذا اپنے وزراء کے سمجھانے پر وہ رک گیا۔ پھر بھی اس نے 50 قیدی قتل کرا دیئے۔

اس سچے واقعے پر 1963ء میں ایک ہالی وڈ فلم ’’دی گریٹ اسکیپ‘‘ بنائی گئی جس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ گو فلمی کہانی میں کچھ تصّوراتی واقعات بھی ڈال دیئے گئے تاہم سرنگ کی تعمیر اور قیدیوں کے فرار کواس میں عمدگی سے پیش کیا گیا۔ اس کا شمار انگریزی کی 50 بہترین فلموں میں ہوتا ہے۔

25 اپریل 2011ء کو ’’گریٹ اسکیپ‘‘ کا افغان نمونہ سامنے آیا اوردنیا والوں کو حیران کرگیا۔ اس دن قندھار کے سارپوزا جیل خانے سے 550 طالبان سرنگ کے راستے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بعدازاں ان میں سے صرف71 ہی پکڑے جاسکے۔ گویا اتحادی فوجیوں کے برعکس افغان طالبان کا گریٹ اسکیپ کامیاب رہا۔سارپوزا جیل میں طالبان کی اعلیٰ قیادت قید تھی، اسی لیے وہاں سیکڑوں گارڈز تعینات کیے گئے۔ سکیورٹی کی صورت حال غیر معمولی تھی۔ تبھی طالبان نے فیصلہ کیا کہ اپنے لیڈروں کو بذریعہ سرنگ فرار کرایا جائے۔

یہ قید خانہ قندھار۔ کابل شاہراہ پر واقع ہے۔ اس کے دوسری طرف واقع ایک مکان سے سرنگ کھودنے کا آغاز ہوا۔ اس کھدائی میں طالبان انجینئروں اور دیگر ماہرین نے حصہ لیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ہر دوسرے ماہ سکیورٹی اہلکار جیل خانے کے قریب واقع مکانوں کی تلاشی لیتے مگر وہ اس مکان میں زیر تعمیر سرنگ تلاش نہیں کرسکے۔

آخر پانچ ماہ کی مسلسل سعی و محنت سے طالبان سرنگ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ 0.32 کلو میٹر (1054 فٹ) لمبی تھی۔ قندھار۔ کابل شاہراہ کے نیچے سے ہوتے ہوئے جیل خانے میں اس جگہ تک لے جائی گئی جہاں طالبان لیڈر قید تھے۔ ان میں سے بیشتر بذریعہ سرنگ فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 1971ء میں بھارتیوں نے ترانوے ہزار پاکستانیوں کو قیدی بنالیا۔ ان میں صرف 40 ہزار فوجی تھے۔ بعدازاں نظر بندی کیمپوں میں کئی نوجوان پاکستانی فوجیوں نے سرنگیں کھودیں اور فرار ہونے میں کامیاب بھی رہے۔ مگر چاروں طرف سے دشمن میں گھرے ہونے کے باعث انہیں جلد گرفتار کرلیا جاتا۔ بہت کم ہی برما یا نیپال پہنچ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔