کرپٹ حکومتیں اور ان کے طرفدار

انیس باقر  جمعـء 4 ستمبر 2015
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

یونان میں، جو یورپی یونین کا ایک حواری ہے وہاں برس ہا برس کرپٹ حکومتیں قائم رہیں، یہاں تک کہ وہ قرض کے دلدل میں ڈوب گیا، اور جب وہاں نئے انتخابات کا بگل بجا تو دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں نے اپنے الیکشن ایشو میں اقتصادی نعروں اور پروگراموں کو اہمیت دی۔ عوام میں وہاں بائیں بازو کے رہنماؤں کو بلاشرکت غیرے کامیابی نصیب ہوئی۔

یونان میں ریفرنڈم ہوئے کہ یورپی یونین میں کن شرائط پر قرض لیا جائے، جن ممالک میں کرپٹ حکمران حکومت کر رہے ہیں۔ وہ تو ان حکومتوں کے لیے تر نوالہ ہیں جو ملک جتنا قرض لے وہ اسی قدر بہتر ہے۔ ظاہر ہے جن ممالک میں کرپشن ہوتی ہے وہاں نہ ختم ہونے والا قرض کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ کرپٹ ممالک کے لیڈروں کو صنعت و حرفت، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہاں زمین کا کاروبار ہوتا ہے۔ اپنے مخصوص مفادات والے بلڈرز کو مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں۔

1958ء کے بعد لیڈروں نے اول اور فوجی حکمرانوں نے دوم زمینوں کے کاروبار شروع کر دیے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کے معاشی اور حکمرانی کے عزائم نہیں ہیں بلکہ ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی جن میں ملک سے کرنسی اسمگل ہوتی رہی، غور طلب ہے۔ فیروز خان نون جو 1957ء میں پاکستان کے وزیر اعظم تھے، انھوں نے گوادر کو سلطان مسقط سے خریدا جس پر آج حکومت مستقبل کی راہداری کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ظاہر ہے جیسے ہی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا دبئی ایک خواب و خیال ہو جائے گا۔ کیونکہ گوادر جو 2500 مربع میل ہے اور پھر کراچی کی بندرگاہ کی پٹی قدرتی نعمتوں نے پاکستان کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اور حکمران اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی زمینیں اور اثاثے غیر ممالک کو فروخت کر دیں۔

اگر آپ کو یاد ہو تو چند برس قبل پاکستان اسٹیل مل بھارتی تجارتی کمپنی مٹھل کو فروخت کرنے کا بندوبست کر لیا گیا تھا۔ جب کہ اس کے فائر برکس اور بلاسٹ فرنس دنیا کے بڑے سے بڑے ٹمپریچر کو برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہ ہیں حکمران جو زر کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اس لیے کسی تاجر کو ملک کا حکمران نہیں بنایا جاتا۔ اگر آپ غور کریں تو پاکستان کے حالات خانہ جنگی کی نہج پر آ گئے تھے۔ مذہبی منافرت، سیاسی رنجشیں لیبیا کی طرح ہو چلے تھے۔ لیبیا وہ ملک تھا جہاں ہزاروں پاکستانی نوکریاں کرتے تھے مگر آج لیبیا کے باشندے کشتیوں میں ملک سے فرار ہو رہے ہیں اور ہر ہفتے یہ خبر آتی ہے کہ فلاں کشتی ڈوب گئی، یا جہاز ڈوب گیا۔ اور سیکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے۔

ٹی وی پر کمنٹری ہوتی تھی۔ شاہد اللہ شاہد جو طالبان کے ترجمان تھے ہر روز ان کے افکار کی ستائش ہوتی تھی بس پاکستان جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی سے ملک بال بال بچ گیا۔ گو کہ میں فوجی حکومت کا ذاتی طور پر قائل نہیں۔ یونیورسٹی کے دور میں اور بعد ازاں بھی میں نے مارشل لا کی جیلیں کاٹی ہیں، مگر آج کا فوجی عمل اقتدار کے لیے نہیں، ملک کی یکجہتی کے لیے زیادہ نظر آتا ہے۔ ورنہ سیاسی پارٹیوں کا کنونشن بلایا جاتا، کالے کو سفید رنگ چڑھایا جاتا۔ یہی پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔

جنرل ضیا الحق اور پھر پرویز مشرف صاحب اسی راستے پر گامزن رہے اور مسلم لیگی اتحاد پر کام کر رہے ہیں، ان لیڈروں کو سیاسی چاشنی لگ گئی ہے اور اس ذائقے سے چھٹکارا نہیں پا سکتے بلکہ ان سیاست دانوں نے امریکا اور لندن میں اپنی لابی (Lobby) بنا رکھی ہے۔ چونکہ پاکستان امریکا کا ماضی میں اتحادی رہا اور رفتہ رفتہ چین سے قربت کے نتیجے میں امریکا کا دفاعی اتحادی نہ رہا، سامان حرب کی خریداری اور روابط امریکا سے جاری ہیں۔

اس لیے امریکی پاکستانی معاملات میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ شروع میں یعنی 58ء سے 1970ء تک امریکا فوجی بغاوتوں کی حمایت کرتا تھا مگر بعد میں ڈیموکریٹ اس پالیسی کے خلاف ہو گئے۔ کیونکہ مطلق العنان حکومتوں میں ملک کو زیرنگیں رکھنا آسان ہوتا ہے۔ مگر اب تو امریکا منحرف ہو چکا ہے اور جمہوریت میں کرپشن کو داخل کر کے امریکی اہداف پورے ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے جب جنرل مشرف کا مارشل لا لگا تو این آر او امریکی اور برطانوی ایما پر ہوا۔

اور جنرل مشرف نے اس پر عمل کیا۔ چونکہ محترمہ بے نظیر کی عالمی شہرت اچھی تھی اور ان کی ذات سے کرپشن منسوب نہ تھی اس لیے برطانوی اور امریکی حکمرانوں نے کوشش کی اور تمام کرپٹ سیاست دان گنگا جل سے اشنان کر کے پوتر ہو گئے پھر جو لوٹ مار ہوئی تو ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مگر آرمی چیف راحیل شریف نے کرپشن اور دہشت گردی کے خلاف جو عمل شروع کیا تو ملک کی بڑی پارٹیوں نے زبانی قوت کا مظاہرہ کیا مگر سیاسی لیڈروں کی نظری اور فکری اساس نہیں ہے۔ اس لیے مظاہرے کے لیے عوام تیار نہیں ہوئے کیونکہ لیڈر عوام دشمن ہیں۔

کیونکہ عالمی مارکیٹ میں جب پٹرول کی قیمت 141 ڈالر فی بیرل تھی تو یہاں پٹرول 100 روپے کے قریب تھا اور اب جب کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 37 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے جب کہ ایران نے اس کی قیمت 23 ڈالر فی بیرل آفر کی ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے 3 روپے پر عوام کو ٹرخا دیا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ بجلی کے بھاؤ کس قدر زیادہ ہیں، پٹرول کی قیمت اگر 37 روپے لیٹر رکھی جائے تب بھی 100 فیصد منافع ہے مگر طالع آزما حکمرانوں کو ملک و قوم کی خوشحالی سے کوئی غرض نہیں۔ ترقی کے بڑے بڑے حوالے ہیں مگر عملاً کوئی قدم نہیں اور نہ چینلوں پر بھی کوئی مباحثہ ہے۔

گزشتہ ہفتے پٹرول پر لکھا تو کل 3 روپے کا فرق آیا۔ بھلا حکمرانوں کو ملک سے کیا غرض ان کے نزدیک ہر ملک ملک مااست، جہاں منافع بسیار، ہر ملک میرا ملک ہے جہاں منافع بہت ملے خواہ وہ میرے نظریہ حیات کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر علیحدہ ملک کی ضرورت کیا تھی۔ اس وقت پاکستان کے لیڈران یہ چاہتے ہیں کہ کسی طریقے سے پاک بھارت جنگ ہو جائے تو ان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ اس کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا، مگر اس کا ثبوت یہ ہے جو کل تک فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے وہ اب شانہ بہ شانہ لڑنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔

حال ہی میں ماسکو نیوز نے 30 اگست کو جو بیان دیا وہ قابل غور ہے، بقول اس کے امریکا دنیا میں نہ ختم ہونے والی جنگیں چاہتا ہے اور اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو عراق اور افغانستان سے جنگ کے بعد مسلم ممالک آگ اور خون سے گزر رہے ہیں، تیونس، شام، لبنان، عراق، لیبیا اور اس کے بعد پاکستان کا رخ تھا۔ جو زد سے باہر رہا۔ 29 اگست کو ریاست ہائے متحدہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس (Susan Rice) اسلام آباد تشریف لائیں اور انھوں نے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی اور اکتوبر میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی صدر اوباما کا دعوت نامہ پیش کیا، تا کہ وہ اکتوبر میں اپنا دورہ کر سکیں بھارت اور پاکستان کے سرحدی حالات پر امریکی مشیر خاتون کو بھی بظاہر ان حالات پر تشویش ہے مگر اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ امریکا کو ان حالات پر کتنی تشویش ہے۔

کیونکہ امریکا کو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی حمایت نظر آتی ہے، لیکن انتہا پسندوں کی ابتدا میں امریکا نے ان کی حمایت کی اور آج تمام مسلم امہ میں خلفشار ہے۔ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔ بہر صورت صدر اوباما کے حالیہ چند اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسرائیلی سیاسی خارجہ حکمت عملی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ مگر پاکستان کے لیڈر ضرور اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں کیونکہ موجودہ لیڈروں نے کرپشن کر کے اپنی سیاسی آبرو ختم کر دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔