ہم پاکستانی

عبدالقادر حسن  ہفتہ 13 فروری 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستانی قومی سیاست کا مبینہ مرکز لاہور ان دنوں خاموش اور سیاست کی سرگرمیوں سے محروم ہے۔ نہ کوئی جلسہ نہ جلوس اور نہ ہی کسی آرام دہ ہوٹل کے محفوظ کمرے یا لابی میں کوئی پریس کانفرنس۔کسی سیاسی گھر میں کوئی شادی بھی نہیں غرض ہر طرف سیاسی خاموشی ہے صرف موسم بدل رہا ہے لیکن وہ بھی دھیرے دھیرے۔

ایک دن ذرا سی گرمی دوسرے دن ہلکی سی ٹھنڈک اور ہوا میں کچھ خنکی۔گرمیوں کے کپڑے بکسوں سے باہر نکال کر چار پائیوں پر بکھرے گرمی کا انتظار کر رہے ہیں۔کوئی خوش قسمت کپڑا ڈرائی کلینر کے پاس نہانے دھونے چلا جاتا ہے لیکن زیادہ تر ہلکی سی گھریلو دھلائی اور استری کی زد میں۔گرمیوں کے موسم کے سلے ہوئے کپڑے ابھی تک بازار میں دیکھے نہیں گئے البتہ گزشتہ گرمیوں کے بچے کھچے کپڑے اسٹوروں پر دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس دیسی لنڈے کے کپڑوں کو پذیرائی نہیں مل رہی۔

ولائتی لنڈے کے کپڑے ایک تو اچھی حالت میں ہوتے ہیں دوسرے کبھی فیشن میں تبدیلی کا سبب بھی بن جاتے ہیں، بعض اوقات ان کا کپڑا بھی ولائتی ہونے کی وجہ سے جاذب نظر ہوتا ہے اور پاکستانی ابھی اتنے غریب نہیں ہوئے کہ ناپسندیدہ لنڈا بازار پہننے پر مجبور ہوں۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ گرمیوں کے نئے کپڑے ابھی تک دکانوں میں نہیں آئے۔ میں گرمیوں کے لیے سفید شلوار قمیض بنوانا چاہتا تھا مگر معلوم ہوا کہ اچھی کوالٹی کا سفید کپڑا ابھی کپڑے کے کارخانوں سے نکالا نہیں گیا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی سیزن کے شروع میں گزشتہ سیزن کے بچے ہوئے کپڑے دکانوں میں دکھائی دیتے ہیں اور انھیں اس جدید انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بازار کی تازہ پیش کش سمجھے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں عام آدمی یعنی میرے جیسے پاکستانی اپنے ہم وطنوں پر اعتماد کرتے ہوئے پرانا کپڑا نئے داموں میں خرید لیتا ہے اور خوش ہو جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں کپڑے کی تیاری میں جس احتیاط اور ہنر مندی سے کام لیا جاتا ہے وہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔

لندن کا ایک واقعہ مجھے بڑے فخر کے ساتھ یاد رہتا ہے کہ وہاں ایک دکان پر گرم کپڑا خریدنے گئے اور جب دکاندار کو پتہ چلا کہ ہم پاکستانی ہیں تو اس نے ہمارے ہاتھوں سے اپناکپڑا واپس لے لیا گویا چھین لیا اور کہا کہ آپ کے ہاں فلاں مارکہ  کا کپڑا بنتا اور ملتا ہے تو آپ اس سے کمتر کپڑا لینے ہمارے پاس کیوں آ جاتے ہیں۔

ایک دکاندار کے منہ سے یہ بات سن کر ہم اس کا منہ تکنے لگے کہ یہ اپنے بکتے ہوئے مال کو روک کر ہمیں ہمارے گھر کا پتہ دے رہا ہے اس نے ہمارے تعجب زدہ چہروں کو دیکھ کر کہا کہ میں یہاں کاروبار ضرور کرتا ہوں مگر گاہک کی خدمت بھی کرتا ہوں اور میں نے اپنے خیال میں آپ کو گھر کے مال کا پتہ دے کر اچھا ہی کیا ہے۔ یہ میری نیکی سمجھیں۔

ہمارے ایک ساتھی نے ہنستے ہوئے اس انگریز دکاندار سے کہا کہ درست ہے آپ نے سو ڈیڑھ سو برس ہم پر جو زبردستی حکومت کی ہے آپ کا یہ سلوک اس کا تھوڑا بہت ازالہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مجھے اپنے ایک مرحوم دوست ملک غلام جیلانی کی وہ بات یاد آ رہی ہے جو انھوں نے ایک بار ویزا سیکشن کے ایک انگریز افسر سے کہی تھی آپ بغیر ویزہ کے ہمارے ہاں سو ڈیڑھ سو برس رہے اور ہم آپ  سے دو چار ہفتے کے قیام کا ویزا لینا چاہتے ہیں تو آپ انکار کر رہے ہیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔

جواب میں اس برطانوی افسر نے جو شاید اپنے مقبوضہ ہندوستان پر اپنی حکمرانی سے واقف تھا کہا کہ ہم نے آپ کے ہاں بہت انصاف کیا ہے اور تاج برطانیہ کی عزت رکھی ہے لیکن وہ زمانے گئے اب آپ بھی آزاد ہیں ہمارے ساتھ آزاد تاجروں والا رویہ رکھیں۔

قانوناً تو ہم آج آزاد ہیں اور ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ ماضی کی غلامی ماضی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی، اب ہمارے یہ بدیسی  حکمران بھی نہیں جانتے کہ وہ ہم پر حکمران رہے ہیں وہ نسل چلی گئی جس نے ہم پر حکمرانی کی تھی۔ وہ تجارت کا نام لے کر ہمارے ایک مغل بادشاہ کی اجازت سے ہندوستان میں کاروبار کے لیے آئے اور رفتہ رفتہ وہ کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہمارے حکمران بن گئے اور حکمران کیا بنے ہماری تو ایک نسل ہی بدل دی ۔

کوئی اینگلو انڈین کہلایا تو کوئی کالا صاحب اور یہ کالے صاحب اتنے پھیل گئے کہ انھوں نے سرکاری دفتروں میں انگریزوں کی جگہ لے لی اور ہندوستان اور پھر پاکستان کے حکمران بن گئے اور اب تک یہ پاکستان پر اپنے انداز میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ اور اتنی ترقی کر گئے ہیں کہ اب امریکا جا پہنچے ہیں اور اپنی اس چھلانگ میں ایک قدم برطانیہ میں رکھتے ہیں تو دوسرا امریکا میں۔ اب برطانیہ کی عالمی سیاست امریکا کے سپرد ہے۔

برطانیہ جس کی حکومت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب سمٹ سمٹا کر صرف جزیرہ برطانیہ تک محدود ہو گئی ہے اور اس جزیرے میں اب اتنی طاقت باقی نہیں رہی کہ وہ باہر نکل کر اپنی حکمرانی کی یاد تازہ کر سکے چنانچہ برطانیہ نے خوشی خوشی اپنے کمزور سیاسی اقتدار کو طاقت ور امریکا کے سپرد کر دیا اور خود آرام کے ساتھ بیٹھا ہے۔

یہ بنیادی طور پر ایک کاروباری قوم ہے جو بقول نپولین کے کبھی بھوکی نہیں مر سکتی چنانچہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی اس کے کاروباری دست و بازو دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ قوم خوش قسمتی سے اپنا وقت گزار رہی ہے۔ اس ہوشیار قوم نے اپنے ہاں مختلف شعبوں میں ایسے ادارے قائم کر لیے ہیں جن کی کارکردگی کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور ان سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

انگریز قوم نے اپنی حکمرانی کی طویل تاریخ اور دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ میل ملاپ کے بعد ایک ایسی دنیا بسا لی ہے جو اپنی کئی خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ اب تک قابل رشک بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے آج تک الگ ہو کر بیٹھتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے تربیتی اداروں کا معیار گرنے نہیں دیا ہے بلکہ زمانے کے ساتھ اس میں ترقی کی ہے۔

برطانوی قوم کے مزاج میں ایک خوبی پیدا ہو گئی ہے جس کا ایک نمونہ میں بیان کر چکا ہوں کہ وہ کاروبار بھی خدمت بنا کر کرتے ہیں اور بلاشبہ اس کا صلہ پاتے ہیں جو مالی نفع سے زیادہ سود مند ہوتا ہے اور آگے چلتا ہے اس قوم کو بلند کرنے کے لیے۔ ہم پاکستانی بالکل نئی قوم ہیں ہمیں  کسی خاص مقام تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔