ثناخوان تقدیس مشرق، خاموش کیوں؟

زبیر رحمٰن  بدھ 15 جون 2016
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی،
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی ’’امت‘‘ زلیخا کی بیٹی،
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
(ساحر لدھیانوی)

دنیا میں صف اول کی عظیم خاتون انارکسٹ کامریڈ ایما گولڈمان نے، جنھیں سرمایہ دارا دانشور دنیا کی خطرناک خاتون کہتے ہیں ایک موقعے پر کہا تھا کہ ’’جو بھی شخص خواتین کو تفریق کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔‘‘ ایماگولڈمان روس میں پیدا ہوئیں اور انھوں نے ساری زندگی امریکا میں محنت کشوں کی سیاست کی۔ 1917ء میں انقلاب کے بعد روس واپس آئیں اور چند سال بعد انتقال کر گئیں، ان کی نصیحت کے مطابق انھیں ’’یوم مئی‘‘ شہدا کے قبرستان امریکا میں دفنایا گیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ لڑکیوں اور خواتین کا قتل پاکستان، افغانستان اور افریقی ملک صحرائے اعظم میں ہوتا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کی بات کرنا چاہوں گا۔ یہ ایسے دل دہلا دینے والے واقعات ہیں کہ جو انسانیت کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔وہ جو نازک سی کلی اپنے ماں باپ کی گود میں پلی بڑھی، صرف اس الزام میں جلا دی گئی کہ اسے یہ بات معلوم ہونے کے باوجود کہ اس کی سہیلی نے کسی لڑکے سے اپنی مرضی کی شادی کرنے کے بارے میں محلے والوں کو بتایا کیوں نہیں؟ اس بد قسمت لڑکی کا نام عنبرین ہے، اس کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ ایک لڑکی نے اپنی مرضی سے کسی لڑکے سے شادی کر لی، جب والدین کو پتہ چلا کہ عنبرین کو پتہ تھا اس کے باوجود خاموش رہی تو محلے والے اسے دور لے گئے اور دوپٹے سے گلے میں پھندا لگا کر گلا گھونٹ دیا اور نشان عبرت بنا نے کے لیے اسے ایک ہائی روف گاڑی میں بند کر کے آگ لگا دی وہ آگ میں جل کر کوئلہ بن گئی۔ جب اس کے والدین کو پتہ چلا تو وہ انصاف کی دہائی دیتے رہے۔ جلانے والے گرفتار تو ہو گئے لیکن بیٹی واپس نہیں آئی۔

چند دنوں کے بعد مری میں ماریہ نام کی انیس سالہ ایک اور حوا کی بیٹی جو اسکول میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی تھی، اسے محلے کے ایک امیر شادی شدہ شخص سے شادی کی تجویز دی گئی، جسے ماریہ نے مسترد کر دیا جو اس کا بنیادی حق بنتا ہے لیکن انکار پر تجویزکنندگان نے ماریہ کو پکڑ کر اس پر تیل چھڑک آگ لگا دی۔ 14 مئی 2016ء کو اورنگی ٹاؤن کراچی میں سوتیلے بیٹے نصیب الرحمن نے 45 سالہ ماں شاہین کو قینچی اور ڈنڈے سے وار کر کے ہلاک کر دیا۔ 6 جون کو ملتان کے علاقے چوک سرور شہید میں خاتون کو برہنہ کر کے دوڑانے کا واقعہ منظر عام پر آیا۔ 3 جون کو آمنہ نامی لڑکی کی سوتیلی ماں رضیہ بیگم اور اس کے سگے باپ آغا ریاض نے جو پولیس اہلکار ہے، اپنی مرضی سے شادی کرنے پر آمنہ کو ہلاک کر دیا۔

انھی دنوں نواب شاہ کے علاقے شاہ پور جہانیاں میں لین دین کے تنازع میں جرگہ ہوا جس میں بااثر وڈیرے نے محنت کش کی 5 سالہ بچی نور خاتون کو 25 سالہ نوجوان سے ونی قرار دے دیا۔ جرگے کا فیصلہ نہ ماننے پر بچی کے والد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے چہرے پر کالک مل کر گاؤں سے نکال دیا گیا۔ 31 مئی کو فریئر تھانے کی حدود دہلی کالونی نمبر چار میں ناصر بلڈنگ فلیٹ نمبر تین سے ملنے والی خاتون کی لاش کی شناخت 35 سالہ حلیمہ بی بی کے نام سے کی گئی۔ لاہور میں فیکٹری ایریا کے علاقے میں ماں نے پسند کی شادی کرنے پر بیٹی کو آگ لگا کر زندہ جلا دیا۔ لڑکی کے شوہر حسن خان کے بیان پر قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔ چند روز قبل زینت نامی لڑکی نے پسند کی شادی کی، زینت کا خالہ زاد بھائی مشتاق احمد اس کے گھر آیا اور کہا کہ وہ زینت کو اس کی والدہ کے گھر لے جائے گا اور اچھے طریقے سے اسے واپس بھیج دیں گے۔

مشتاق ذمے داری لیتے ہوئے زینت کو اپنے ساتھ اس کے گھر لے آیا۔ گزشتہ روز اسے (حسن) کو اطلاع ملی کہ اس کی بیوی زینت پر تشدد کیا جا رہا ہے، جس پر وہ اپنے والد عبدالمجید کے ہمراہ زینت کے گھر گیا جہاں اس نے دیکھا کہ مقتولہ کے بھائی ظفر نے اس کے بازو کو پکڑ رکھا تھا اور اس کی والدہ پروین نے اس پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی، زینت نے موقعے پر ہی دم توڑ دیا۔ 8 جون کو درخشاں کے علاقے ڈیفنس خیابان شہباز میں ڈرائیور دل نذیر نے اپنے ساتھی نواز خان کے ساتھ مل کر بنگلے کی مالکن 70 سالہ مہ جبیں زوجہ کاظم کو قتل کر دیا۔

8 جون 2016ء کو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں چھپنے والی خبر کے مطابق سعید آباد کے علاقے کے نوجوان اسلم کو اپنی ماں حاجرہ بی بی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، پھر ہو گا کیا اس کا کچھ نہیں پتہ۔ جیکب آباد میں کاروکاری کے الزام میں دو عورتوں کو قتل کر دیا گیا، شوبز کے ایک شخص نے اپنی بیوی گل پری کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا، قصبہ علی دوست جھکرانی میں ملزم گل حسن جھکرانی نے غیرت کے نام پر اپنی بیوی مندر خاتون کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ لاہور میں گارڈ اشرف کی بیٹی صبا نے اپنی مرضی سے کرامت سے شادی کر لی تھی اور ایک بچہ بھی تھا۔ اس کے باپ اشرف نے رات ڈیڑھ بجے فائرنگ کر کے بیٹی صبا، داماد کرامت اور ساتھ دینے والے اکرام کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ 11 جون کو 25 سالہ ثانیہ جو ایم بی اے کی طالبہ تھی بابر سولنگی سے شادی کرنے سے انکار پر اسے گلستان جوہر سے اغوا کر کے کلفٹن میں اس کی لاش کو پھینک دیا گیا۔

جنوری 2016ء سے اب تک 212 افراد غیرت کے الزام میں قتل ہوئے جس میں 75 مرد تھے۔ آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ ہمارا معاشرہ خواتین کو ایک جنس کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس لیے کہاوت ہے کہ سارے جھگڑے زر، زمین اور زن پر ہوتے ہیں۔ یعنی زن کو بھی ایک ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ جب طبقاتی نظام ختم ہو گا، تو خواتین پھر جنس کے طور پر نہیں سمجھی جائیں گی۔

1917ء میں جب روس میں زار شاہی کے خلاف سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تو 1918ء میں جرمنی، 1919ء میں امریکا، 1929ء میں برطانیہ اور 1971ء میں سوئٹزر لینڈ کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ روس میں خاص کر وسطیٰ ایشیائی ریاستوں میں (افغانستان اور فاٹا جیسی صورتحال تھی) ہزار میں دو خواتین پڑھی لکھی تھیں اور انقلاب کے بعد چند سالوں میں سو میں سے ساٹھ ڈاکٹرز اور سو میں سے پچاس انجینئرز بن گئیں۔ آج بھی اس خطے میں اوسطاً 98 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔

اس لیے اس نظام زر، سرمایہ داری اور جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کیے بغیر خواتین پر کیے جانے والے جبر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ہاں مگر اس نظام میں رہتے ہوئے کم ازکم غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے دیگر اسباب کے خاتمے کے ساتھ ساتھ چند سالوں کی سزائیں دینے کے بجائے عمر قید کی سزا ہونی چاہیے جسے اسمبلی سے منظور کروانا ہو گا۔ جب کہ یہ عجیب بات ہے کہ دل دہلا دینے والے واقعات کے باوجود تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما خاموش ہیں۔ اس پر تو پورے ملک کی جماعتوں اور عوام میں زلزلہ آ جانا چاہیے تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔