بلدیاتی نظام کا راستہ روکا جا رہا ہے

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 2 جولائی 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں سلاطینی نظام ہزاروں سال تک نافذ رہا، لیکن ذرایع پیداوار میں تبدیلی کے ساتھ ہی شاہانہ دور کا خاتمہ ہونے لگا۔ بھاپ کی دریافت سے صنعتی ترقی کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو گئی۔ صنعتی ترقی کے فوائد کو سمیٹنے کے لیے دنیا کے شاطر انسانوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو متعارف کرایا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوریت کا نظام رائج کیا گیا۔

دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو کسی حد تک عوام جمہوریت کا حصہ بنتے رہے لیکن پسماندہ ملکوں میں جمہوریت اشرافیہ کی میراث بن گئی۔ پاکستان میں تو صورت حال اس قدر قابل شرم ہے کہ یہاں 69 سال سے جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کی اجارہ داری قائم ہے۔ اس اجارہ داری کو برقرار رکھنے اور مستحکم کرنے کے لیے انتہائی بے شرمی سے ولی عہدی نظام کو مستحکم کیا جا رہا ہے اور حیرت ہے کہ جمہوریت کے شیدائی اس سازش کے خلاف زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں مسئلہ کسی فرد واحد یا کسی خاندان کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ جمہوریت میں عوام کی بالادستی کا ہے۔

ہماری اشرافیہ کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ گیا ہے اور وہ ہر قیمت پر جمہوریت پر قابض رہنا چاہتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کی آنکھ بند کر کے حمایت کرنے والے اس حقیقت کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی بالادستی ہوتا ہے، فیصلے کرنے کا حق عوام کے پاس ہوتا ہے افسوس اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ جمہوریت کو حکمرانی کی ترقی یافتہ شکل سمجھنے والے اور لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے کا رٹا لگانے والوں کی آنکھوں کے سامنے ولی عہدی کو پروموٹ اور مستحکم کیا جا رہا ہے اور ہمارا میڈیا اس حوالے سے یہ سمجھے بغیر ولی عہدی نظام کو بڑھاوا دے رہا ہے کہ اگر یہ نظام موجود رہا تو صدیوں تک عوام اس نظام میں ہریجن بنے رہیں گے۔

عوام کی بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارا اہل علم اہل قلم اہل دانش اس ولی عہدی نظام کے خطرناک مضمرات کو سمجھے بغیر نہ صرف جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں بلکہ ولی عہدی نظام کو قبول بھی کر رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام جمہوریت کی اساس ہے اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ 69 سالوں کے دوران کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی نظام نافذ کرنے کے لیے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت نہیں کی بلکہ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔

2002ء میں بلدیاتی ناظمین کا نظام ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف نے نافذ کیا اس نظام کے تحت نہ صرف علاقائی مسائل تیزی سے حل ہوتے رہے بلکہ شہری علاقوں میں اس نظام کے تحت ناقابل یقین ترقی ہوئی جس کی ایک تابندہ مثال کراچی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مشرف کے بعد دو بار ملک میں جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں لیکن کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بلدیاتی انتخابات کروا کر بلدیاتی نظام کو فعال کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اقتدار میں عوام کی شرکت کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں کیونکہ بلدیاتی نظام اسٹیبلشممنٹ کے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔عدلیہ اور میڈیا کے سخت دباؤ کی وجہ سے ہماری جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات تو کروا دیے لیکن 7-8 ماہ گزرنے کے باوجود بلدیاتی نظام کو فعال نہیں کیا گیا۔ کسی نہ کسی بہانے بلدیاتی نظام کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

عدلیہ کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے بلدیاتی نظام کے آخری حوصلے پر عملدرآمد ہونے جا رہا تھا کہ محترم الیکشن کمیشن نے یہ قانونی نکتہ اٹھا لیا کہ چونکہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان فارغ ہو گئے ہیں، لہٰذا ان کی غیر موجودگی میں آخری مرحلہ میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ بلدیاتی نظام کو ایک بار پھر بڑی چالاکی سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے اہل علم اہل قلم اہل دانش منہ بند کیے بیٹھے ہیں عدلیہ اس حوالے سے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتی رہی ہے لیکن یہ کام اصولاً سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ بلدیاتی نظام کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے خلاف سڑکوں پر آئے لیکن ہماری سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کی لڑائی میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس بلدیاتی نظام کو فعال بنانے کے لیے وقت ہی نہیں۔ ان ساری سازشوں کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما ہے کہ جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کا اقتدار مستحکم رہے اور اسے کسی طرف سے کوئی خطرہ نہ ہو۔

ہماری حزب اختلاف کی ساری توجہ آج کل پاناما لیکس پر لگی ہوئی ہے۔ پاناما لیکس کے انکشافات نے ہماری اشرافیہ کی کرپشن کو بے نقاب تو کر دیا ہے لیکن ہمارے سیاسی سورما یہ سمجھنے سے دانستہ قاصر ہیں کہ جب تک ملک میں اشرافیائی جمہوریت قائم ہے قدم قدم پر ایک پاناما لیکس آتا رہے گا۔ لیکن نئے فقیر کو بھیک کی جلدی کے مترادف ہمارے سیاسی شہیدوں کو اقتدار کی جلدی ہے اور اقتدار ہی ان کی پہلی اور آخری ترجیح بنا ہوا ہے جب صورتحال یہ ہو تو جمہوریت اور بلدیاتی نظام کی طرف کس کی توجہ مبذول ہو سکتی ہے۔

بلاشبہ آج کئی قلم کار اس اشرافیائی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن بعض محترم قلم کار اور دانشور اس حقیقت کو سمجھے بغیر کہ اشرافیائی جمہوریت، جمہوریت نہیں بلکہ بالادست طبقے کی آمریت ہوتی ہے آنکھ بند کر کے ’’لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس اشرافیائی جمہوریت میں عوام کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارے محترم دوست یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں چارکروڑ سے زیادہ مزدور رہتے ہیں اس ملک میں زرعی معیشت سے جڑے غلاموں کی طرح زندگی گزارنے والے کسانوں ہاریوں کی تعداد 10 کروڑ کے لگ بھگ ہے اس ملک کے غریب طبقات آبادی کا نوے فیصد حصہ ہیں۔

کیا اس نوے فیصد آبادی کی قانون ساز اداروں میں کوئی نمایندگی ہے؟ اسی سوال کے جواب پر ہماری جمہوریت کا پردہ فاش ہو جاتا ہے بلاشبہ سیاسی تاریخ میں جمہوریت ایک اہم منزل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن جس جمہوریت میں 90 فیصد غریب طبقات کی نمایندگی نہ ہو اسے فراڈ جمہوریت تو کہا جا سکتا ہے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اہل عقل لوگوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوامی جمہوریت کے قیام میں حصہ بٹائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔