طاہر القادری کے دھرنے کا ڈراپ سین

ایڈیٹوریل  جمعـء 18 جنوری 2013
طاہر القادری کے پانچ روزہ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران پورے ملک میں غیر یقینی کی فضا چھائی رہی۔ فوٹو: محمد جاوید/ ایکسپریس ٹریبیون

طاہر القادری کے پانچ روزہ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران پورے ملک میں غیر یقینی کی فضا چھائی رہی۔ فوٹو: محمد جاوید/ ایکسپریس ٹریبیون

حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے بعد طاہر القادری کا پانچ روزہ دھرنا ختم ہو گیا۔ دھرنے میں شریک لوگ پر امن طریقے سے واپس چلے گئے اور کسی قسم کا کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ دھرنا 13 جنوری کو شروع ہوا اور 17جنوری کواس کا ڈراپ سین ہوگیا۔ جمعرات کو تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تین بجے کی ڈیڈ لائن اور ایکشن لینے کی دھمکی کے بعد 10 رکنی حکومتی مذاکراتی ٹیم اور طاہر القادری کے درمیان تقریباً پانچ گھنٹے تک مذاکرات ہوئے جس کا نتیجہ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن کی صورت میں سامنے آیا۔

چار نکاتی اسلام آباد ڈیکلریشن کے تحت قومی اسمبلی 16مارچ 2013ء سے قبل کسی وقت بھی تحلیل کر دی جائے گی جس کے تحت عام انتخابات 90 روز کے اندر منعقد ہو سکیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے تحت امیدوار کی پری کلیرنس کے بغیر اسے انتخابی مہم شروع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان عوامی تحریک حکومتی اتحاد سے مکمل اتفاق رائے سے دو نام نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کرے گی بعد ازاں آئینی طریقہ کار کے تحت نگران وزیراعظم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ طاہر القادری کا تیسرامطالبہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو آئینی پیچیدگیوں کے باعث تسلیم نہیں کیا گیا۔ چوتھے نکتے میں کہا گیا کہ انتخابی اصلاحات کے فیصلے پر سو فیصد عملدرآمد ہو گا۔

طاہر القادری کے پانچ روزہ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران پورے ملک میں غیر یقینی کی فضا چھائی رہی جب کہ لاہور سے اسلام آباد تک شہری زندگی کے معمولات اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ سیاسی بے یقینی نے عوام کو پریشان کیے رکھا۔ لانگ مارچ کے دوران دہشت گردی کا شدید خطرہ بھی اپنی جگہ موجود رہا مگر شکر ہے کہ ایسا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا، اگر اس موقع پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہو جاتا تو اس میں بے گناہ افراد کی جانیں ضایع ہوتیں جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ سیکیورٹی ادارے لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران انتہائی الرٹ رہے۔بہرحال حکومت نے بحران کو ٹالنے کے لیے مذاکرات کا جو راستہ اختیار کیا، وہ درست رہا اور معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔

ادھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس سارے کھیل میں ملک وقوم کے ہاتھ کیا آیا؟ لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک لوگوں میں سے اکثریت کو اصل سیاسی صورتحال کا علم نہ تھا۔ وہ مہنگائی‘ غربت‘ بے روز گاری‘ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے ستائے ہوئے تھے اور یہ اس لیے دھرنے میں شریک ہوئے کہ شاید اس طرح ان کے دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا ہو سکے گا۔ مگر دھرنے کا اختتام ان کے مسائل کے حل کے بجائے طاہر القادری کے سیاسی مطالبات کی قبولیت پر ہوا۔ اس دھرنے کا پھل اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کی جھولی میں تو گرا ہوگا مگردھرنے کے شرکاء خالی ہاتھ ہی گھروں کو لوٹ گئے۔ دھرنے میں شریک مسائل زدہ عوام جو امیدیں لے کر آئے تھے وہ بر نہ آ سکیں۔

جب وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے تو انھیں پھر انھی محرومیوں اور مسائل کا سامنا ہو گا جن کے حل کے لیے انھوں نے شدید سردی اور بارش کی صعوبتیں جھیلیں ۔ یہ امر بھی حیرت انگیز ہے کہ دھرنے میں شریک معصوم بچے‘ عورتیں اور مرد بارش میں بھیگتے اور سردی سے ٹھٹھرتے رہے مگر مذاکرات بم پروف کنٹینر میں ہوتے رہے ۔ طاہر القادری نے اپنے دھرنے کے دوسرے روز اسمبلیاں اور الیکشن کمیشن تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ طاہر القادری اپنی تقریروں کے دوران حکومت کو یزیدی گروہ سے مشابہ قرار دیتے ہوئے انھیں برا بھلا کہتے رہے دوسری جانب حکومتی ارکان کا رویہ بھی ایسا ہی رہا مگر جمعرات کو ہونے والے مذاکرات میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے گلے لگا لیا۔

ایک جانب یہ خوش آیند امر ہے کہ حکومت نے دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی اور گولی کا راستہ اپنانے کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنایا اور اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا مگر اس کا دوسرا پہلو مستقبل میں خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی گروہ لانگ مارچ اور دھرنے کے زور پر حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے پورے سیاسی نظام میں ہلچل مچا دے اورحکومت سے اپنی مرضی کے مطالبات منوا لے۔ اگر مروجہ انتخابی نظام میں کوئی خامی ہے تو اس کے حل کا بہترین فورم پارلیمنٹ ہے اور اگر کوئی آئینی یا قانونی خامی ہے تو اس کے لیے عدالت کا فورم موجود ہے۔طاہر القادری کی کوئی سیاسی جماعت نہیں،انھوں نے جو مطالبات پیش کیے وہ سیاسی نوعیت کے تھے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے منہاج القرآن کا مذہبی پلیٹ فارم استعمال کیا۔

ان کا حکومت سے نگران سیٹ اپ کے لیے جو معاہدہ طے پایا ہے وہ بھی سیاسی نوعیت کا ہے۔ سیاسی مطالبات پیش کرنا کسی سیاسی جماعت کا حق ہے نہ کہ ایک ایسی مذہبی تنظیم کا جو الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہی نہیں۔ طاہر القادری کے دھرنے کے دوران مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کی دعوت پر رائیونڈلاہور میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک اجلاس کے دوران طاہر القادری کے اس انداز سیاست کی مخالفت کی۔ یوں دیکھا جائے تو لانگ مارچ ڈیکلریشن پر اپوزیشن خوش نظر نہیں آتی۔ جمعے کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے اس معاہدے کو مک مکا قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کا تختہ الٹانے کے لیے آنے والے حکومت کے ساتھ شریک ہو گئے‘ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے‘ طاہر القادری کا چار نکاتی ایجنڈا پہلے ہی سے آئین میں موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مضحکہ خیز انداز میں کہا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا۔یوں ملک میں نئی سیاسی محاذ آرائی متشکل ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔طاہر القادری اور حکومت کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے ، اس پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیا جانا بھی ضروری ہے تاکہ نگران حکومت کے قیام اور عام انتخابات کے انعقاد کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا سکیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر صدر زرداری نے 21 جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں آیندہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ امید ہے کہ اب طے پانے والے معاہدے کے مطابق الیکشن کا انعقاد بروقت اور ملک میں موجود سیاسی افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔