نامہ نگار سے ایڈیٹر بننے تک

سردار قریشی  منگل 27 فروری 2018

نصف صدی سے زائد کے اپنے صحافتی سفر میں جن دوستوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا وہ اب بھی بہت یاد آتے ہیں۔ کیریئرکے شروع میں بطور نامہ نگار ماتلی کے اظہرعلی شاہین، ٹنڈو محمد خان کے پروانو بھٹی، تلہارکے خواجہ غلام حسین شاد اور ٹنڈو باگو کے مرتضیٰ شاہ ڈاڈاہی کی رفاقت حاصل رہی، ہم سب انجمن صحافیاں ٹنڈو سب ڈویژن کے اراکین تھے جس کے اجلاس عموماً ٹنڈو محمد خان میں میر پیر بخش تالپورکے بنگلے پر ہوا کرتے تھے، یہ 60ء کے عشرے کے اوائلی برسوں کی بات ہے۔

اس وقت تک صحافت کمائی کا ذریعہ نہیں بنی تھی اور محض خدمت کے جذبے کے تحت جیب سے خرچ کرکے کی جاتی تھی، اپنے شہر ٹنڈو غلام علی کا میں اکلوتا نامہ نگار تھا اور حالت یہ تھی کہ ایک میر بندہ علی خان تالپورکو چھوڑ کر سارا شہر مجھ سے تنگ اور بیزار تھا، بس یہ سوچ کر ایک گونہ اطمینان حاصل ہوتا تھا کہ ہم بے زبان مظلوموں کی آواز اور اپنے اخبارکے ذریعے ان کے مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچا کر انھیں حل کرانے کا وسیلہ ہیں۔ پولیس سے لے کر محکمہ انہارکے آبدار، دروغہ، ایس ڈی او اور محکمہ مال کے پٹواری تک سب خلاف تھے۔ جب کہ وہ وڈیرے اور چوہدری جن کے مفادات پر زد پڑتی تھی، جان کے درپے تھے لیکن کسی کی پرواکیے بغیر ہم اپنے کام میں مگن رہتے تھے، یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ گھر میں آٹا نہیں ہے لیکن اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کبھی نہیں بھولتے تھے۔

پھر جب حیدرآباد آکر صحافت کی عملی تربیت حاصل کرنا شروع کی تو جہاں شیخ علی محمد اور مولوی عبد الغفور سیتائی جیسے نامورایڈیٹروں کی سرپرستی اور نگرانی میں کام کرنے کا موقع ملا، وہیں محمد بخش جوہر اورعبدالرحمٰن جونیجو جیسے سینئر صحافیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا بھی موقع ملا۔ یہاں سندھ کی پہلی خبر رساں ایجنسی ماسٹر نیوز سروس کے بانی و روح رواں ماسٹرغلام دستگیرکا ذکر نہ کرنا سخت نا انصافی ہوگی جنہوں نے پہلی بار مجھے حیدرآباد جیسے سندھ کے دوسرے بڑے شہر میں بطور رپورٹر آزادانہ کام کرنے اور اپنی خبریں براہ راست اخبارات کو بھیجنے کا اختیار دیکر اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کا موقع دیا۔

1968ء میں حیدرآباد سے نواب شاہ اور پھر اگلے برس وہاں سے کراچی منتقل ہونے کے بعد جب میں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے مشورے سے ایجنسی سندھ پریس (اے ایس پی ) کے نام سے اپنی لوکل نیوز ایجنسی قائم کرکے فری لانس صحافت شروع کی تو فرہاد زیدی، اے ٹی نظامی، صلاح الدین، منہاج برنا، عبدالحمید چھاپرا، داؤد سبحانی، مظہرعلی خان، ارشاد احمد خان اور سلطان احمد خان جیسے چوٹی کے صحافیوں سے واسطہ پڑا ۔ ان تمام حضرات نے نہ صرف فراخدلی سے میری مدد و رہنمائی کی بلکہ اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا کرتے تھے ۔

لوکل نیوز ایجنسی کا تجربہ ویسے توبے حد کامیاب رہا جس کے ذریعے میں مقامی اخبارات کو اندرونِ سندھ کی خبریں فراہم کیا کرتا تھا جو اس زمانے میں ان کی بڑی ضرورت تھی کیونکہ آج کل کی طرح ہر جگہ ان کے نامہ نگار مقرر نہیں تھے اور یہ وہاں کی ایک ایک ہفتہ پرانی خبریںچھاپا کرتے تھے۔ میں ان سے اپنی فراہم کردہ خبروں میں سے ہر شایع ہونے والی خبرکا صرف ایک روپیہ چارج کیا کرتا تھا، اس کے باوجود اس دور میں جب سب ایڈیٹرکی تنخواہ ڈھائی تین سو روپے ہوا کرتی تھی، اے ایس پی کا اوسط ماہانہ بل دو ہزار سے کم نہیں ہوتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ میری فراہم کردہ ایک خبر شایع کرنے پر ہائی کورٹ کے جج، جسٹس ایچ ٹی ریمنڈ پر مشتمل اسپیشل ٹریبونل نے جو حیدرآباد میں اس زمانے کے ہائی پروفائل ڈاکٹر افغان کیس کی سماعت کر رہا تھا، ایک مقامی اخبار کو توہین عدالت کو نوٹس بھیجا جس کا مالک چاہتا تھا کہ میں رضاکارانہ طور پر ٹریبونل میں پیش ہوکر کہوں کہ خبرکی اشاعت کا ذمے دار میں ہوں، اخبارکا کوئی قصور نہیں۔ میں نے ایسا کرنے سے منع کردیا کیونکہ میرے خیال میں ایسا کرنا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوتا، مجھے اس سے انکار نہیں تھا کہ خبر میری ایجنسی کی جاری کر دہ تھی، میرا موقف یہ تھا کہ میں نے اخبار کو مذکورہ خبر شایع کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا، اسے شایع کرنا نہ کرنا اخبارکا صوابدیدی اختیار تھا۔

خبر ایجنسی کے حوالے سے چھپی تھی، اگر ٹریبونل اسے ذمے دار سمجھتا تو اخبارکی معرفت ہی سہی، براہ راست اسے نوٹس جاری کرتا لیکن اخبارکا مالک نہیں مانا، اس نے دھمکی دی کہ اگر میں ٹریبونل میں پیش نہ ہوا تو نہ صرف اس کا بلکہ کوئی بھی دوسرا اخبار میری ایجنسی کی سروس نہیں لے گا، اس نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے میں بھی دیر نہیں کی اور ایجنسی بند ہوگئی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی سال بھر تک ٹریبونل میں ذاتی طور پر پیش ہوکر معافی مانگتا اور جج کی جھڑکیاں سنتا رہا ۔

میں نے ایک پرائیویٹ فرم میں نوکری کرلی اور 1972ء میں جب بھٹو نے کراچی سے اپنی پارٹی کا ترجمان سندھی اخبار جاری کیا تو میں بھی اس کے ادارتی عملے میں شامل ہوگیا۔ سراج الحق میمن اخبارکے ایڈیٹر و چیف ایگزیکٹو تھے جنھیں صحافت کا توکوئی تجربہ نہیں تھا البتہ ان کا شمار سندھی زبان کے بڑے ادیبوں میں ہوتا تھا، ان کا انتخاب بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں عبدالحفیظ پیرزادہ اور سید قمر الزماں شاہ کی سفارش پر ہوا تھا جن کے ساتھ یہ پڑھے تھے ، لیکن پھر خود ان کے اتنے قریب ہوگئے کہ ان کے حاسدین مصرکے صدر جمال ناصر اور الاہرام کے ایڈیٹر حسنین ہیکل کی قربت کے حوالے سے انھیں پاکستان کا حسنین ہیکل کہا کرتے تھے۔ کوئی سابقہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود انھوں نے بہت جلد خود کو ایک بڑے اخبارکے بڑے ایڈیٹر کی حیثیت سے منوالیا، وہ 77ء میں فوج کے سربراہ جنرل ضیا کی بغاوت اور بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے تک ایڈیٹر رہے اور ان کے دور میں اخبار نے خوب ترقی کی۔

ان کی جگہ جس شخص کا بطور ایڈیٹر انتخاب کیا گیا وہ نیوز ڈیسک پر ہم سب سے جونیئر اور بحیثیت سب ایڈیٹر صبح کی شفٹ میں کام کرتے تھے، ان کا تقرر فوجی بغاوت سے کچھ ہی عرصہ قبل عمل میں آیا تھا، اس سے پہلے وہ پیر صاحب پگارا کے اخبار مہران سے وابستہ تھے، تب پتہ چلا کہ وہ کس لابی کی نمایندگی کرتے تھے جس نے انھیں یہاں تک پہنچانے میں کردار ادا کیا تھا۔ ہاشم میمن یوں تو شریف اور نرم خو آدمی تھے لیکن اپنی لابی کے وفادار اور انتہائی تابعدار تھے، 78ء کی تحریک آزادی صحافت کے دوران جب ہم سب جیل میں تھے۔

انھوں نے میری جگہ اپنی ہی لابی کے ایک دوسرے بندے کو مقرر کرنا چاہا مگر یونین کے ایک ساتھی انورسیال نے مزاحمت کرکے ان کی کوشش ناکام بنا دی۔ حکم کی بجا آوری نہ ہونے پر ٹرسٹ کی انتظامیہ نے انھیں فارغ کردیا، 79ء میں عبدالرحیم شیخ نے ان کی جگہ لی جن کے تقرر کی وجہ جنرل ضیاء کے نمبر2، جنرل فیض علی چشتی سے ان کی دوستی تھی جنھیں موصوف مْچھر (مونچھوں والا) کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، ہمیں اس کا پتہ فون پر ایک دو بار ان کی گفتگو سن کر چلا تھا، شیخ صاحب تھے تو سندھی لیکن لکھنا دورکی بات ٹھیک سے سندھی بولنا بھی نہیں جانتے تھے، انھوں نے ساری عمر انگریزی صحافت کی تھی اور ہمارے ایڈیٹر بن کر آنے تک ڈان میں رپورٹر تھے۔

مجھے وہ بھی سخت ناپسند کرتے تھے، ایک بار موصوف نے مجھے صرف اس لیے چارج شیٹ کیا کہ میں نے ویتنامی جنرل گیاپ کا انٹرویو نیوز ویک سے لفٹ کرکے اپنے بین الاقوامی صفحے میں چھاپا تھا۔ اچانک تشخیص ہوئی کہ انھیں بلڈ کینسر ہے، بیٹے نے علاج کے لیے امریکا بلوایا لیکن جانبر نہ ہوسکے، مکلی (ٹھٹہ) میں آسودہ خاک ہیں، زندگی وفا کرتی تو 80ء میں اپنی جگہ مجھے ایڈیٹر بنتے دیکھتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔