- فوج کو متنازع بنانے کا ڈرامہ بند ہونا چاہئے، سینیٹر فیصل واوڈا
- وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات
- بھارت: شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر امام کو شہید کردیا
- آئی ایم ایف نے 1.1 ارب ڈالر قسط کی منظوری دے دی
- پاکستان، آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری کیلیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گا، آصف زرداری
- کوئٹہ میں مرغی کے گوشت کی قیمت 1200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی
- لاہور: گندم کی خریداری نہ ہونے پر احتجاج کرنے والے کسان گرفتار
- اسلام آباد میں غیرملکی خاتون سیاح کو لوٹنے والے گروہ کا سرغنہ گرفتار
- کراچی پولیس کا اغوا برائے تاوان کا ایک اور کیس سامنے آگیا
- اے ایس پی شہر بانو نقوی شادی کے بندھن میں بندھ گئیں، تصاویر وائرل
- انتخابی نتائج کیخلاف جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان
- ضلع خیبر: سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 دہشت گرد ہلاک
- وکیل کے قتل میں مطلوب خطرناک اشتہاری آذربائیجان سے گرفتار
- معیشت میں بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے جارہے ہیں، وزیراعظم
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی
- کراچی میں گرمی کی لہر برقرار، منگل کو پارہ 40 تک جانے کا امکان
- سعودی عرب میں لڑکی کو ہراساں کرنے پر بھارتی شہری گرفتار
- رجب طیب اردوان پاکستان کے سچے اور مخلص دوست ہیں، صدر مملکت
- کراچی: او اور اے لیول امتحانات میں بدترین بد انتظامی سے ہزاروں طلبہ اذیت کا شکار
- عجیب و غریب ڈیزائن کی حامل گاڑیاں
کرپٹو کرنسی کی لت؛ علاج کے لیے پہلا طبی مرکز قائم
تصویر کے دو رُخوں کے مانند ٹیکنالوجی کی ہر شکل بھی مثبت اور منفی پہلو رکھتی ہے۔ عقل مندی ٹیکنالوجی کا مثبت اور اعتدال میں رہتے ہوئے استعمال کرنے میں ہے بہ صورت دیگر نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ اور اس کے مختلف پہلووں سے جسمانی اور ذہنی نقصان اٹھانے والے افراد کی بحالی پر دنیا بھر میں توجہ دی جارہی ہے۔
انٹرنیٹ کی لت کئی قسم کی ہوتی ہے۔ بعض نوجوان آن لائن گیم کھیلنے کے جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دن رات کمپیوٹر اسکرین پر نظریں جمائے گیم کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں اور بالآخر بیمار ہوجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے بہت سے شائقین آن لائن جوا کھیلتے ہیں، ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کی لت کا شکار ہے، جو دن اور رات کا بیشتر وقت اسمارٹ فون یا کمپیوٹر کے ذریعے فیس بُک، ٹویٹر وغیرہ پر صرف کرتی ہے۔
انٹرنیٹ کے جنونیوں میں اب ایک اور کیٹیگری کا اضافہ ہوگیا ہے اور یہ ہے ورچوئل کرنسی یعنی کرپٹوکرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد۔ یہ لوگ آن لائن رہتے ہوئے کرپٹوکرنسی کی خریدوفروخت میں مصروف رہتے ہیں، ان کی شرح تبادلہ پر نظر رکھتے ہیں، ان کا دماغ ہر لمحے اسی اُدھیڑ بُن میں لگا رہتا ہے، اور نگاہیں اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ پر جمی رہتی ہیں۔ یہ عادت بہ تدریج جنون میں بدل جاتی ہے۔ پھر انھیں اپنے اردگرد کا ہوش نہیں رہتا اور تمام تر توجہ کا مرکز صرف ورچوئل کرنسی ہوتی ہے۔ کھانے پینے اور دیگر معمولات زندگی سے غافل ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ بالآخر ذہنی و جسمانی صحت کے نقصان کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
چین اور کئی دوسرے ممالک میں نوجوانوں سے انٹرنیٹ کی لت چھڑانے کے لیے باقاعدہ بحالی کیمپ وجود میں آچکے ہیں۔ یہاں آن لائن گیمنگ، سوشل میڈیا کے جنونیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اب اسکاٹ لینڈ میں کرپٹوکرنسی کے کاروبار کی لت کا شکار افراد کی بحالی کا مرکز قائم کردیا گیا ہے۔ اپنے طرز کا دنیا بھر میں یہ پہلامرکز ہے۔
پیبل شائر کے علاقے میں واقع کیسل کریگ ہاسپٹل میں قائم کردہ اس مرکز میں مریضوں کے علاج کے لیے وہی طریقے اختیار کیے جارہے ہیں جو جوے کی لت میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق کرپٹوکرنسیوں جیسے بٹ کوائن کا لین دین انسانی رویے میں شدت پسندی، جنون اور وہی علامات پیدا کردیتا ہے جو جواریوں میں نظر آتی ہیں۔ کرپٹوکرنسی کے کاروبار سے منسلک افراد ہر لمحہ ان کرنسیوں کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
اسپتال میں جواریوں کے معالج کرس برن کے مطابق کرپٹوکرنسی کے کاروبار سے منسلک ہائی رسک، ہر پل کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ لوگوں کو کشش کرتا ہے۔ اس کاروبار سے جُڑی سنسنی خیزی اور حقیقت سے فرار میں انھیں خاص کشش محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں بٹ کوائن کی قیمتیں زمین سے آسمان پر پہنچ گئی تھیں۔ ایک بٹ کوائن کی قدر اٹھارہ انیس ہزار ڈالر تک چلی گئی تھی لیکن اب یہ قدر منھ کے بل آگری ہے۔ اس عرصے کے دوران لوگوں نے بے انتہا نفع کمایا اور بے انتہا ہی نقصان بھی برداشت کیا۔ یہ کلاسیک ببل سچویشن ہے۔
کرپٹو کرنسی کے ’ متأثرین‘ کی صحیح تعداد ہنوز نامعلوم ہے، کیوں کہ اس ضمن میں اب تک کوئی تحقیق یا سروے نہیں کیا گیا۔ البتہ ایک اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ورچوئل کرنسی کے کاروبار سے جُڑے افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ اگر ان افراد پر اس کاروبار کے وہی اثرات پڑ رہے ہیں جو کہ جوا کھیلنے والوں پر ہوتا ہے تو پھر یقیناً یہ تشویش ناک بات ہوگی۔
گزشتہ برس اگست میں برٹش گیمبلنگ ایسوسی ایشن نے انکشاف کیا تھا کہ 2012ء سے 2015ء کے دوران جوے کی لت کے باعث برباد ہونے والے لوگوں کی تعداد 280000 سے بڑھ کر 430000 تک پہنچ چکی تھی۔ یعنی صرف تین سال کے دوران جوے کی لت کے ہاتھوں زندگی تباہ کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 53 فی صد سے زائد اضافہ ہوا تھا۔ اگر چند برسوں کے بعد کرپٹو کرنسی سے متعلق بھی اسی طرح کے اعدادوشمار سامنے آتے ہیں تو پھریقیناً ان لوگوں کی بحالی کے لیے عالمی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت درپیش ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔