’’یو ٹو شٹ اپ مسٹر شیخ رشید‘‘

سالار سلیمان  بدھ 29 اگست 2018
نئے پاکستان میں کم ظرفی کا یہ عالم ہے کہ اپنے پیش رو کے اچھے کام کو ماننے کو تیار نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

نئے پاکستان میں کم ظرفی کا یہ عالم ہے کہ اپنے پیش رو کے اچھے کام کو ماننے کو تیار نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

گزشتہ دنوں جب حکومت تبدیل ہوئی اور شیخ صاحب کی واحد قابلیت یعنی پگڑی اچھالنے اور بدزبانی کے عوض اُنہیں ریلوے کی وزارت دی گئی تو اُنہوں نے بریفنگ کےلیے ریلوے کے افسران کی میٹنگ کال کرلی۔ اِس میٹنگ میں سب ہی بالا افسران شریک تھے۔ یہ ہماری قومی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ پورے معاشرے کی چھنی ہوئی عمدہ کریم، جسے ہم ’’سول سرونٹس‘‘ کہتے ہیں، ایک ایسے وزیر کے سامنے ’’یس سر‘‘ کہنے پر مجبور ہے جس کی قابلیت ’’تھڑے کی سیاست‘‘ ہے۔

شیخ صاحب جب میٹنگ میں پہنچے تو اُنہیں ایک دو بریفنگز میں ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اُن کےلیے مشکلات کھڑی کرگیا ہے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ اُس نے بلور کے دور میں ڈوبتی ہوئی ریلوے کو دوبارہ سے پٹڑی پر دوڑانا شروع کر دیا ہے۔ ریلوے کا ریونیو 50 ارب روپے سالانہ کی حد کو عبور کرچکا ہے۔ بند شدہ کارگو ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ریلوے کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے، ای ٹکٹنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور اِس کے علاوہ ایسے بے شمار کام ہیں جن کا کریڈٹ خواجہ سعد رفیق کے سر جاتا ہے۔ لیکن کریڈٹ دینے کےلیے بڑا دل اور اعلیٰ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ہماری ملک کی بیشتر سیاسی کلاس ویسے ہی مبراء ہے۔ شیخ صاحب کےلیے اب مسئلہ یہی تھا کہ اگر اُنہیں موجودہ ریلوے سے نام کمانا ہے تو پھر اپنے پیشرو سے بہتر اور زیادہ کام کرنا ہوگا؛ اور ہم سب جانتے ہیں کہ شیخ صاحب کی قابلیت تھڑے کی زبان، بدتمیزی اور تھکی ہوئی جگت بازی ہے۔

میٹنگ میں جب سینئر افسر اشفاق خٹک نے اپنی بریفنگ کا آغاز کیا تو اُنہوں نے ماضی کا ریکارڈ بھی بیان کیا کہ کیسے برباد ریلوے اب آباد ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ انا پرست شیخ رشید کو یہ حقیقت ہضم نہیں ہوئی۔ اُس نے انتہائی بدتمیزی سے سگار کا کش لیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ لوگ مجھے رضیہ بٹ کے ناول سنا رہے ہیں۔ کام کی بات بتائیں۔ میٹنگ میں شامل تمام ہی افسران کےلیے یہ رویہ افسوسناک تھا۔ شیخ صاحب نے صرف اِس پر ہی بس نہیں کی بلکہ سابق وزیر اور اُن کے خاندان کے قصیدے پنجابی میں میٹنگ کے شرکاء کو سناتے چلے گئے۔ اشفاق خٹک چپ چاپ کھڑے سنتے رہے۔ اشفاق خٹک ایماندار اور نیک نام افسر ہیں۔ گزشتہ دن بھی شیخ رشید نے یہی کچھ کیا تھا اور آج بھی وہی ہو رہا تھا؛ بلکہ اب تو سب سے سینئر افسران کی تذلیل بھی شروع ہوچکی تھی۔

اس موقعے پر چیف کمرشل مینیجر حنیف گل نے مسٹر منسٹر کی توجہ اُن کے لہجے پر کروائی تو شیخ صاحب نے توپوں کا رُخ اُن ہی کی جانب موڑتے ہوئے ’’شٹ اپ‘‘ کہہ دیا۔ جواب میں حنیف گل نے بھی ’’یو ٹو شٹ اپ‘‘ کہہ دیا۔ ظاہر ہے کہ آپ ریاست پاکستان کے ملازم ہیں، کسی تھڑے باز سیاستدان کے ملازم تو نہیں۔

میرے ذرائع بتاتے ہیں کہ شیخ رشید نے اِس کے بعد غصے میں کہا کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا۔ جس کے جواب میں حنیف گل نے بھی کہا کہ دیکھ لیجیے گا۔ شیخ صاحب کسی بھی سول سرونٹ کا کچھ بھی نہیں کرسکیں گے کیونکہ یہ اِن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

جس افسر نے شیخ رشید جیسے زمینی خدا کو شٹ اپ کال دی، وہ حنیف گل پاکستان ریلویز کے مایہ ناز افسر ہیں۔ یہ اُن معدودے چند افسران میں سے ایک ہیں جن کی ایمانداری اور کمٹمنٹ کی گواہی اُن کے مخالفین، سینئرز اور جونئیرز، سب ہی دیتے ہیں۔ اس سے پہلے کوئٹہ اور پھر پشاور کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کے عہدوں پر بھی کام کرچکے ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ دونوں ڈویژن کس حد تک مشکل ہیں۔ ریلوے سے متعلق تمام اخبار نویس جانتے ہیں کہ حنیف گل امریکا اور برطانیہ سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملک سے محبت کے جنون میں مبتلا ہیں؛ اور بہترین مواقع نظرانداز کرکے پاکستان ریلوے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

حنیف گل عمران خان کے ساتھ اُس وقت سے کھڑے ہیں جب شاید عمران خان بھی اپنے ساتھ نہیں کھڑا تھا۔ پاکستان کالج آف لاء میں انہوں نے اُس وقت عمران خان کو دعوت خطاب دی جب خاں صاحب کے اپنے محلے کے لوگ بھی اُن کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ حنیف گل تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے پر خوش تھے، وہ افسروں اور دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال میں سو دن کے پروگرام اور تحریک انصاف کے منشور کو قابل عمل قرار دے کر سراہتے تھے۔

حنیف گل صرف بیوروکریٹ نہیں بلکہ ایک انتہائی قابل وکیل بھی ہیں جو شاید وکالت کا پیشہ چنتا تو آج ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہوتا؛ جبکہ آج اِس کی حالت دیکھنے کےلیے میو گارڈنز کے بالکل کونے میں ایک گھر دیکھ لیجیے۔ حنیف گل کا ایک کریڈٹ اور بھی ہے کہ اُس نے بہت سے قابل اور ذہین لوگوں کو سی ایس ایس کی ایسی تیاری کروائی کہ وہ اُسے بہ آسانی کلیئر کرگئے۔ پاکستان کالج آف لاء کا تربیت یافتہ یہ بیوروکریٹ شاید ہر دور میں ایسا ہی تھا۔ اگر کوئی بات غلط ہے تو پہلے تمیز سے سمجھائے گا اور اُس کے بعد اُس زبان میں سمجھائے گا جس زبان میں مخاطب کو سمجھ آئے… اور یہی بات شیخ رشید کے ساتھ ہوئی تھی۔

میٹنگ کے بعد حنیف گل نے انتہائی دکھی دل سے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس وزیر کے ساتھ کام نہیں کرسکتا لہذا مجھے لمبی چھٹی لے کر چلے جانا چاہیے۔ اُنہوں نےسیکرٹری/ چیئرمین ریلوے کے نام درخواست میں واضح طور پر لکھا کہ موجودہ وزیر ریلوے کام کے آداب سے نابلد ہیں اور اُن کا رویہ انتہائی غیر پیشہ ورانہ (نان پروفیشنل) ہے۔ سول سروس آف پاکستان کا معزز رُکن ہونے کی حیثیت سے میرے لیے اِن کے ماتحت کام کرنا ممکن نہیں جبکہ وزیر صاحب کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنی مرضی کی ٹیم رکھیں جو اُن کا وژن آگے بڑھاسکے۔ لہذا مجھے 730 دن یعنی دو سال کی رخصت دی جائے۔ یہ درخواست انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی۔

میں اگر حنیف گل سے واقف نہ ہوتا تو شاید یہی کہتا کہ یہ بیوروکریسی کا کوئی نیا کھیل ہے کہ میری بیوروکریسی پر ماضی میں کی گئی تنقید ریکارڈ کا حصہ ہے۔ لیکن حنیف گل کی بات الگ ہے۔ آپ اِس کا ماضی کھنگال لیجیے، پاکستان کالج آف لاء سے شروع کرتے ہوئے آج تک، جیسے دل کرے ویسے گھسیٹ لیجیے۔ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ آپ انکوائری بھی کروالیں، اگر حنیف گل پر کرپشن اور بدعنوانی کا ایک بھی الزام ثابت ہوجائے یا وہ اِس معاملے میں بھی غلط ثابت ہوجائے تو میں صحافت کا یہ قلم ہمیشہ ہمیشہ کےلیے توڑ دوں گا۔

حنیف گل، ہم آپ سے شرمند ہ ہیں کہ آپ جیسے قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر کی ایک بد زبان اور بدتمیز وزیر قدر نہیں کرسکا۔ آپ کسی اور سسٹم میں ہوتے تو آپ کو پلکوں پر بٹھایا جاتا، لیکن یہاں نیا پاکستان بننے کے باوجود سسٹم وہی فرسودہ اور پرانا ہے۔

جہاں تک بات ہے شیخ رشید کی تو اِن سے کون واقف نہیں؟ ایک سینئر صحافی نے انکشاف کیا کہ شیخ صاحب لگژری گاڑی ’ہمر‘ کے مالک ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کیسے وہ یہ گاڑی افورڈ کرتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کے شیخ رشید کے متعلق حالیہ بیانات تو ریکارڈ کا حصہ ہیں، ذرا اُن کی وضاحت دے دیں۔ لال حویلی کے معاملات سے کون واقف نہیں؟

باتیں تو بہت سی ہمارے علم میں ہیں شیخ صاحب! عرض اتنی سی ہے کہ آپ کی یہی حرکتیں ایمانداروں کے حوصلے توڑتی ہیں اور پھر کرپشن راج کرتی ہے۔ یہ کیسا نیا پاکستان ہے جہاں اِس حد تک کم ظرفی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ آپ اپنے سابق کے اچھے کام کو ماننے کو تیار نہیں؟ ایسی حرکتوں سے آپ پگڑی اچھال سکتے ہیں، آپ بھیڑ چال کا حصہ بنتے ہوئے ولن کا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن آپ ادارے کی بہتری نہیں کرسکتے۔

اگر کچھ کرنا ہے تو اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر سوچیے۔ لیکن دس لاکھ ڈالر کا سوال تو یہ ہے کہ کیا شیخ رشید اپنی ذات سے بالاتر ہوسکتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔