- شراب برآمدگی کیس : علی امین گنڈا پور کی گاڑی سے برآمد بوتل عدالت میں پیش
- الخدمت فاؤنڈیشن کا اُردن سے غزہ امدادی سامان بھجوانے کیلیے معاہدہ
- فیض آباد دھرنا کیس؛ وفاقی حکومت کی نظرثانی اپیل سماعت کیلیے مقرر
- برازیل میں بارشوں نے تباہی مچادی؛ 29 ہلاک اور 60 لاپتا
- حج آپریشن 9 مئی تا 9 جون جاری رہے گا، فلائٹ شیڈول جاری
- او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس: پاکستان کا غزہ محاصرے کیخلاف مشترکہ جہدوجہد کا مطالبہ
- گیری کرسٹن کی بطور ہیڈکوچ تعیناتی؛ پاکستان کرکٹ کیلئے نئے دور کا آغاز قرار
- عالمی یومِ صحافت پر خضدار میں دھماکا، صدر پریس کلب صدیق مینگل جاں بحق
- سعودی حکمران پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، وزیراعظم
- حسن علی کی سلیکشن! آفریدی نے بھی حیران رہ گئے
- بھارت؛ شیوسینا کی رہنما کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ
- مخصوص نشستیں؛ پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سنی اتحاد کونسل کی اپیل سماعت کیلیے مقرر
- قومی ٹیم کے دورہ جنوبی افریقہ کے شیڈول کا اعلان ہوگیا
- ڈاکوؤں کا نیا طریقہ واردات، حیدرآباد سے کراچی آنیوالی پوری وین لوٹ لی
- اسلام آباد میں رہنے والے چینی شہریوں کا ڈیٹا مرتب، سکیورٹی سخت کردی گئی
- گندم سمیت دیگر اشیا کی اسمگلنگ میں کسٹمز اہلکاروں کے ملوث ہونے کا انکشاف
- پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کے بھائی پختونخوا حکومتی ٹیم سے فارغ
- سلمان بٹ کا محمد حارث کو اپنے اوپر نظرثانی کا مشورہ
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت کم ہو گئی
- وزیراعظم نے گندم درآمد کرنے کا نوٹس لے لیا، تحقیقات کا حکم
مولانا کے درویش
وطن عزیز کے گونگے بہرے بے سُرے بے مہار حالات کل کیا تھے آج کیا ہیں اور کل کیا ہوں گے۔ اس کا علم نہ آپ کے پاس نہ میرے اختیار میں۔ جن کے اختیار میں کچھ ہے وہ نہ جانے کیا سوچتے ہیں اور کن خیالوں میں گم ہیں مثلاً بجلی موجود نہیں مگر اس پر ٹیکس صرف وہی لگا سکتے ہیں، کسی دوسرے میں اتنی عقل کہاں۔ اس تمام صورتحال سے گھبرا کر توجہ بانٹنے کے لیے ٹی وی کھولا تو اس پر ایک فلم کے کچھ حصے دکھائی دیے جن سے طبیعت کا رنگ ہی بدل گیا۔ اس میں مولانا روم کے درویش رقص کرتے دکھائی دیے۔ میں نے گھر کی دیوار کی طرف دیکھا جس پر ایک بڑی سی تصویر آویزاں ہے۔
انھی رقاص درویشوں کی، جو شعیب عزیز نے مجھے تحفہ میں دی تھی، پھر یوں مجھے وہ دن بہت یاد آئے جب ترکی کے شہر قونیہ مولانا کے شہر میں چند دنوں کے لیے مقیم تھا۔ مولانا روم کی درگاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ہوٹل تھا اور میں جب بھی باہر نکلتا مزار کی طرف نکل جاتا اور اتفاق سے اس چوک میں سے گزرتا جسے ’’مجمع البحرین‘‘ یعنی دو سمندروں کے ملاپ کا مقام کہتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا روم کی اپنے مرشد شمس تبریز سے پہلی ملاقات اسی چوک میں ہوئی تھی۔ مولانا مدرسے سے فارغ ہو کر خچر پر سوار یہاں سے گزر رہے تھے کہ ایک مست درویش نے ان کی باگ پکڑ کر انھیں روک لیا۔ دونوں میں چند جملوں کا تبادلہ ہوا جس کا آج تک کسی کو علم نہیں ہو سکا۔
مولانا خچر پر سے اترے اور دونوں مولانا کے گھر کی طرف چل پڑے۔ کہتے ہیں کہ جب کئی روز تک کوئی بھی گھر سے باہر نہ آیا تو اہل مدرسہ اور مرید گھبرا گئے اور اس گھر میں پہنچے جہاں ان دو سمندروں کا ملاپ جاری تھا۔ نہ جانے کن اسرار سے پردے اٹھ رہے تھے اور یہ دونوں صوفی کن منزلوں سے گزر رہے تھے، سلوک و معرفت کا یہ جاری سلسلہ عقیدت مندوں کی شدید مداخلت سے بند ہوا اور مولانا کسی حد تک پھر سے معمولات میں مصروف ہو گئے اور ان کے درویش مرشد یا ہمراز اپنے معمولات میں۔ مولانا اور ان کے مرشد شمس تبریز کے اس تعلق کی داستاں بڑی طویل ہے۔ مولانا اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے یہ مشہور زمانہ شعر کہا کہ
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزے نہ شد
یعنی روم کا یہ مُلّا اس وقت تک مولوی نہ بن سکا جب تک یہ شمس تبریز کا غلام نہ بن گیا۔ مشہور تو یہاں تک ہے کہ مولانا کو شمس تبریز سے الگ اور جدا کرنے کے لیے شمس تبریز کو قتل کرنا پڑا۔ مولانا کے ایک صاحبزادے بھی اس قتل میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ مولانا کے متوسلین کو رنج یہ تھا کہ مولانا نے تدریس بھی ترک کر دی تھی۔ لوگوں سے ملاقاتیں بھی منسوخ کر دیں جس پر مولانا کے مرید درویش بھی شدید اضطراب کی کیفیت میں ادھر ادھر پھرنے لگے۔ مختصراً شمس تبریز کے بعد مولانا رفتہ رفتہ واپس آ گئے۔ میں قونیہ میں ایک مزار دیکھنے گیا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ شمس تبریز کا مزار ہے۔ معلوم نہیں کیوں مجھ پر اس مزار کی زیارت کے دوران عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی، ایسی کہ میں گھبرا گیا اور واپس ہوٹل چلا گیا۔
مولانا کے مزار سے ملحق جو کمرے یا حجرے ہیں ان میں سے ایک میں مولانا سے متعلق کچھ چیزیں رکھی ہیں۔ بہت بڑے دانوں والی تسبیحیں جو فرش پر رکھی ہیں اور قریب ہی مختلف سائز کی بانسریاں، خشک بے جان لکڑی کی بانسریاں جن کی آواز میں مولانا کو ان کے دوست کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ان کی شہرہ آفاق مثنوی اس شعر سے شروع ہوتی ہے۔
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
خشک تار و خشک پود و خشک پوست
از کجا می آئد ایں آواز دوست
’’سنو یہ بانسری کیا حکایتیں بیاں کرتی ہے۔ یہ تو اپنے دوست کی جدائی کا شکوہ کرتی ہے اور میں حیران ہوں کہ ان خشک تار و پود اور خشک چمڑے سے دوست کی آواز کہاں سے آتی ہے‘‘
یہاں اس حجرے میں جو مولانا سے متعلق اشیاء کا عجائب خانہ سمجھئے ایک طرف کئی نمونوں کی بانسریاں رکھی ہیں۔ مولانا رات کو انھی بانسریوں کی دھن پر کسی دوست کی آواز سنتے تھے۔ مولانا روم کا یہی سماع تھا جسے سن کر ان کے درویش وجد میں آ جاتے تھے اور ان کے وجد کی اس کیفیت میں ان پر رقص جاری ہو جاتا جو تصوف کی ایک قدیم روایت بن گیا اور اب تک جاری ہے۔ بانسریوں کی دھنوں پر درویش رقصاں ہیں۔ مولانا کے یہ درویش ترکی کا ایک تاریخی اثاثہ اور اس حوالے سے پوری دنیا ان کے سادہ رقص کی دیوانی ہے۔ مولانا کے عقیدت مند لوگ جہاں بھی ہیں مولانا کے درویشوں کے رقص پر حالت وجد میں رہتے ہیں۔ عثمانی ترکوں کے زمانۂ عروج کے ایک سلطان سلیمان نے طویل حکمرانی کی اور تخت پر ہی وہ بوڑھا ہو گیا۔ ایک دن نہ جانے کس کیفیت میں اس نے اپنے وزیر اعظم سے پوچھا ’’پاشا باؤ ہم سب تو چلے جائیں گے ترکی میں باقی کیا رہ جائے گا ہمیشہ کے لیے۔‘‘ وزیر اعظم نے احتراماً عرض کیا آپ کا اپنا کیا خیال ہے۔ اس پر عثمانی خلافت اور سلطنت کے اس حکمران نے کہا ’’صرف دو چیزیں۔ ایک انگورا کی بکریاں (نرم ترین بالوں والی انگورا وول کی مالک) اور دوسرے مولانا روم کے درویش۔‘‘ اور یہ کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت کا والی سر جھکا کر سخت افسردہ دکھائی دینے لگا کہ وہ ان دونوں سے محروم ہو جائے گا۔ وہ بار بار مولانا کے درویش مولانا کے درویش کہتا رہا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔