- میکسیکو میں چوہے کا سوپ بیچنے والی واحد دکان
- ایسٹرازینیکا کووِڈ ویکسین سنگین بیماری کا سبب بن سکتی ہے، کمپنی کا اعتراف
- لاکھوں صارفین کا ڈیٹا چُرا کر فروخت کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی عائد
- مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
- چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 529 ارب کی ریکارڈ سطح پر
- یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
- یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال
- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی 2025؛ ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
’دی اینڈ‘ کیوں نہیں؟
سچ پوچھیے تو اس دنیا کی حقیقت ہی دی اینڈ ہے۔ ایک خاتمہ، ایک سکون اور ایک تبدیلی۔ خوشی کے وقت کا تیزی سے گزر جانا اور اداسی کے لمحات کا طویل ہو جانا ہی ہماری اپنی ذہنی اختراع ہوتی ہے۔ ہم کوئی بھی رشتہ بناتے ہیں یا کسی بھی چیز سے خود کو وابستہ کرلیتے ہیں تو بس اسی کے ہوکر رہنے لگتے ہیں حالانکہ حضرت انسان تو ایسا ہے کہ نہ صرف وہ بدلتا ہے بلکہ اس سے منسلک حالات و واقعات بھی تبدیلی کو جنم دینے لگتے ہیں۔
مان لیا کہ دنیا میں سب کچھ آپ کی مرضی سے نہیں ہوسکتا، البتہ ہر وقت کی منفی سوچوں سے آپ اپنے مقصد سے پیچھے ضرور ہٹنے لگتے ہیں اور زندگی کی ان مشکلات سے بھی نبرد آزما نہیں ہوسکتے جن سے نمٹنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوسکتا تھا۔
نوجوان نسل ہی کو دیکھ لیجیے۔ میڈیا کی اندھا دھند تقلید، والدین کی عدم توجہی اور جنسی و نفسیاتی مسائل پر کھل کر بات نہ کرنے کی وجہ سے دن رات ان کے رشتے ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں… بریک اپس پر بریک اپس، ہمارے ان نوجوانوں کی رہی سہی عقل کو بھی ختم کرنے میں ایک پل نہیں لگاتے۔
والدین ہیں تو وہ ایک دوسرے کی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ آفس میں باس اپنے ماتحتوں سے الجھتا نظر آتا ہے تو دوسری جانب ماتحت پیٹھ پیچھے اپنے باس کو مغلظات بک رہے ہوتے ہیں۔ مایوسی کا یہ سارا چکر اس لیے چلتا رہتا ہے کیونکہ ہم ہر چیز کو مستقل سمجھتے رہتے ہیں؛ جبکہ یہ تمام کی تمام چیزیں، افراد حتی کہ ہم خود بھی فانی ہیں۔ اب اس سب تمہید کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ جناب اس زندگی کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں، ہمیں تو موت کےلیے ہی تیار رہنا چاہیے۔ ایسا ہر گز نہیں، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو تہذیب کے ارتقاء کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ پھر تو انسان وہیں غاروں میں رہتا اور اشاروں کی زبان سے ہی اپنا مطمع نظر بیان کرتا رہتا۔
یہ فطرت اور اس کے نظارے، اسکے جلوے، سبھی رنگین ہیں۔ بے شک عارضی ہیں لیکن خود میں ایک دلفریبی سموئے ہوئے ہیں، حال میں جینا ہی تو زندگی ہے، تاکہ ماضی کے دھندلکوں اور مستقبل کے خدشات سے چھٹکارا پایا جاسکے۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ اپنی عقل مند بیٹی سے پوچھنا کہ دنیا میں سب لوگ ایک سے کیوں نہیں؟ اس بات کا جواب دینے کےلیے وزیر کی بیٹی نے اپنے گھر پر بادشاہ سلامت کو مدعو کیا۔ جب وہ وہاں دعوت کےلیے پہنچا تو پورے گھر میں ایک ہی رنگ کے پردے، ایک ہی رنگ کے برتن اور دیگر اشیاء تھیں۔ بادشاہ کا دل دعوت سے بہت جلد اوب گیا اور اس نے وزیر کی بیٹی سے جب اس بات کی شکایت کی تو وہ بولی کہ ایک رنگ سے کتنی بے چینی ہوتی ہے اسی طرح دنیا میں تمام انسانوں کے ایک جیسا ہونے یا ایک جیسا سوچنے سے کتنی بوریت اور یکسانیت لگتی ہے۔ انسانوں اور چیزوں میں تنوع ہی اسی کائنات کی خوب صورتی ہے۔
اگر غور کریں تو کامیاب اور ناکام افراد کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، سوچتے دونوں ایک طرح ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کامیاب افراد اپنی مثبت سوچوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کی ’’دی اینڈ‘‘ پر زیادہ واضح نظر ہوتی ہے۔ دنیا میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ موت سے یا کسی اور رشتے کے خاتمے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مردہ شخص اور مردہ رشتے کو دفن کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ مرنے والوں کو قبرستان میں دفنایا جاتا ہے، ان کے ساتھ خود دفن نہیں ہوا جاتا۔
یاد رکھیے کہ ہر دن ایک نیا دن ہے، ہر نیا دن پرانے دن کا دی اینڈ ہے، مصیبتوں سے گبھرائیے نہیں بلکہ ان پر ’’فل اسٹاپ‘‘ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔