آپ عید منائیں تو میں خوش ہوں

شیریں حیدر  ہفتہ 3 اگست 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو چکا… چند دن کے بعد ہر گھر میں عید کی خوشیاں اتریں گی، رمضان کے بعد یہ خوشی کا موقع ہر مسلمان گھر میں تقریب کی طرح منعقد ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے چند برس قبل تک میں بھی استقبال عید کے موقع کا ایک حصہ ہوتا تھا، میرے گھر میں بھی بہنوں کے آنچلوں کے رنگ بکھر جاتے تھے، مہندی کی خوشبو، چوڑیوں کی کھنک، عید کے پکوانوں کی مہک اور بہنوں کی طرف سے اکلوتے بھائی سے عیدی کا مطالبہ… اور میں نے بہنوں کا مان کبھی نہ توڑا… اپنی عیدی انھیں دے کر ان کے ہونٹوں پر جو مسکان دیکھتا تھا، وہ میری عمر کا ایک اثاثہ تھا۔

عید کا دن تہوار کا دن ہوتا اور میرے والدین کے گھر میں صبح سے شام تک دوستوں اور عزیزوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، ایک آتا اور دوسرا جاتا، بہنیں خوشی خوشی مہمانوں کی تواضع کرتیں… میں ان کے ساتھ مدد کرتا اور مہمانوں کے ساتھ ساتھ خود بھی ان پکوانوں سے لطف اندوز ہوتا۔ الائچی کی خوشبو والی چائے میری کمزوری اور میں اس روز جانے کتنے ہی کپ پی جاتا تھا۔ اب تو یاد بھی نہیں کہ آخری دفعہ ایسی چائے کب پی تھی۔ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے اور ہمارے دامن میں یادیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ میرے ہاتھ میں قہوے کا کپ پکڑے پکڑے ٹھنڈا ہو گیا ہے، پچھلے دو دن سے دودھ ختم ہو چکا ہے اور چائے کے نام پر ایسا قہوہ پی رہا ہوں۔

مجھے وہ سحری اور افطاری کے اوقات بھی یاد ہیں جب اپنی ماں جی کے ہاتھ کے دیسی گھی کے پراٹھوں کے ساتھ تازہ پکی ہوئی سبزی کا سالن ہوتا…  لسی اور پھل، ماں جی خود میری پلیٹ میں ڈالتیں اور اصرار کر کے کھلاتیں، ’’پتر دن کیسے گزرے گا اگر کھاؤ گے نہیں …‘‘ اور میں مندی مندی آنکھوں سے سب کچھ مجبوراً کھاتا تھا، اب سوچتا ہوں کہ کہاں گئی وہ نیندیں؟ بسا اوقات تو فرض کی ادائیگی میں کئی کئی راتیں مسلسل جاگتے گزرتی ہیں،  سات برسوں نے میری دنیا ہی بدل دی ہے، میں وہ نہیں رہا جو میں تھا۔ اب یہ سب کچھ یاد آتا ہے تو لگتا ہے کہ خواب و خیال کی باتیں ہیں۔

سوکھی روٹی بھی کھا لیں تو احساس نہیں ہوتا کہ کیا کھایا ہے، بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ سوکھی روٹی کھانے کا وقت بھی نہیں ہوتا اور پانی کے دو گھونٹ پی کر روزے کی نیت کر لیتے ہیں۔ ماں کے وجود کی خوشبو بھی ماں کے ہاتھ کے پراٹھوں کی یاد کے ساتھ آتی ہے تو لگتا ہے کہ ماں میری یاد میں تڑپ رہی ہو گی، خود کو سنبھالتا ہوں کہ اگر میں کمزور پڑ گیا تو کسی اور کو کیا دلاسہ دو ں گا، کسی اور سے کیونکر کہوں گا کہ خود کو مضبوط کریں؟

میں ارض پاک کا ایک رکھوالا… وطن کا محافظ، خاکی وردی میں ملبوس ہو کر عام آدمی کی سوچ سے بلند ہو کر سوچتا ہوں۔ میں جب بھی گھر جاتا ہوں تو گھر والوں کی طرف سے دیر سے آنے کا شکوہ ہوتا ہے، میں انھیں سمجھاتا ہوں کہ انھیں عادت ہو جانی چاہیے، کیا معلوم کہ کبھی میں جاؤں تو لوٹ کر ہی نہ آؤں …ماں کا دل کیسا ننھے پرندے جیسا ہوتا ہے، میر ے سر پر بوسہ دیتے وقت میری ماں کا پورا وجود لرز رہا ہوتا ہے، وہ مجھے رخصت کرتے وقت مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے اور میں اس کے ہاتھ پر بوسہ دے کر اس سے رخصت لیتا ہوں ، میرا دعاؤں والا ہاتھ، میرا سہارا ہاتھ۔ماں تڑپ تڑپ جاتی ہے…

میری بہنیں اپنی آنکھوں میں انتظار کے دیپ جلا کر ماں سے پوچھ رہی ہوں گی کہ اب کے برس عید کیسی ہو گی؟  کئی برس سے میری عید تو وہیں گزرتی ہے جہاں میرا فرض مجھے بلاتا ہے۔ اسی خاکی لباس میں، جو میرا فخر ہے، اسی گن کو پہلو میں لیے جو میرا زیور ہے۔ ہم وہ ہیں جو پہاڑوں سے لے کر صحراؤں تک اپنے لہو سے چراغ جلا کر مادر وطن کی پیشانی کو تابناک رکھتے ہیں…یہ ہتھیار ہمارے زیور ہیں اور عزم ، حوصلہ اور بہادری ہماری وردی کے اوصاف۔ ہم غزنوی اور غوری کے جانشیں ہیں اور بہادری ہمارا طرہ امتیاز ہے، ہم دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر لڑتے ہیں اور سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں۔ ہم مادر وطن کے ہر مخالف کی کمر توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی مادر وطن پر آنچ نہ آنے دینے کا عہد کرتے اور اسے اپنے لہو کا آخری قطرہ بہہ جانے تک پورا کرتے ہیں۔

جہاں میں اس وقت ہوں، اس سے بھی مشکل کئی محاذ ہیں، ان محاذوں کو دنیا کے ناممکن ترین محاذ کہا جاتا ہے، یہ وہ جگہیں ہیں جہاں جاتے ہوئے موت ہر لمحہ پیچھا کرتی ہے اور ایک ذرا سی لرزش ایسی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا دیتی ہے کہ شہیدوں کے وجود بھی نہیں ملتے… مگر ہمارے ساتھ ماؤں کی دعائیں ہیں، وہ ہمیں ہر وقت اور ہر مشکل سے نکال لیتی ہیں اور اس وقت تک ہماری حفاظت کرتی ہیں جب تک ہمیں شہادت کے جام نصیب نہ ہو جائیں۔

زندگی کسی کے لیے بھی نہیں تھمتی، عمر کا سفر جاری و ساری ہے… ہر گھر میں اس سال بھی رمضان کی رونقیں ہیں، عید کی تیاریاں ہیں، بازاروں میں گہما گہمی ہے… میری بہنوں کے رنگ برنگے آنچل بھی لہراتے ہوں گے، ان کی چوڑیوں کی کھنک بھی ہو گی اور گھر میں ماں کے ہاتھوں کے پکے پکوانوں کی مخصوص مہک بھی ہو گی، ہر چیز اپنے اصل مقام پر اور اسی ترتیب سے ہو گی۔ میری بہنوں کی نظریں میری راہ تکتی ہوں گی اور ماں کا دل خوشی کے دن بھی خالی ہو گا، ابا کی آنکھیں بھی مجھے یاد کر کے بھر آئیں گی، وہ سب مجھے یاد کریں گے اور میں جن حالات میں ہوں، مجھے شاید عید کے دن بھی ان سب کو یاد کرنے کا وقت نہ ملے۔ دشمن ہمیشہ ایسے دنوں کا فائدہ اٹھاتا ہے جب ہمارے جوان عید کی چھٹیوں پر گئے ہوتے ہیں اور ان مشکل محاذوں پر ہماری نفری نسبتا کم ہوتی ہے۔

عید کا دن اپنے جلو میں امیدیں اور تمنائیں لے کر آتا ہے، خوشیوں کے رنگ جا بجا بکھر جاتے ہیں، بچھڑے ہوؤں کے ملن کا دن ہوتا ہے، جو کبھی نہیں ملتے وہ بھی عید کے دن کوشش کر کے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایسے میں ہم محافظوں کی مائیں ہیں جن کی آنکھیں اس روز بھی برستی ہیں، ہمارے انتظار کی شمعیں بجھ جاتی ہیں اور دل تڑپ تڑپ اٹھتا ہے کہ ہم جہاں بھی ہوں اللہ کی امان میں ہوں۔ ماؤں کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں، ان کی اولاد عمر بھر ان کے وجود کی قید سے آزاد ہو کر بھی ان کے وجود کی قید میں رہتی ہے۔ اولاد سے اس کا رشتہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے۔

کل ہی تو ماں سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے پوچھاکہ کیا میں عید پر گھر آ رہا تھا؟ میں نے انہیں صاف جواب نہیں دیا، ’’شاید…‘‘ کہہ کر ایک انتطار کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔

’’عید پر نہ آؤ گے تو کب آؤ گے ماں کی جان؟‘‘

’’میرے آنے کی امید نہ رکھا کریں اماں … فوجی کی ماں کو تو علم ہوتا ہے کہ وہ جب بھی جاتا ہے، اپنے فرض کی پکار پر جاتا ہے، مادر وطن کی پکار پر جانے والے کو ہر بار لوٹ کر نہیں آناہوتا… کبھی کبھار اس کی بجائے اس کا شہید وجود…‘‘

’’ہاہ…‘‘ ماں کی کراہ نکل گئی… بڑا رتبہ سہی مگر دل تو خالی ہو جاتے ہیں نا شہیدوں کے لواحقین کے۔

’’تم نہ آؤ گے تو ماں کی کیا عید ہو گی بیٹا؟ بہنوں کا دن کیسے خوشی سے معمور ہو گا؟‘‘ ماں کی آواز آنسوؤں سے لبریز تھی۔’’میرا فرض سب سے اہم ہے ماں … میری مادر وطن کی حفاظت کا فریضہ میری اولین فوقیت ہے، میری لاکھوں بہنوں اور ماؤں کی عید کی خوشیاں ادھوری رہ جائیں گی… میں نہ آؤں گا ماں … میرے جیسے بہت سے نہ آئیں گے… سرحدوں کے محافظ، اپنے فرض کی ادائیگی دل و جان سے کریں گے تو ہر گھر میں عید کی خوشیاں دوبالا ہوں گی!!‘‘ میں نے ماں کو دلاسہ دیا۔

’’اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو… اس ملک کا اور اس ملک کے سب رکھوالوں کا…‘‘ اماں نے سسکی لے کر دعا دی اور فون بند ہوا تو مجھے علم تھا کہ میری ماں اپنے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھ رہی ہو گی…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔