- مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
- چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 529 ارب کی ریکارڈ سطح پر
- یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
- یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال
- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
- میئر کراچی کا وزیراعظم کو خط، کراچی کے ٹریفک مسائل پر کردار ادا کرنے کی درخواست
- رانا ثنا اللہ وزیراعظم کے مشیر تعینات، صدر مملکت نے منظوری دے دی
- شرارتی بلیوں کی مضحکہ خیز تصویری جھلکیاں
عوام کی حکومت عوام کے لیے
قیام پاکستان کے بعد ہر چیز میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آئی ، لیکن اقتداری ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اقتداری ڈھانچہ بھی ایسی کرپٹ اشرافیہ پر مشتمل ہے، جس کی زندگی کا واحد مقصد لوٹ مار اور غریب طبقات کے استحصال پر مشتمل ہے۔ اشرافیہ اس منظم طریقے سے جمہوریت کا پروپیگنڈا کرتی ہے کہ ہمارا انٹلیکچوئل طبقہ جمہوریت پر واری صدقے ہوتا رہتا ہے۔
اس اقتداری ڈھانچے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے مڈل کلاس کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ایک فوج کھڑی کر دی گئی ہے جو رات دن جمہوریت کا پروپیگنڈا کرتی رہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اشرافیہ کو جمہوریت کے پاسبان کے طور پر پیش کرتی ہے ۔ اس ڈھانچے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے عام لوگوں اور لوئر مڈل کلاس کو اس قدر احساس کمتری میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے کہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم یا صدر حتی کہ عام وزرا بن سکتے ہیں۔ اس سائیکی کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے قابل تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوان سوچ بھی نہیں سکتے کہ اقتدار پر ان کا حق ہو سکتا ہے۔
یہ فراڈ ڈرامہ چل رہا ہے اور اشرافیہ اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور بے چارے عوام رعایا کی طرح اشرافیہ کے شاہوں کی اطاعت کرتے آ رہے ہیں اور اشرافیہ کے غلام دانشوروں کا ایک حصہ اشرافیہ کے قذاقوں کو ظل سبحانی بنا کر عوام کو ان کی اطاعت کی تلقین کر رہا ہے۔ یہ صورتحال عوام اور حقیقی جمہوریت کے لیے بہت مایوس کن ہے۔
71 سال کے بعد ایک مڈل کلاسر پارٹی برسر اقتدار آئی ہے تو اشرافیہ کے پیٹ میں ایسی مروڑ اٹھ رہی ہے کہ اسے کوئی پل چین نہیں۔ اس حوالے سے اشرافیہ ملک کے وزیر اعظم کی طرح طرح سے ایسی توہین پر اتر آئی ہے کہ دوسرے ملک انگشت بدنداں ہیں۔ وزیر اعظم کے خلاف اس پروپیگنڈے کا واحد مقصد عوام میں وزیر اعظم کو غیر مقبول بنانا ہے۔ اشرافیہ نے اس نیک کام کے لیے پروپیگنڈے بازوں کی بے شمار ٹیمیں اتار رکھی ہیں جو اربوں روپوں کے خرچ سے مڈل کلاس حکومت اور اس کے وزیر اعظم کے خلاف رکیک پروپیگنڈے میں مصروف ہیں ۔
مشکل یہ ہے کہ اشرافیہ کی چھلنی میں اتنے سوراخ ہیں کہ پروپیگنڈے کا گندا پانی اس چھلنی میں رکتا ہی نہیں۔ اس صورتحال سے مایوس اشرافیہ غصے میں حکومت اور اس کے مڈل کلاسر اراکین کو مغلظات بکنے پر اتر آئی ہے، جس کے نتیجے میں حکومت کے ساتھ عوام کی قربت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے عوام کو مختلف حوالوں سے بانٹ کر رکھا گیا ہے تا کہ ان کی اجتماعی طاقت ایک مرکز پر نہ آ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ دھڑام سے آسمان سے زمین پر آ گرے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے دانشور، مفکر، ادیب اور شاعر اس سازش کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ اشرافیہ ہر قیمت پر حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی کی حکومتیں ملک پر 24 ہزار ارب قرض لاد کر چلی گئی ہیں جس کی وجہ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان بپا ہے حکومت بڑی کوششوں سے دوست ممالک سے امداد لے کر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن عشروں کی مہنگائی پر اتنی جلد قابو پانا آسان نہیں۔ دوست ممالک چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات عمران حکومت کی عوام سے محبت اور خلوص سے متاثر ہو کر ملک کو بھاری امداد دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اشرافیہ کو یہ خوف لاحق ہو گیا ہے کہ اس امداد سے حکومت کہیں ان مشکلات پر قابو نہ پا لے جو بڑی محنت سے اشرافیہ نے موجودہ حکومت کے لیے پیدا کی ہیں۔
شرافت ملاحظہ فرمائیے کہ حکومت کی ایمانداری اور عوام دوستی سے متاثر ہو کر پاکستان کو جو بھاری امداد دوست ملک دے رہے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو اپنے ملکوں کے دوروں کی جو دعوتیں دے رہے ہیں اس پر اشرافیہ یہ پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ حکومت کشکول لے کر دنیا کے ملکوں کے پاس بھیک مانگنے جا رہی ہے۔ بلاشبہ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن لازمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک کی اشرافیہ نے کرپشن کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کا کسی دوسرے کرپٹ ملک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس پتھر کو اٹھائیں اس کے نیچے سے کرپشن کا کوئی نہ کوئی ناگ نکل آتا ہے۔
جو اشرافیہ 71 سال سے اقتدار میں ہے وہ نہ صرف اقتدار کے اسرار و رموز سے اچھی طرح واقف ہے بلکہ اقدار کی زرگری کا بھرپور تجربہ بھی رکھتی ہے۔ اوپر سے نچلی سطح تک اپنے ٹرینڈ بندوں کو بٹھا رکھا ہے جو اشرافیہ کی سازشوں پر بڑی خوش اسلوبی سے عمل پیرا رہتے ہیں۔ تازہ اسکینڈل ایک جج صاحب کا ہے جو اشرافیائی کارندوں کے پروگرام پر عملدرآمد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انھیں اشرافیہ کے کارندوں نے پچاس کروڑ روپوں کی رشوت کی پیشکش کی تھی۔ لیکن جج صاحب نے اس رشوت کو ٹھکرا دیا۔ اس رشوت کا مقصد جج صاحب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بتایا جاتا ہے۔
ہماری تمام ہمدردیاں اس ملک کے ان 22 کروڑ غریب انسانوں کے ساتھ ہیں جو اشرافیہ کے دام میں آ کر غلط راستوں پر چلے جاتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام آیندہ انتخابات میں اشرافیہ کے کارندوں کو منتخب کرنے کے بجائے اپنے طبقے کے ایماندار اور مخلص لوگوں کو منتخب کریں اور اپنی بستیوں سے ہی اپنی قیادت نکالیں تا کہ سیاست اور اقتدار پر سے اشرافیہ کی اجارہ داریوں کا خاتمہ ہو سکے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔