- لوگوں کو لاپتا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- مسائل کے حل کے لیے کراچی کے لوگوں کو آواز اٹھانا پڑے گی، گورنر سندھ
- موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات: تیسرے سال بھی آم کی پیداوار میں نمایاں کمی
- روسی صدر 6 ماہ میں دوسری بار چین کے دورے پر پہنچ گئے
- ملازمت پیشہ خواتین سے متعلق بیان؛ سعید انور تنقید کی زد میں
- فرقہ وارانہ قتل میں ملوث دو ٹارگٹ کلرز گرفتار، 13 افراد کے قتل کا اعتراف
- آئی ایم ایف کا غربت کے خاتمے کے پروگرامز میں توسیع کا مطالبہ
- سپریم کورٹ سے عمران خان کی تصویر وائرل، تحقیقات شروع
- ٹی20 ورلڈکپ کیلئے قومی اسکواڈ کا اعلان کب ہوگا، تاریخ سامنے آگئی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- آزاد کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کا پیکیج احسان نہیں ہمارا فرض ہے، وزیراعظم
- یا تو پورا سیزن کھیلو ورنہ نہ آؤ! عرفان پٹھان نے کرکٹرز کو ذاتی ملازم سمجھ لیا
- خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں داخلے پرپابندی عائد
- بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں مزید 2 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا
- پاک بھارت ٹاکرا؛ ڈراپ اِن پچز کیوں؟ ہربھجن نے تنقید کے نشتر چلادئیے
- غزہ میں اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے 5 اسرائیلی فوجی ہلاک، 7 زخمی
- بجلی صارفین پر 310 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری
- ٹی20 ورلڈکپ؛ آئی سی سی نے بھارت کو پہلے ہی سیمی فائنل سلاٹ الاٹ کردی
- اسپتال مالک کے اغوا برائے تاوان میں ملوث 3 سابق سرکاری ملازم گرفتار
- پگڑیوں کو فٹبال بنانے کا کہہ کر کیا پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکایا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ
چین کو متاثر کرنے والا کرونا وائرس امریکا میں تیار ہوا؟
پوری دنیا میں فیس بک پر ایک پوسٹ زیرِ گردش اور زیرِبحث ہے کہ چین میں درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والا کرونا وائرس امریکی تحقیقی ادارے، سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) میں تیار کیا گیا تاہم سی ڈی سی کے ماہرن نے اس پوسٹ کی تردید کی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق 21 جنوری کو فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی تھی جو ہزاروں کی تعداد میں شیئر کی گئی۔ اس پوسٹ میں ایک پیٹنٹ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا کہ 2015ء میں امریکی ادارے سی ڈی سی نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم تیار کی ہے اور اس کا پیٹنٹ بنایا تھا۔ اس کے بعد نظریہ سازش کے تحت لکھا گیا کہ یہ وہی تبدیل شدہ وائرس ہے جس نے چینی شہرووہان میں تباہی مچائی اور درجنوں افراد اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
یہ پڑھیں :چین کے پُراسرار وائرس کا یورپ میں بھی داخل ہونے کا قوی امکان
فیس بک پوسٹ کا مقصد یہ تھا کہ امریکی ادارے نے تجربہ گاہ میں جان بوجھ کر وائرس کو مزید خطرناک بنایا اور اسے چین میں چھوڑ دیا ہے یا پھر سی ڈی سی نے منافع کمانے کے لیے یہ وائرس مزید تبدیل کیا ہے۔
اس کے جواب میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں کرونا وائرس کے ماہر رالف بیرک نے کہا ہے کہ ’وہ پیٹنٹ 2003ء میں تباہی پھیلانے والے SARS-CoV کے متعلق تھی جو ووہان میں پھیلنے والے وائرس سے 25 فیصد تک مختلف ہے، اس کا مقصد 2003ء کے اس سارس وائرس کو سمجھنا تھا جس سے چین میں 700 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے‘۔؎
ضرور پڑھیں :کرونا وائرس ہے کیا؟ 10 بنیادی سوالات کے جوابات
اس سے قبل خود چینی حکام بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ووہان میں نمونیا کی وجہ بننے والا وائرس بالکل نیا ہے جسے ایک الگ نام دیا گیا ہے اور یہ کسی بھی طرح سیویئر ریسپائریٹری اکیوٹ وائرس یا سارس کی طرح نہیں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔