- راولپنڈی سے چوری سرکاری ویگو سمیت 7 مسروقہ گاڑیاں برآمد
- پولیس اہلکار کے بھائی کی شادی میں فائرنگ سے مہمان جاں بحق
- بچوں میں بلند فشار خون فالج کے امکانات 4 گنا تک بڑھا سکتا ہے، تحقیق
- امریکی ایئرپورٹ پر مسافر کی پتلون سے سانپ برآمد
- جُھنڈ میں آزادانہ اڑنے والی روبوٹک مکھیاں
- محکمہ انسداد دہشتگردی کی بڑی کارروائی، دو اہم دہشتگرد ہلاک
- کھارادر میں گارڈ کے سر پر ہتھوڑا مار کر پستول چھین لیا گیا، ویڈیو وائرل
- ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن، سندھ پولیس کی نئی گاڑیوں کے لیے کروڑوں کے فنڈز منظور
- کوئٹہ سریاب روڈ پر پولیس موبائل پر حملہ، جوابی کارروائی میں 4 دہشت گرد ہلاک
- مسافروں کی حفاظت کیلیے ہر گاڑی میں ایک اہلکار سوار ہوگا، وزیراعلیٰ بلوچستان
- لاہور میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تیز رفتار گاڑی نے اکلوتے بچے کو کچل ڈالا
- گندم درآمد اسکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی کی انوارالحق کاکڑ یا محسن نقوی کو طلب کرنے کی تردید
- فیصل کریم کنڈی نے گورنر کے پی کا حلف اٹھا لیا، وزیراعلیٰ کی تقریب میں عدم شرکت
- پاکستانی نژاد صادق خان ریکارڈ تیسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب
- وفاقی حکومت 1.8 ملین میٹرک ٹن گندم خریدے گی، وزیراعظم
- باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی اور پڑوسی کے لڑکے کو قتل کردیا
- شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 6 دہشت گرد ہلاک
- فواد چوہدری 9 مئی سے جڑے 8 مقدمات میں شامل تفتیش
- آڈیو لیکس کیس میں آئی بی، ایف آئی اے اور پی ٹی اے سربراہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری، جرمانہ عائد
- ملازمت کے امیدوار کا آجر کو سی وی دینے کا انوکھا طریقہ
فیس بک نے نفرت انگیز اشتہارات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا
سلیکان ویلی: امریکی حکومت کی جانب سے تنقید اور یونی لیور سمیت سو سے زائد کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات کی بندش کے بعد فیس بک نے نفرت انگیز اشتہارات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق نئی پالیسی میں کسی خاص رنگ و نسل، قومیت، مذہب، ذات، جنسی رجحان، صنف، شناخت اور تارکینِ وطن (امیگریشن اسٹیٹس) سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسروں کی صحت اور جان و مال کےلیے خطرہ بنا کر پیش کرنے والے اشتہارات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اسی طرح تارکین وطن یا پناہ گزینوں کے خلاف نسلی منافرت پر مبنی اشتہارات اور اشتہاری مواد پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم ان نئی پابندیوں کا اطلاق غیر اشتہاری پوسٹوں پر نہیں ہوگا۔
اس سے قبل گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فیس بک کی نفرت انگیز مواد پر قابو پانے کےحوالے سے کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کئی یورپی اور امریکی کمپنیوں نے ویب سائٹ کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز امریکا کی بڑی ٹیلیکوم آپریٹر کمپنی ’’ویریزون‘‘ اور اشیائے صرف بنانے والی بین الاقوامی کمپنی ’’یونی لیور‘‘ نے بھی رواں سال فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
کمپنیاں فیس بک کا بائیکاٹ کیوں کررہی ہیں؟
امریکا میں شہری حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیموں اور گروپوں نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے پولیس حراست میں قتل کے بعد ’’اسٹاپ ہیٹ فور پرافٹ‘‘ (فائدے کےلیے نفرت پھیلانا بند کرو!) کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا تھا جس میں فیس بک کو بطور خاص ہدف بنایا گیا تھا۔
مہم چلانے والی تنظیموں میں شامل ’’کلر آف چینج‘‘ اور ’’نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘‘ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ فیس بک ’’نسلی منافرت، تشدد پر اکسانے والے اور واضح طور پر جعلی مواد کو اپنے پلیٹ فورم پر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
اس مہم میں فیس بک پر اشتہارات دینے والی کمپنیوں سے رجوع کیا گیا تھا کہ منافرت سے متعلق فیس بک کی پالیسیوں میں اصلاحات کے لیے اس پلیٹ فورم کا بائیکاٹ کریں۔ اس مہم کے نتیجے میں 90 سے زائد کمپنیوں نے فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا۔
مارک زکر برگ کا مؤقف
جمعے کو لائیو اسٹریم کے ذریعے فیس بک کے بانی و سربراہ مارک زکربرگ نے نفرت انگیز مواد کے خلاف اپنی کمپنی کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یورپی کمیشن کی رواں ماہ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق فیس بک نے گزشتہ برس 86 فیصد نفرت انگیز مواد حذف کیا۔
زکربرگ کا کہنا تھا کہ فیس بُک اور اس کے ماتحت دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ’’اپنے ملک میں بدلتے حقائق‘‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مزید سخت کریں گے۔ رنگ و نسل اور تارکین وطن ہونے (امیگریشن اسٹیٹس) کی بنیاد پر امتیاز کرنے والا اشتہاری مواد فیس بک سے ہٹا دیا جائے گا۔
زکربرگ نے اعتراف کیا کہ اس پابندی کا اطلاق صرف اشتہارات پر کیا جاسکے گا، تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ صارفین کی جانب سے ’’ممکنہ طور پر‘‘ نفرت کا پرچار کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر اس پالیسی کا اطلاق ممکن نہیں ہوسکے گا لیکن ایسے قابل اعتراض مواد کی نشاندہی ’’پرابلمیٹک‘‘ (باعثِ پریشانی) کے لیبل سے ضرور کردی جائے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔