- فوج کو متنازع بنانے کا ڈرامہ بند ہونا چاہئے، سینیٹر فیصل واوڈا
- وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات
- بھارت: شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر امام کو شہید کردیا
- آئی ایم ایف نے 1.1 ارب ڈالر قسط کی منظوری دے دی
- پاکستان، آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری کیلیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گا، آصف زرداری
- کوئٹہ میں مرغی کے گوشت کی قیمت 1200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی
- لاہور: گندم کی خریداری نہ ہونے پر احتجاج کرنے والے کسان گرفتار
- اسلام آباد میں غیرملکی خاتون سیاح کو لوٹنے والے گروہ کا سرغنہ گرفتار
- کراچی پولیس کا اغوا برائے تاوان کا ایک اور کیس سامنے آگیا
- اے ایس پی شہر بانو نقوی شادی کے بندھن میں بندھ گئیں، تصاویر وائرل
- انتخابی نتائج کیخلاف جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان
- ضلع خیبر: سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 دہشت گرد ہلاک
- وکیل کے قتل میں مطلوب خطرناک اشتہاری آذربائیجان سے گرفتار
- معیشت میں بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے جارہے ہیں، وزیراعظم
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی
- کراچی میں گرمی کی لہر برقرار، منگل کو پارہ 40 تک جانے کا امکان
- سعودی عرب میں لڑکی کو ہراساں کرنے پر بھارتی شہری گرفتار
- رجب طیب اردوان پاکستان کے سچے اور مخلص دوست ہیں، صدر مملکت
- کراچی: او اور اے لیول امتحانات میں بدترین بد انتظامی سے ہزاروں طلبہ اذیت کا شکار
- عجیب و غریب ڈیزائن کی حامل گاڑیاں
اب ہولوگرام ہوا کے اندر حرکت بھی کرسکیں گے
نیویارک: اگرچہ یہ بہت چھوٹے ہیں لیکن سائنسدانوں نے ہوا میں ہولوگرافک تصاویر کو حرکت دے کر اسے ترقی دی ہے۔ تجرباتی طور پر اسٹاروار فلم کی طرح سرخ اور سبز تلواروں کے ہولوگرام ہوا میں لہرائے گئے ہیں اور یہ حرکت کرنے والے پہلے ہولوگرام بھی ہیں۔
برگھم ینگ یونیورسٹی (بی وائے یو) کے سائنسدانوں نے اس سے پہلے ہوا میں فوٹون کی بوچھاڑ بھی پیدا کی تھی جسے عام افراد کسی آلے کے بغیر باآسانی دیکھ سکتے تھے۔ بی وائے یو میں الیکٹریکل انجینیئرنگ کے پروفیسر ڈین اسمالے کہتے ہیں کہ یہ حقیقی ہولوگرام ہیں جو ہر رخ سے مختلف دکھائی دیتےہیں۔
اس تحقیق کو بین الاقوامی طور پر غیرمعمولی قرار دیا گیا ہے جس میں تین سال کی محنت لگی ہے۔ اس میں کسی اسکرین کے بغیر، ہوا میں آزادانہ تیرنے والے مناظر اور ہولوگرام دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہیں آپٹیکل ٹریپ ڈسپلے کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے لیزر سے ہوا میں ایک ذرہ قابو کیا جاتا ہے اور لیزر کی مدد سے اسے حرکت دی جاتی ہے۔ اس طرح لیزر کا روشن راستہ بن جاتا ہے۔ اس ایجاد کو روشنی بنانے والا تھری ڈی پرنٹر بھی کہا جاسکتا ہے۔
اگلے مرحلے میں یہ گروپ ہوا میں سادہ اینی میشن کا عملی مظاہرہ کرے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انسان ہولوگرام سے کھیلیں گے اور اس سے سیکھیں گے۔ اگرچہ تھری ڈی اشیا دیکھنے کے لیے ہم اسکرین کو دیکھتے ہیں لیکن اس بار ہوا میں تھری ڈی اشکال دیکھی جاسکتی ہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔ تجرباتی طور پر ہولوگرافک چھڑی کو انسانی انگلی سے اوپر دکھایا گا ہے جو انگلی کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی ہے۔ اگرچہ یہ ابھی بہت چھوٹے ڈسپلے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہوا میں بڑے ہولوگرافک ڈسپلے بھی بنائے جاسکیں گے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔