نواب بانو سے اداکارہ نمی تک کا فلمی سفر (پہلا حصہ)

یونس ہمدم  جمعـء 20 مئ 2022
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

ہدایت کار محبوب خان کی فلم ’’انداز‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ سیٹ پر دلیپ کمار، راج کپور اور نرگس شوٹنگ میں حصہ لے رہے تھے اور اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی بھی اسی سیٹ پر نرگس کی نگہبانی کی غرض سے ذرا دور ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں، فلمی دنیا کی یہ ایک پرانی روایت ہے کہ ہر ہیروئن کی ماں یا نانی یا کوئی بھی سرپرست کسی بھی ہیروئن کو شوٹنگ کے دوران اکیلا نہیں چھوڑتی تھیںاور پل پل کی خبر رکھتی تھیں اور بھرپور نظر رکھتی تھیں، جدن بائی کی اپنی بھی ایک بھرپور شخصیت تھی، وہ اپنے زمانے کی نامور اداکارہ، ہدایت کارہ بھی رہ چکی تھیں۔

فلم ’’انداز‘‘ کے سیٹ پر اس دن ایک ٹین ایج لڑکی بھی شوٹنگ دیکھنے آئی ہوئی تھی وہ بھی دور ایک کونے میں کھڑی شوٹنگ ہوتے ہوئے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ جب کافی دیر ہوگئی تو جدن بائی کی اس پر نظر پڑی، ان کے قریب ایک کرسی خالی پڑی تھی، جدن بائی نے اس لڑکی کو اشارے سے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا’’ بیٹی! یہ کرسی خالی ہے، تم ادھر آ کر بیٹھ جاؤ، تم کب تک اس طرح کھڑی رہو گی؟ آؤ یہاں آ کر بیٹھ جاؤ۔‘‘ وہ لڑکی شرماتی ہوئی آئی اور جدن بائی کے قریب کرسی پر آ کر بیٹھ گئی۔

جب کئی شاٹس فلم بند ہوگئے تو کچھ دیر کا وقفہ ہوا، اس وقفے میں راج کپور کی نظر بھی اس لڑکی پر پڑی۔ وہ اس لڑکی کے پاس آئے، جدن بائی سے پوچھا’’ آنٹی! یہ لڑکی کون ہے؟‘‘ جدن بائی بولیں’’ میں اسے نہیں جانتی، یہ شوٹنگ دیکھنے آئی ہے، دور کھڑی تھی، میں نے اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا۔‘‘ راج کپور نے پھر غور سے لڑکی کو دیکھنا شروع کیا وہ اس طرح دیکھنے پر گھبرا بھی گئی اور شرما بھی گئی۔ راج کپور نے بے ساختہ کہا۔ ’’میری فلم میں کام کرو گی؟‘‘

جدن بائی نے مسکراتے ہوئے راج کپور سے کہا’’ تم تو ہر لڑکی کو اسی طرح گھور کر دیکھتے ہو، اور فلم میں چانس دینے کا کہتے ہو۔ ہمیں پتا ہے تم مردوں کا۔ تم لوگ ایک ہی مقصد کے لیے لڑکیوں کو گھورتے ہو۔‘‘ راج کپور نے فوراً کہا’’ نہیں نہیں آنٹی! یہ بات نہیں، میری شروع ہونے والی فلم ’’برسات‘‘ میں ایک نوخیز لڑکی کا کردار ہے، مجھے یہ لڑکی اس کردار کے لیے سوٹ کرتی ہے۔

فلم ’’برسات‘‘ میں نرگس کے ساتھ میں اس لڑکی کو سائیڈ ہیروئن کاسٹ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ پھر راج کپور نے اس لڑکی سے کہا’’ جلد ہی میری فلم ’’برسات‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ بولو! تم میری فلم میں کام کرو گی؟‘‘ اس لڑکی کے منہ سے یہ جملہ نکلا۔ ’’جی ہاں، مجھے فلموں میں کام کرنے کا بڑا شوق ہے‘‘ اور اس مختصر سی گفتگو کے بعد وہ لڑکی راج کپور کی فلم ’’برسات‘‘ میں سائیڈ ہیروئن سائن کرلی گئی تھی اور وہ لڑکی نواب بانو تھی، جس کا پھر راج کپور ہی نے فلمی نام نمی رکھا تھا۔

فلم ’’برسات‘‘ میں جہاں نرگس نے اپنی کردار نگاری کا جادو جگایا تھا وہاں نئی اداکارہ نمی نے بھی اپنی معصوم اور خوبصورت اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے تھے۔ فلم کے تمام گیت سپرہٹ تھے، نرگس اور نمی کی اداکاری فلم کی جان تھی، ایک گیت جو نمی پر فلمایا گیا تھا اس کی بڑی دھوم مچی تھی۔ گیت کی موسیقی لکشمی کانت پیارے لال کی تھی اور شاعر حسرت جے پوری تھے اور گیت کے بول تھے:

جیا بے قرار ہے چھائی بہار ہے

آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے

ایک بات اور بتاتا چلوں، موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کے ساتھ شاعر حسرت جے پوری کی یہ پہلی فلم تھی۔ نمی نے فلم ’’برسات‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نمی ہندوستان فلم انڈسٹری کی صف اول کی اداکارہ بن چکی تھی۔ ہندوستانی فلم کی ایک تاریخ اس کی فلموں سے وابستہ ہے۔

گزشتہ دنوں 25 مارچ کو جب اس کی برسی کا دن آیا نمی کے بارے میں شمع دہلی اور فلم فیئر میں پڑھی ہوئی بہت سی دلچسپ باتیں پھر سے تازہ ہوگئی تھیں۔ راج کپور نے نمی کو باقاعدہ راکھی بندھوا کر اپنی بہن بنایا تھا اور فلم کی شوٹنگ سے پہلے راج کپور نے نمی کا ایک اسکرین ٹیسٹ بھی لیا تھا۔ اس سے چند مکالمے بھی بلوائے تھے وہ مکالمے نمی نے اس انداز سے بولے تھے کہ سب حیران ہوگئے تھے اور نمی اسکرپٹ ٹیسٹ کے بعد سیدھی فلم کے سیٹ پر چلی گئی تھی۔

فلم ’’برسات‘‘ میں نمی کی بے ساختہ اداکاری کی دھوم مچ گئی تھی۔ فلم ’’برسات‘‘ میں نرگس، راج کپور کی جوڑی کے ساتھ نمی اور پریم ناتھ کی فلمی جوڑی بنائی گئی تھی، مگر پریم ناتھ میں ہیرو جیسی بات نہ تھی، پھر ولن بن کر فلموں میں آیا تھا۔  نمی کو فلمی دنیا سے متعارف کرانے کا سہرا اپنے دور کے ایک مایہ ناز گلوکار جی ایم درانی کے سر جاتا ہے، وہ بھی ایک اچھے پلے بیک سنگر تھے اور کندن لعل سہگل کے بعد جی ایم درانی نے بھی بہت سی ابتدائی فلموں کے لیے گیت گائے تھے۔

جی ایم درانی کی بیگم نمی کی سگی خالہ تھیں اور نمی اپنی خالہ کے ساتھ اکثر و بیشتر فلموں کی شوٹنگ دیکھنے کے لیے فلم اسٹوڈیو جاتی رہتی تھیں اور پھر اس کو بھی فلموں میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ فلم ’’انداز‘‘ کے سیٹ پر ہدایت کار محبوب خان نمی کو نواب بانو کے روپ میں دیکھ چکے تھے۔

اس کی معصومیت سے وہ بھی مرعوب ہوئے تھے اور جب انھوں نے اپنی فلم ’’آن‘‘ کا آغاز کیا تو دلیپ کمار کے ساتھ نئی اداکارہ نادرہ اور نمی کو بھی فلم کی کاسٹ میں شامل کرلیا تھا۔ محبوب خان کی فلم ’’آن‘‘ ہندوستانی فلم انڈسٹری میں ایک یادگار اور تاریخی فلم تھی جس نے سارے ہندوستان، پاکستان اور بیرون ملک میں ایک دھوم مچا دی تھی۔

یہ پہلی رنگین فلم تھی ، یہ فلم ہمارے اسکول کے زمانے میں کراچی کے ناز سینما میں ریلیز ہوئی تھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اس فلم کے بڑے بڑے بورڈ ناز سینما پر لگائے جا رہے تھے تو ناز سینما پر ’’آن‘‘ کے رنگین پوسٹرز دیکھنے کے لیے لوگ ایک ہجوم کی صورت میں ناز سینما کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے اور پھر جس جمعہ کو فلم ریلیز ہونی تھی اس رات تو لوگوں کی سینما کے سامنے اتنی بھیڑ لگی تھی یوں لگتا تھا جیسے عید کے تہوار کی چاند رات ہو۔اور ایک دلچسپ بات اور بتاتا چلوں کہ فلم بینوں نے فلم ’’آن‘‘ کا پہلا شو دیکھنے کے لیے ناز سینما کے باہر رات کو بستر تک لگا لیے تھے اور بہت سے شوقین فلم بین رات کو سینما کے باہر زمین پر اپنے بستر لگا کر رات بھر جاگتے رہے اور تاش وغیرہ کھیلتے رہے تھے۔

میں خود اپنے دو تین دوستوں کے ساتھ آدھی رات تک ناز سینما پر فلم کے پوسٹر دیکھتا رہا تھا اور جب گھر آیا تو والد صاحب نے میری اچھی خاصی پٹائی بھی کی تھی کہ اتنی رات گئے تک گھر سے باہر کیوں رہے تھے۔ پھر میں کئی دنوں تک اپنے دو تین دوستوں کے ساتھ ناز سینما جاتا رہا مگر جب ٹکٹ کی ونڈو کھلتی تھی تو گیٹ کا مکرانی ملازم لوگوں سے پیسے لے کر انھیں لائن میں کھڑا کردیتا تھا اور جب ٹکٹ ملنے شروع ہوتے تو جن لوگوں نے مکرانی گیٹ کیپر کو پیسے دیے تھے ان تک ہی ٹکٹ ملتے تھے اور پھر ٹکٹ کی ونڈو بند ہو جاتی تھی۔ پھر ہم دوستوں نے بہت دنوں کے بعد فلم ’’آن‘‘ دیکھی تھی۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔