- کرغزستان سے مزید ساڑھے تین سو طلبا وطن واپس پہنچ گئے
- اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے تحاشہ استعمال سے پاکستان میں سالانہ 7 لاکھ اموت
- اسحٰق ڈار کا سعودی ہم منصب سے رابطہ، محمد بن سلمان کے دورے کی تیاریوں کا جائزہ
- ہیٹ ویو کا خدشہ؛ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی
- فالج کی تشخیص کے لیے نیا ٹیسٹ وضع
- آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز مسافر طیارے پر کام جاری
- والدین نے بشکیک سے طلبا کو مفت لانے کے حکومتی دعوؤں کو جھوٹا قرار دے دیا
- ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے
- غیرملکی کمپنی پاکستان میں لائٹ ویٹ طیاروں کی مینوفیکچرنگ پر آمادہ
- ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور خشک رہنے کی پیشگوئی
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے 2 اہلکار جھیل میں ڈوب کر ہلاک
- ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار، تلاش جاری
- ایوان صدر کا کرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ، طلبا کی حفاظت کیلیے اقدامات کی ہدایت
- اسرائیل کی جنگی کابینہ کے اہم رکن کی مستعفی ہونے کی دھمکی
- کراچی: پولیس اہلکار شارٹ ٹرم اغوا برائے تاوان میں ملوث نکلے
- امتحانات آن لائن لیے جائیں گے، طلبا اپنے وطن واپس جاسکتے ہیں، کرغز وزارت تعلیم کا اعلامیہ
- راولپنڈی پولیس پر حملوں میں ملوث دہشت گرد ٹانک میں ہلاک
- آکسفورڈ یونی ورسٹی میں فلسطین کیلئے موت کا احتجاج
- اسکولوں میں ٹیلی اسکوپس نصب کرنے کا منصوبہ
- اسرائیل کی غزہ میں پناہ گزین کیمپ پر بمباری؛ 20 افراد شہید
بھارت کی پہلی خاتون صدر
اگست کی دو تاریخیں 14 اور 15 انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ان تاریخوں میں برصغیر پاک و ہند میں دو آزاد مملکتوں نے جنم لیا تھا جو بالترتیب اسلامی جمہوریہ پاکستان اور بھارت کے نام سے موسوم ہیں، اگر دونوں مملکتوں کا غیر جانبدارانہ موازنہ کیا جائے تو فرق واضح ہوجائے گا۔ ایک طرف ریاست برائے سیاست کا طرزِ عمل جاری ہے تو دوسری جانب سیاست برائے ریاست کا تسلسل قائم ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ اقتدار کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جس کی وجہ سے ملک دو لخت ہو گیا حالانکہ قوم ایک ہی تھی یعنی صرف مسلمان لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا جس کہ نتیجہ میں ہمارا جغرافیہ ہی بدل گیا۔
ہائے ہائے!:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
ہمارے ہاں کی جمہوریت کا احوال یہ ہے کہ گویا رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے جب کہ سرحد کے اُس پار جمہوریت نے حال ہی میں ایک نیا چولا پہنا ہے۔ ہماری مراد اس تبدیلی سے ہے جو وہاں صدارت کی کرسی میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی صورت میں واقع ہوئی ہے اور وہ یہ کہ بھارت کے ایوانِ صدر راشٹر پتی بھوَن میں صدارت کی کرسی ایک خاتون نے سنبھال لی ہے جن کا نام ہے دروپدی مرمو۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ نئی خاتون صدر کا تعلق ایک ’’آدی واسی‘‘ یعنی قبائلی گھرانے سے ہے اور وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی اور معروف شخصیت نہیں ہیں جب کہ ماضی میں اِس عہدہ پر ڈاکٹر راجندر پرشاد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مشہور و معروف بھارتی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام جیسے نابغہ روزگار فائز رہ چکے ہیں۔
برسبیل ِ تذکرہ عرض ہے کہ ہندی زبان میں صدر کو راشٹر پتی کہا جاتا ہے اور ایوانِ صدر راشٹر پتی بھَوَن کہلاتا ہے یعنی وہ جگہ جہاں راشٹر پتی رہتا ہے۔مزید یہ کہ ہندی میں‘‘پتی’’شوہر کو اور‘‘پتنی’’بیوی کو کہا جاتا ہے۔ ایک دلچسپ لسانی مسئلہ یہ ہے کہ آیا خاتون کی تقرری کے بعد صدر کے لیے ’’راشٹر پتنی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو کہ مونث کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں یا پھر اگر راشٹر پتی کہا جائے تو کیا تذکیر و تانیث کے لحاظ سے غلط نہ ہوگا؟
آئیے! دیکھتے ہیں کہ ہندی بھاشا کے ماہرین اِس مسئلہ کا کیا حل تلاش کرتے ہیں۔ بہرحال اب پوری دنیا دروپدی مرمو کے نام سے واقف ہوگئی ہے اور اُن کی تقرری سے بھارتی سیاست میں ایک نئی جمہوری روایت قائم ہوئی ہے۔ اب دروپدی مرمو اس عظیم الشان مکان کی مکین بننے والی ہیں جو وائسرائے ہاؤس کہلاتا تھا اور جو برٹش راج کے آخری دور کے ہندوستانی حکمرانوں یعنی وائسرائے کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کا کرشمہ ہے کہ وائسرائے کی رہائش گاہ اب ایک آدی واسی یا قبائلی خاتون کی سرکاری رہائش گاہ بننے والی ہے۔
اس کی تعمیر 1913 سے 1930 کے درمیان ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر کے ساتھ ہی انگریزوں نے کلکتہ کے بجائے دہلی کو ہندوستان کا دار الحکومت بنایا تھا۔ دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے رائے سینا کی پہاڑی پر واقع یہ عمارت ساڑھے چار ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں 340 کمرے، 54 بیڈ روم، دفاتر، باورچی خانے، پوسٹ آفس، شہرہ آفاق مغل گارڈن اور کھیل کے میدان ہیں۔ جیسا کہ توقع تھی دروپدی مرمو اب ہندوستان کی خاتون اول بن گئی ہیں۔ اب وہ پانچ سال تک اسی پرشکوہ عمارت میں مقیم رہیں گی۔ انھوں نے گزشتہ 25 جولائی کو اپنا حلف اٹھایا۔ وہ آزاد ہندوستان میں پیدا ہونے والی اب تک کی سب سے کم عمر صدر بھی ہیں۔
ان کی پیدائش جون 1958 میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر شیام چرن مرمو کا انتقال ہو چکا ہے۔ دروپدی مرمو اڑیسہ کے میور بھنج ضلع کے ایک چھوٹے سے سنتھال گاؤں اوپربیڈا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے صدر منتخب ہونے سے اس خطے کے جنگلوں میں رہائش پذیر ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں میں ایک نیا جوش پیدا ہو گیا ہے۔
وہ مذکورہ ضلع کے رائے رنگ پور اسمبلی حلقے سے دوبار منتخب ہوئی تھیں جہاں وہ ایک عرصے سے خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ان کی قسمت نے جب یاوری کی تو انھیں صدارتی امیدوار بنا دیا گیا، اگر چہ حکومت نے آیندہ چند ماہ میں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر ان کو امیدوار بنایا تھا تاکہ ان ریاستوں میں بڑی تعداد میں موجود قبائلی ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صدر جمہوریہ کے منصب کے لیے ان کے انتخاب نے ہندوستانی جمہوریت کا ایک نیا منظرنامہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ جہاں تک ان کی تعلیم اور کیریئر کا تعلق ہے تو وہ گریجوٹ ہیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں کچھ دنوں تک اڑیسہ کے سیکریٹریٹ میں ملازمت کی تھی۔
سیاست میں آنے سے قبل وہ اسکول ٹیچر تھیں۔ وہ 1997 میں سیاست میں آئیں اور اڑیسہ کے رائے رنگ پور ضلع میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوئیں۔ تین سال بعد وہ وہاں سے بی جے پی کی رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ جب 2000 میں اڑیسہ میں بی جے پی اور بیجو جنتا دل کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو انھیں وزیر بنایا گیا۔ انھوں نے بی جے پی کی میور بھنج ضلع کی صدر اور پارٹی کی درج فہرست یا قبائلی شاخ کی صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ انھیں 2015 میں مودی حکومت کی جانب سے جھارکھنڈ کا گورنر نامزد کیا گیا، وہ ریاست کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔
انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت جد و جہد کی ہے۔ دو بیٹوں اور شوہر کے انتقال سے ان کی زندگی تباہ ہو گئی تھی، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کے علاقے کے لوگ انھیں ’’مائی‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
وہاں کے باسی ان کے بارے میں کئی کہانیاں سناتے ہیں۔ وہ بہت جذباتی مگر اپنے فیصلے پر اٹل رہنے والی، ضدی، خوددار اور کثیر المطالعہ خاتون ہیں، انھیں ربر اسٹیمپ مت سمجھیے۔وہ ایک سادہ عورت ہیں جن کی ضرورتیں محدود ہیں۔ جب وہ جھاڑکھنڈ کی گورنر بنیں تو انھوں نے ایک بل پر یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ قبائلیوں کے مفادات کے منافی ہے۔ان کی زندگی سنگھرش (جدوجہد) اور خودداری کی کہانی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔