کراچی کی بِپتا

شکیل فاروقی  منگل 9 اگست 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں چھوٹے بڑے کئی شہر ہیں جن کی الگ الگ خصوصیات ہیں لیکن تین بڑے شہروں کا ایک الگ تشخص ہے۔ مثال کے طور پر لاہور اپنے تاریخی ورثہ ، اپنی ثقافت اور علم و ادب کا گہوارہ ہونے کے سبب اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ’’ جنے لاہور نئیں ویکھیا، او جمیاں ای نئیں۔‘‘ زندہ دلانِ لاہور اس شہر کے روحِ رواں ہیں، واقعی لاہور لاہور ہے۔

اس کے بعد سیالکوٹ کی باری ہے جو علامہ اقبالؔ کی جائے پیدائش ہونے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے سامان اور میڈیکل مصنوعات کا بہت بڑا مرکز ہونے کی وجہ سے اپنی مخصوص شہرت اور اہمیت رکھتا ہے اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کمانے کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔

اسلام آباد کی اہمیت سب سے الگ ہے کیونکہ یہ دارالخلافہ ہے اس لیے اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف محکموں اور اداروں کے صدر دفاتر ہیں اور ملک کے حکمراں اور افسرانِ بالا کے آفس اور رہائش گاہیں بھی یہیں پر ہیں۔ ایوان صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ کی عمارتیں بھی یہیں پر ہیں۔ بیرونی ممالک کے سفیروں اور غیر ملکی اداروں اور انجمنوں کے مراکز بھی اسلام آباد ہی میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو اس کا انتظام و انصرام ہی نرالا ہے۔

اب آئیے کراچی کی طرف جو کبھی نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ ایک شہرِ ناپرساں ہے جسے جان بوجھ کر مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ اس شہر کے ساتھ سراسر ناانصافی اور سوتیلے پن کا سلوک ہے اور اس شہر کے ساتھ جسے شہرِ قائد ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے کھُلم کھُلا زیادتی ہے۔

قیامِ پاکستان سے قبل کراچی اور آج کے کراچی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ سنا تھا کہ کبھی یہ شہر انتہائی صاف ستھرا ہوا کرتا تھا اور پیرس کی سڑکوں کی طرح اس کی سڑکیں بھی روزانہ باقاعدگی کے ساتھ دھلا کرتی تھیں اور ماحول بہت خوشگوار تھا۔ یہ احوال ہم نے کسی ایرے غیرے سے نہیں بلکہ آزادی سے قبل اس شہر کے اولین لارڈ میئر حکیم محمد احسن سے بالمشافہ ملاقاتوں میں سنا تھا جو شہر کی موجودہ صورتحال پر افسردہ اور رنجیدہ نظر آرہے تھے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اسی شہر میں پیدا اور آسودہ خاک ہونے کی وجہ سے اس شہر کو ملک کے سب سے خوبصورت اور بہترین اور قائد کے شایانِ شان ہونا چاہیے تھا مگر معاملہ اس کے برعکس ہے اور نوبت یہ ہے کہ آج اِس شہر کا شمار دنیا کے غلیظ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے اور عالم یہ ہے کہ رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس طرح یہ شہرِ بے پناہ اب شہرِ ناپرساں میں تبدیل ہو چکا ہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت اس شہر کو شہرِ قائد ہونے کی وجہ سے ملک کا دارالحکومت بنایا گیا تھا اور قائد کی رحلت کے بعد ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت دارالحکومت کو نئے شہر اسلام آباد منتقل کردیا گیا جس کے مضمرات میں سقوطِ مشرقی پاکستان بھی شامل ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو شاید یہ بات اچھی نہ لگے لیکن ہمارے خیال میں تلخ حقیقت یہی ہے۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ بیتی باتوں کو یاد کرنے سے بھلا دینا بہتر ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کراچی کی اہمیت مسلمہ ہے۔ بندرگاہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت کا انحصار اسی شہر پر ہے اور بحریہ کا مرکز بھی یہی ہے اور اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔

اس وقت ہمیں پی ٹی وی سے نشر ہونے والا ذہنی آزمائش کا ایک بہت پرانا اور مقبول پروگرام  ذوقِ آگہی یاد آرہا ہے جسے قریش پور پیش کیا کرتے تھے اور جس میں بطور مہمان نوجوان شرکت کیا کرتے تھے۔ پروگرام کے دوران قریش پور نے ایک نوجوان سے سوال کیا کہ ’’سمندر کہاں ہے؟‘‘ نوجوان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’کراچی میں‘‘ قریش پور نے دوسرا سوال پوچھا کہ ’’بتائیے کہ پاک بحریہ کا صدر دفتر کہاں ہے؟‘‘ نوجوان کا منطقی جواب تھا ’’ کراچی میں‘‘ ، ’’معاف کیجیے آپ کا جواب غلط ہے‘‘ قریش پور کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ سن کر نوجوان ہکّا بکّا رہ گیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سرحد پار سے لُٹے پِٹے مہاجرین کا سب سے بڑا پڑاؤ کراچی آکر ہوا اور جس کے سینگ جہاں سمائے وہ وہیں کا ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اِس شہر کی آبادی بڑھنے لگی لیکن مطلوبہ انفرا اسٹرکچر اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے نئی نئی بستیاں آباد ہوتی رہیں اور یوں شہر بے ہنگم ہوتا چلا گیا۔

دوسری جانب متعلقہ اداروں کی غفلت اور غیر ذمے داری کی وجہ سے حالات بگڑتے چلے گئے۔  تجاوزات کی بے لگام افزائش نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔ بے توجہی کے نتیجہ میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ مختلف ادوار میں مختلف اربابِ اختیار باگ ڈور سنبھالتے رہے لیکن افسوس یہ ہے کہ کسی نے بھی اس عظیم شہر کی بہتری کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ یہ بدسلوکی اُس شہر کے ساتھ مسلسل جاری ہے، جو وطنِ عزیز کا سب سے بڑا کماؤ پوت ہے ۔

اسی طرح ہے جیسے کسی درخت کے پھل تو بلا تکلف کھاتے رہیں اور اُس کی آبیاری اور دیکھ بھال کوئی بھی نہ کرے ، اگرچہ اِس شہر سے اِس کی اصل شناخت اور اہمیت تو برسوں پہلے چھین لی گئی تھی لیکن اِس کے استحصال کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ جا بجا گٹر ابل رہے ہیں اور کوڑے کچرے کے انبار لگے ہوئے ہیں اور گندگی و ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے کئی بیماریاں اور وبائیں پھیل رہی ہیں اور بے بس عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہیں جس کے نتیجہ میں بدنظمی بڑھ گئی ہے اور ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ اِس شہر کا خدا ہی حافظ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔