خونی لانگ مارچ اور ریاست

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 10 نومبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

عمران خان کے دست راست اور معتمد خاص اگرچہ ہر روز بدلتے ہیں کیونکہ وہ اس معاملے میں انتہائی موقع شناس ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لیے عمران خان (ماضی میں) حد سے گزر گئے ہیں۔

ان میں ایک فیصل واوڈا ہیں، انھوں نے لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے قوم اور عمران خان کو خبردار کیا تھا کہ ’’ لانگ مارچ اس بار خونی ہوگا اور لاشوں کو گرتا دیکھ رہا ہوں‘‘ اور ان کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی۔ اس لیے فیصل واوڈا کو ضرور شامل تفتیش کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس خون خرابے میں تحریک انصاف خود شامل ہے تو ان سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔

سیاست دان جب تک ایوان اقتدار میں رہتے ہوئے اقتدار کی عینک لگا کر دنیا کو دیکھتے ہیں تب تک انھیں سب اچھا لگتاہے لیکن جونہی انھیں اس جھولے سے اتارا جاتا ہے تویہ عینک بھی اتر جاتی ہے۔ اسی دن سے سب اچھا دکھائی دینے والا منظر یک دم برا لگنے لگتا ہے۔

آئین پامال ہوتا نظر آنے لگتا ہے، قانون کی حکمرانی غائب ہوجاتی ہے، جمہوریت ایک دم آمریت میں بدل جاتی ہے، عوام کے حقوق پامال ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اقتدار سے جدائی کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ فرسٹریشن کا شکار ہو کر ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کے ہر جائز و ناجائز کام کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔

اور ہوس اقتدار اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ گولیاں چلنے، شہادتیں ہونے اور خون گرنے کے بعد بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے جاتے۔

عمران خان کے خونی مارچ میں عمران خان پر قاتلانہ حملے سے پہلے 6 لوگ جان سے گئے، یعنی چھ گھر اجڑ گئے اور ہر لاش کو تحریک انصاف اور حکمراں اپنی اپنی دانست میں اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑی گئی۔

الزامات لگائے گئے اور جواز پیش کیے گئے کہ قانونی طور پر تمام کیس خراب ہوئے، مقتولین کے ورثا کے دکھ درد اور مسائل کا نہ کسی نے سوچا نہ پوچھا، جو ریاست اور تحریک انصاف دونوں کی ذمے داری تھی۔

ہر قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور اگر ان سب میں کوئی قتل دانستہ ہوا ہے تو اس کے مجرم کو پھانسی کے پھندے تک لے کر جانا دونوں کی ذمے داری ہے۔ مگر ہمارا مشاہدہ ہے کہ سیاستدانوں کے سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں۔

حادثہ اپنے ساتھ ہو یا کسی کارکن کے ساتھ، اسکو اپنی سیاسی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ عمران خان کے کنٹینر کے متنازعہ حملے کے بارے میں اگر رانا ثناء اللہ یا پی ڈی ایم کا کوئی دوسرا رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حملہ ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے تحریک انصاف نے خودکروایا ہے،اگرچہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے مگر جب عمران خان کو خود بھی گولی لگی ہے۔

ان کے متنازع موقف کا فائدہ حملہ آور کو ہوگا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان اپنے آپ پر کیے گئے قاتلانہ حملے کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا کر منصوبہ سازوں کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔

قاتل یا حملہ آور کو اللہ کی رضا کی خاطر تو معاف کیا جاسکتا ہے مگر اپنے سیاسی فائدے اور دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کی خاطر اصل مجرم کو چھوڑ کر بیگناہ پر الزام لگانے سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوسکتا، یہ تو سیدھا بہتان ہے اور شریعت مطہرہ میں اس کی سزا واضح ہے۔ مگر ہماری ایسی قسمت کہاں کہ ہمارے سیاستدانوں کو دین کی اتنی فہم ہو، ہر سیاست دان مکمل خود غرض ہوکر سوچتا اور عمل کرتا ہے۔

کیا کوئی عقلمند بندہ اپنے کیس کو خود خراب و مشکوک اور ایف آئی آر کو کمزور اور متنازع بنا کر دشمن کو فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ تو جواب صرف ایک ہے کہ اگر بندہ سیاسی ہو تو وہ ایوان اقتدار میں جانے کے لیے اپنے قریبیوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر ہمدردیاں سمیٹ کر ایوان اقتدار میں جانے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور اگر خود جان سے جائے تو ان کا سیاسی وارث بھی وہی کرتا ہے۔

اب آتے ہیں عمران خان پر کیے گئے قاتلانہ حملے، تحریک انصاف اور حکمرانوں کے ردعمل کی طرف تو قارئین کے لیے میرے ابتدایے کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

اس کیس کے بارے میں تحریک انصاف اور حکومت دونوں جانب سے سیاسی فائدے کی خاطر شکوک و شبہات پیدا کرکے ایک مضبوط کیس کو کمزور کیا گیا ہے۔

عمران خان پر حملہ کے دوران ان کا کنٹینر سیکڑوں کیمروں کے حصار میں تھا اس واقعے سے پہلے، وقوعہ کے دوران اور بعد کے واقعات ہر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیے ہیں۔ اگر اصل مجرم تک پہنچنا مقصود ہو تو تمام تنازعات حل کیے جاسکتے ہیں اور منصوبہ ساز تک پہنچنا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ کیمروں کی آنکھ نے حملہ آور ملزم کی فائرنگ، بھاگنے، پکڑے جانے کے لمحات کو محفوظ کیا اور پوری دنیا نے دیکھ بھی لیا۔

تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ حملہ آور تین تھے اور حملہ تین اطراف سے ہوا، فائرنگ صرف نیچے سے نہیں اوپر بلڈنگ کی بالکونی یا درخت سے بھی کی گئی۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کا دعوٰی ہے گرفتار شخص حملہ آور نہیں اصل حملہ آور کوئی اور ہے۔

بہر حال حملہ آور تین یا ایک، کیمروں کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ تحریک انصاف والے اس کے لیے قابل قبول شواہد پیش کریں تو حکومت اور عدالت ہی نہیں عوام بھی انکے موقف کو مانے گی۔ گرفتار شخص اصل حملہ آور ہے یا نہیں؟

اس کا جواب بڑا آسان ہے کیونکہ اس حملہ آور کو موقع پر تحریک انصاف کے کارکن ابتسام نے جان پر کھیل کر پکڑا۔ وہ مختلف ٹی وی ٹاک شوز اور یوٹیوبرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ گرفتار شخص وہی اور اصل حملہ آور ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہی یوٹیوبرز اور تجزیہ کار اس شہادت کے بعد بھی گرفتار حملہ آور کو اپنے تجزیے میں اصل ماننے پر راضی نہیں۔

ملزم کے اعترافی بیان کو فوراً میڈیا پر وائرل کرنے کو شک کی نظر اور پولیس کی غلطی یا ملی بھگت سے تعبیر کیا جا رہا ہے مگر میرے خیال میں یہ بہت اچھا ہوا اور اس سے بھی اچھا یہ ہوا کہ پکڑنے والے تحریک انصاف کے کارکن ابتسام سمیت موقع پر موجود سیکڑوں لوگوں نے اس کی تصدیق کی کہ وہ ہی اصل حملہ آور ہے یہ خوش قسمتی یا اتفاق، مگر اس منظر نے بیگناہوں کو بچانے اور اصل لوگوں تک پہنچنے کو آسان کر دیا۔

تحریک انصاف کے کارکن ابتسام جس نے عمران خان کی جان بچائی، اس نے خود کہا ہے کہ اعترافی بیان کی ویڈیو والا ہی اصل حملہ آور ہے۔ دیگر عینی شائدین بھی یہ کہہ رہے ہیں۔ پولیس اہلکار بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر تحریک انصاف اور انکے ہمنوا کیوں نہیں مان رہے ہیں؟

اگر مان لیا جائے کہ اعترافی بیان دینے والا وہ نہیں جو موقع سے پکڑا گیا، پھر موقع واردات سے گرفتار کیا گیا شخص کہاں چلا گیا؟ اس پہلو پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔

نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ میڈیا پر بھی ہر طرف اور ہر جگہ کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے مگر افسوس کچھ ریٹائرڈ فوجی، تجزیہ کار اور یوٹیوبرز جو اپنے بغض اور عناد میں اچانک شوٹنگ ایکسپرٹ بن کر حقائق کو جھٹلا کر جھوٹ گھڑ رہے ہیں۔

اگر تمام لوگوں کو 9ایم ایم کی گولیاں لگی ہیں تو ان کی مہارت کی بنیاد پر وہ کلاشن کوف کی نہیں بن سکتی اور کلاشن کوف کی لگی ہے تو وہ 9 ایم ایم کی نہیں بن سکتی، پھر کیوں اس کیس کو خراب کرکے اصل مجرم کو چھڑا کر کسی بیگناہ کو مجرم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟

اس میں دو رائے نہیں کہ یہ وقوعہ بد ترین سیکیورٹی لیپس کا شاخسانہ ہے، اس کے ذمے داری سیکیورٹی ادارے، زیادہ ذمے داری عمران خان کی ذاتی سیکیورٹی گارڈز اور پنجاب پولیس پر عائد ہوتی ہے۔

لہٰذا عمران خان کے ٹائیگرز کو چاہیے عوام کو اذیت دینے کے بجائے، وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج کے بجائے پنجاب حکومت، پنجاب پولیس، صوبائی وزیر داخلہ اور سیکیورٹی کے ذمے دار صوبائی رہنماؤں کے خلاف احتجاج کریں۔ وفاق اور اداروں کا اس سے ظاہری طور کوئی لینا دینا نہیں۔

عمران خان کے معتمد خاص عمر سرفراز چیمہ کے مشیر داخلہ ہوتے ہوئے یہ ناقص کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ اگر وہ اپنی پارٹی قائد کی حفاظت نہیں کر سکتے تو ان پر پنجاب کے کروڑوں عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری کیسے چھوڑی جاسکتی؟

عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیزیں کیمروں کی فوٹیج، فورنسک اور دیگر شہادتوں سے ثابت ہوسکتی ہیں ان کو سیاست کی نذر کرکے متنازع نہیں بنانا چاہیے اور مکمل توجہ اصل مجرموں اور انکے پیچھے چھپے کرداروں اور منصوبہ سازوں تک پہنچنا چاہیے۔

عمران خان کل تک جن کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں تھے، اب ہر واقعے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا کر عوام اور اداروں کے بیچ دوریاں اور غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں مگر انشاء اللہ یہ ہوگا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔