ذرا ادھر بھی توجہ دے لیں

مقتدا منصور  بدھ 2 جولائی 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی قیادت کی شانِ بے نیازی پرحیرت ہوتی ہے کہ ملک کے اندر مسائل اور اطراف سازشوں کا انبار لگا ہوا ہے اور وہ اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ کوئی ماورائے آئین انقلاب بپاکرنے پر تلا ہوا ہے، تو کوئی انتخابات میں پنکچروں کا واویلا مچاتے ہوئے سومنامی لانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ جب کہ حکمران جماعت اقربا پروری اور بے وقت کی راگنی گانے میں مگن ہے۔اہل دانش فروعیات میں الجھے نان ایشیوز پر بحث میں مصروف ہیں۔

یوں محسوس ہورہا ہے، جیسے ہم تیرھویں صدی کے بغداد میں پہنچ گئے ہوں۔جہاں اہل دانش اپنی توانائیاں تحقیق و تخلیق اور نئے عمرانی معاہدے ترتیب دینے اور سماجی اصول وضوابط طے کرنے میںصرف کرنے کے بجائے ان مباحث میں الجھے رہے کہ کنوئیں میں کتا مرجائے تو کتنے ڈول پانی نکالنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔تہہ بندشرعاً ٹخنے سے کتنا اونچا ہونا چاہیے۔تونتیجہ یہ نکلا کہ تاتاریوں نے 1258ء میںاس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔وہ شہر جہاں پروفیسر بسم عجمی کی تحقیق کے مطابق ایک ہزار اعلیٰ درجے کے تحقیقی مراکز تھے، راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔اس کے بعد اس شہر ہی سے کیا،پوری مسلم دنیا سے گویا دانش ہمیشہ کے لیے اٹھ گئی۔

آج پھرکرہ ارض پر آباد 56ممالک کا یہی حال ہے،جو عرف عام میں مسلم ممالک کہلاتے ہیں۔علم سے دوری،تحقیق وتخلیق سے عدم رغبت اورجدید طرزِ حیات سے اکتاہٹ نے ان کے ذہنوں پر جالے لگادیے ہیں۔دلیل کی بنیاد پر مکالمے سے دوری کے باعث تنگ نظری، فرسودگی اور فکری جمود ان کا مقدر ٹہرا ہے۔آج پھر یہ مسالک میں منقسم متشدد فرقہ واریت کی تقسیم کا شکار ہیں۔معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے تناظر میں قوموں کی شکست وریخت کے جو چھ(6)اسباب بیان کیے ہیں،ان پر پوری طرح صادق آتے ہیں۔یعنی اخلاقی اقدار کمزور یامکمل طورپر ختم ہوچکی ہیں۔ اجتماعیت کی جگہ ذاتی مفاد کو فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔

مذہب سے زیادہ مذہبیت (Religiosity) پر توجہ دی جارہی ہے،جس نے فقہی اختلافات کو متشدد بنادیا ہے۔ریاست اور ریاستی ادارے ہر مسلم ملک میں انتہائی کمزور ہیں،جس کی وجہ سے قانون کی بالادستی کا تصور مفقود ہوکررہ گیاہے۔تمام مسلم معاشرے فکری طورپر بانجھ ہوگئے،جہاں ادیبوں، قلمکاروں، مصوروں، مجسمہ سازوں، موسیقاروں، گلوکاروں اوراداکاروں کے لیے اپنے فن کا آزادانہ اظہار مشکل ہوچکا ہے۔علم کی بے قدری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بعض عناصر تعلیمی اداروں کو مسلسل تباہ کررہے ہیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی یہ معاشرے ترویج علم میں بھی صنفی امتیازات کا شکار ہیں۔

ان 56 ممالک میں سے بیشترقدرتی وسائل سے مالامال ہیں،مگر اپنی کوتاہ بینی اور کج فہمی کے سبب عالمی ریشہ دوانیوں کا مرکز ومنبیٰ بنے ہوئے ہیں۔سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی بنیاد پرعالمی برادری میںمساوی مقام ومرتبہ حاصل کرنے کے بجائے انتہاء پسندی اورتشددکی راہ اپنائی ہے،جو مزید تباہی کا سبب بن رہی ہے۔آج اگر مصر سے صومالیہ تک مذہبی شدت پسندی اپنے عروج پر ہے، تو افغانستان سے عراق تک ایسی آگ لگی ہوئی ہے،جس کے شعلے چہار سو لپک رہے ہیں۔شام بدترین اندرونی خلفشارمیں مبتلا تباہی کے دہانے تک جا پہنچا ہے۔

بشارالاسد کی حکومت کے خلاف بعض گروہوں کی خونریز بغاوت اور عالمی اور علاقائی قوتوں کی حمایت اور سرپرستی کے باعث اس لڑائی نے عقیدے کی بنیاد پر خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی ہے۔دو برس سے جاری اس خونریزتصادم میںلوگ مولی گاجر کی طرح کٹ رہے ہیں۔دوشیزائوں کی عزت وآبرو لٹ رہی ہے۔بوڑھوں سے ان کے سہارے چھن رہے ہیں، مائوں سے لخت جگر۔غرض انسانی خون سے لتھڑی اس جدل میں مسجد،مدرسے اور درگاہیں سبھی نشانے پر ہیں۔جس کے باعث خطے میں نئے خطرات جنم لے رہے ہیں،جو کسی بھی وقت پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔مگر مسلم دنیا کے اہل دانش اس لڑائی کے انجام کو سمجھنے سے یا تو قاصر ہیں یا پھر دانستہ صرف نظر کررہے ہیں۔دوسری طرف عراق بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوکر عملاً تقسیم ہوچکا ہے،جس کا صرف De Jureاعلان باقی رہ گیا ہے۔

اگرعراق کی تقسیم مشرق وسطیٰ کی تباہی کی خشت اول ہے،تو افغانستان میں لگی آگ کسی بھی وقت پورے جنوبی ایشیاء کو اپنی لپیٹ میںلے کر خاکستر کرنے کا سبب بنتی جارہی ہے۔جس کا بدترین شکار پاکستان ہوسکتا ہے۔ہر ذی شعور اور ذی فہم شخص نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغرلگی اس آگ کی حدت کو محسوس کررہاہے۔مگر وہ اسے بجھانے میں محض اس لیے ناکام ہے، کیونکہ مسلم دنیا کے سیاسی رہنماء اور حکمران طبقات اپنی اپنی ڈفلیاں بجاتے ہوئے اقتدار کی رسہ کشی میں اس قدر محو ہیں کہ انھیں دنیا کے نقشے پر رونماء ہونے والی تبدیلیوں کا احساس وادراک تک نہیں ہو پا رہا۔ان کی اس بے نیازی اور بے حسی پر قہقہے لگائیں یا اشک بہائیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔

بہت سے قارئین کو یاد ہوگا کہ 1990ء میں جارج بش سینئر نے ایک نیو ورلڈ آرڈر متعارف کرایا تھا۔ موجودہ حالات میں وہ پایہ تکمیل تک پہنچتا نظر آرہا ہے۔حالانکہ تیسری دنیا کے بیشتر اہل دانش نے اسے مذاق سمجھا تھا اور آج بھی بہت سے لوگ قابل عمل نہیں سمجھتے۔ مگرشاید ہم نہیں جانتے کہ مغرب کے منصوبہ ساز جو فیصلے کرلیتے ہیں، انھیں جلد یا بدیر عملی جامہ ضرور پہناتے ہیں۔ ہر سپر پاور دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے مختلف خطوں کی جغرافیائی تشکیلات میں بھی ردوبدل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔بہت پیچھے کیوں جائیں ،20ویں صدی کی بات کرلیتے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد کیا برطانیہ نے جو اس وقت ایک سپر پاورتھی، معدنی دولت سے مالامال خلیج کی تشکیل نو(Restructuring) نہیں کی تھی؟ کیا اس نے بالفور معاہدے کے تحت جبراًاسرائیلی ریاست قائم نہیں کی تھی؟ اب امریکا اپنے مخصوص مفاد میں قدرتی وسائل سے مالامال وسط ایشیاء سے مشرق وسطیٰ تک کے پورے خطے کی اپنی مرضی کے مطابق تشکیل نو کا خواہشمند ہے۔ 1980ء کے عشرے میں کینیڈا کی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹرعبدالمالی کی کتاب منظر عام پر آئی،جس میں انھوں نے بلوچستان کو ایک آزاد مملکت کے طورپر پیش کیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کے دوران بلوچستان آزاد ہوجائے گا۔اس وقت وہاں جو حالات ہیں اورمعاملات جس نہج تک جا پہنچے ہیں، مزید کچھ کہنا بیکار ہے۔

اسی طرح بیسویں صدی کی آخری دہائی سے مختلف بین الاقوامی رسائل و جرائد وسط ایشیاء سے جنوبی ایشیا تک اور مشرق وسطیٰ سے مغربی صحارا اور وسط افریقہ تک ان خطوں میں موجود بیشتر ممالک کی تشکیل نوکے حوالے سے مضامین اور مجوزہ نقشے تسلسل کے ساتھ شایع کررہے ہیں۔جب کہ انٹرنیٹ پر اس بارے میں خاصا مواد موجود ہے۔1990 سے عراق کو تین ریاستوں میں تقسیم کرنے کی بات چل رہی ہے۔2003 میں دوسری عراقی جنگ کے بعد اس تصورکو مزید ہوا دی گئی۔اب داعش نامی تنظیم نے اپنے زیر اثر علاقوں میںمخصوص شرعی نظام کے نفاذ کا اعلان کرکے دراصل اس تقسیم کی راہ ہموار کردی ہے۔جس کے نتیجے میں موصل اور اس کے گرد ونواح سے تقریباً6لاکھ کے قریب شہری نقل مکانی کرچکے ہیں اور پورا علاقہ شدید افراتفری کی لپیٹ میں آچکا ہے۔

بعض غیر جانبدار عالمی تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع ہوجانے کے یقینی خطرات موجودہیں۔ جن کے نتیجے میں افغانستان کی تقسیم ہوسکتی ہے۔ افغانستان کی تقسیم کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے،جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اس وقت ایک انتہائی زدپذیر (Fragile) ملک بن گیاہے۔محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد اس ملک کوحقیقی معنی میں ایک لڑی میں پروئے رکھنے والی کوئی سیاسی شخصیت عملاً موجود نہیں ہے۔اس کے علاوہ ملک میں فوج کے علاوہ کوئی اور قوت محرکہ(Driving Force)بھی نہیں ہے۔

سابقہ انتخابات میں جو سیاسی مینڈیٹ آیا ہے، وہ زیادہ تر علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر منقسم ہے۔جب کہ وفاق میں جو سیاسی جماعت اقتدار میں ہے، وہ بھی خود کو قومی حکومت کے طور پر پیش کرنے اور تمام وفاقی یونٹوں کی نمایندگی کرنے میں ناکام ہے۔اس صورتحال میں ملک کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود سیاسی قیادت پر بھاری ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیشِ نظر اہم قومی امورپر یکسوئی کا مظاہرہ کریں اور انھیں ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے جو وطن عزیزکے لیے نئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں۔

اس لیے یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر سیاسی قیادتوں کی موجودہ روش جاری رہتی ہے تو پھر آنے والے چند مہینوں کے دوران حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا اورعالمی اور خطے کی سطح پر ہونے والی سازشوں کا راستہ روکنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔لہٰذا دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ اس وقت پوری توجہ افغانستان سے بلند ہونے والے شعلوں پر قابو پانے پر دی جائے ۔اس لیے ذرا ادھر بھی توجہ دے لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔