مودی پاک بھارت مسائل پر توجہ دیں

ایڈیٹوریل  بدھ 13 اگست 2014
مودی سرکار نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر پہلا ’’براہ راست‘‘ حملہ کیا ہے. فوٹو: فائل

مودی سرکار نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر پہلا ’’براہ راست‘‘ حملہ کیا ہے. فوٹو: فائل

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران پاکستان پر درپردہ جنگ کا الزام عائد کیا ہے اور کہا کہ بھارت بندوقوں کی گھن گرج نہیں، ترقی چاہتا ہے۔ نریندر مودی نے منگل کو لداخ میں عوام سے خطاب کے دوران پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ کشمیر میں شدت پسندوں کی پشت پناہی کر کے پراکسی وار لڑنے میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دراصل باقاعدہ روایتی جنگ کی سکت نہیں رکھتا اسی لیے وہ شدت پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سیاچن پر پاکستان سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی  کی اس درفنطنی پر سب سے دلچسپ اور چشم کشا تبصرہ بھارت کے موقر روزنامہ ’’ایشین ایج ‘‘کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مودی سرکار نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر پہلا ’’براہ راست‘‘ حملہ کیا ہے۔اخبار نے مودی صاحب کے نئے لب ولہجہ کا ذکر کیا ہے، جب کہ سونیا گاندھی نے خبردار کیا ہے کہ بی جے پی حکومت نے فرقہ وارانہ تشدد کو نہ روکا اور آمرانہ طرز عمل ترک نہ کیا تو کانگریس بقا کی خاطر مقابلہ کریگی۔

تاہم پاکستان پر درپردہ پراکسی جنگ کا الزام اور یہ گوہر افشانی کہ باقاعدہ روایتی جنگ لڑنے کی پاکستان سکت نہیں رکھتا در حقیقت بھارتی مائنڈ سیٹ اور منجمد تصورات و خواہشات کی کارستانی ہے ورنہ اس وقت خطے میں جنگ، پراکسی وار، اور سیاچن پر عدم سمجھوتہ کا پیغام دینے کی قطعاً ضرورت تھی اور نہ مجوزہ جامع مذاکرات کے آغاز اور دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اس قسم کی لایعنی بحث کا کوئی موقع ہے لیکن یہ برصغیر کے سیاسی تناظر میں بھارتی طرز سیاست و سفارت کاری کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جب بھی تصفیہ طلب امور پر بات چیت کا ڈول ڈالا جاتا ہے، اور سیکریٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کی تیاریاں شروع ہوتی ہیں تو طبل جنگ اور الزام تراشی کے بھارتی محاذ سرگرم ہوجاتے ہیں یا پھر سرحدی خلاف ورزیوں اور اشتعال انگیز کارروائیوں کے پردے میں مسائل پر سنجیدہ گفتگو سبوتاژ کی جاتی ہے۔

یہ بھارتی طریقہ واردات بہت پرانا ہے اور اس کا کیا دوش مودی سرکار کو دیا جائے، ابھی تو بھارتی وزیراعظم جموں وکشمیر اور لداخ و لیہہ کے دورے پر تھے جب کہ اصل میں انھیں کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے جامع تصفیہ کے لیے ٹھوس پیش رفت کرنی چاہیے ، کیونکہ کور ایشو کشمیر ہے۔ سیاچن ، سر کریک، کارگل، اور بگلیہار ڈیم وغیرہ سارے ایشوز مل بیٹھ کر طے کیے جانے چاہئیں، دونوں ملک ایٹمی وار ہیڈز رکھتے ہیں اس لیے جنگ نہیں امن کی چھائوں میں تنازعات کے حل کی دو طرفہ کوششیں تیز ہونی چاہئیں، بھارتی وزیراعظم سے توقعات بھارتی عوام کو بھی ہیں اور پاکستان بھی اس انتظار میں ہے کہ خطے کے دیرینہ مسائل کے پائیدار اور منصفانہ حل کی جستجو امن کے نئے خوابوں کی تعبیر کی صورت میں ڈھلنی چاہیے ۔

پاکستان خطے میں دونوں طرف کے عوام کی خوشحالی کے ایجنڈے کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے بھارت کو اپنے اس وعدہ کو یاد دلانا چاہتا ہے جو اس کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کیا تھا اور جسکا تاریخی ریکارڈ قراردادوں کی شکل میں موجود ہے۔ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق منصفانہ طور پر حل ہونا چاہیے، جہاں تک جموں و کشمیر میں پراکسی وار کے الزام یا وسیع تر معنوں میں پاکستان کی روایتی جنگی صلاحیت کا معاملہ ہے تو بھارت سمیت دیگر طاقتوں  کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی طاقت ہے، اس کے کوئی جارحانہ جنگی عزائم نہیں ، اس کے 18 کروڑ سے زاید عوام امن پسند ہیں، جب کہ نائن الیون کے بعد سے وہ دہشت گردی کے داخلی و عالمی عفریت اور اس کے پیدا کردہ معاشی و تزویراتی خطرات کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کرلڑ رہا ہے اور خطے کے مجموعی انسانی مفادات کے تحفظ کی، اس کے عوام اور افواج پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے ۔بھارت کی بی جے پی حکومت کو ہمہ جہت مسائل کا سامنا ہے۔

مودی حکومت کرپشن کے خلاف مہم چلانے کی بات تو کرتی ہے مگر اس کے کروڑوں عوام غربت ، بیماری، تشدد، اور جرائم کے خاتمہ کے لیے نئے وزیراعظم کے اقدامات پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں، جنگ مسائل کا حل نہیں، نریندر مودی کو پاک بھارت کور ایشوز پر بات چیت کے میکنزم اور روڈ میپ کی تیاری میں مشترکہ سفارتی اقدامات پر توجہ دینا چاہیے ۔ مودی نے دہشتگردی کو بھارت کے لیے چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تعمیر و ترقی کے اتنے وسائل دستیاب کروائیں گے کہ تشدد، نفرت اور ٹکرائو کی فضا ترقی اورخوشحالی کی فضا میں بدل جائےگی۔

مگر نریندر مودی نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاچن کے معاملے پر پاکستان سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بھارت کے لیے لداخ کی بڑی اہمیت ہے۔ انھوں نے پاکستان کے تمام تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لداخ میں متنازع نیمو بازگو ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور سرینگر ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا جب کہ جولائی سے اب تک ایل او سی کی خلاف ورزی کا بھارت کی طرف سے 55واں واقعہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے بھارتی وزیراعظم سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامع مذاکرات کی جانب پیش قدمی کریں اسی میں خطے کا مفاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔