کرداروں کے کردار نہیں مرتے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 6 ستمبر 2014

1775ء میں مشہور جرمن شاعر اور ناول نگار گوئٹے کو ڈیوک کارل آگسٹس کی فرمائش پر ویمر Weimar کے دربار میں کچھ عرصہ قیام کرنے کی دعوت دی گئی۔ ڈیوک کے فیملی ممبرز چاہتے تھے کہ ویمر کی ریاست کو ایک بڑے ادبی مر کز کی شناخت ملے اور ان کے خیال میں گوئٹے کے قیام سے ان کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ گوئٹے کی آمد کے فوراً بعد ڈیوک نے اسے اپنی کابینہ میں عہدہ دے کر اپنا ذاتی مشیر بنا لیا چنانچہ گوئٹے نے وہاں ٹکنے کا فیصلہ کر لیا۔

گوئٹے کا خیال تھا کہ وہاں قیام کرنے سے دنیاوی امور کے بارے میں اس کے ویژن اور تجربات میں اضافہ ہو گا جسے وہ ویمر حکومت کی بہتری کے لیے بروئے کار لا سکے گا۔ گوئٹے کا تعلق مڈل کلاس پس منظر سے تھا اور اسے کبھی درباری اشرافیہ کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دربار کے معزز رکن کی حیثیت سے اسے شاہی آداب اور طور طریقے سیکھنا تھے مگر چند ماہ قیام کے بعد ہی گوئٹے کے لیے دربار کی زندگی نا قابل برداشت ہو گئی۔ شاہی درباریوں کی زندگی تا ش کھیلنے، شکار کھیلنے اور لا یعنی گپ شپ کے گرد گھومتی تھی۔ مثلاً کوئی اسٹیج ڈراما دیکھنے کے بعد ایک طویل اور بے مقصد بحث شروع ہو جاتی کہ ڈرامے میں کونسا اداکار کس کے ساتھ اسٹیج پر آیا تھا۔ فلاں اداکارہ سین میں کیسی لگ رہی تھی وغیرہ وغیرہ مگر وہ ڈرامے پر کبھی گفتگو نہ کرتے تھے۔

وہاں بیٹھے گوئٹے کبھی دربار میں اصلاحات کی بات کر دیتا تو سب بھڑک اٹھتے کہ ان اصلاحات کا فلاں وزیر پر کیا اثر پڑے اور فلاں وزیر کی وزارت کا کیا بنے گا اور تھوڑی دیر بعد گوئٹے کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی۔ اگر چہ گوئٹے اپنے وقت کے مشہور ناول The Sorrows of Young Werther کا مصنف تھا مگر کسی کو اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی کو شش ہوتی کہ وقت کے نامور ناول نگار کے روبرو اپنے خیالات کااظہار کریں اور پھر ان پر اس کی رائے جانیں۔ آخر میں ان کی باتیں درباری سازشوں تک محدود ہو جاتیں۔ گوئٹے کو لگا کہ وہ پھنس گیا ہے۔ اس نے تو بڑی سنجیدگی سے ڈیوک کی دعوت قبول کی تھی مگر اب اس کے لیے درباری زندگی ناقابل برداشت ہو گئی تھی وہ ایک حقیقت پسند انسان تھا۔ سوچا کہ جس ما حول کو وہ تبدیل نہیں کر سکتا اس کے بارے میں شکوے شکایتیں بے سود ہیں۔

گوئٹے نے ایک حکمت عملی اپنائی اور اس میں سے خیر کا پہلو نکال لیا۔ اس نے درباری مصاحبین کو اپنا دوست بنا لیا۔ وہ بہت کم بولتا اور شاید ہی کسی معاملے پر اپنی رائے دیتا۔ وہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کو اس کے پسندیدہ موضوع پر بات کرنے کا موقع دیتا وہ اپنے چہرے پر خوش مزاجی کا نقاب اوڑھے بس دوسرے کو سنتا رہتا مگر حقیقت وہ اس شخص کا یوں مشاہدہ کرتا جیسے وہ اسٹیج پر کوئی اداکاری کر رہا ہو۔ ہر شخص اپنے راز اپنے منصوبے اور لا یعنی خیالات اس کے سامنے اگل دیتا۔ وہ بس مسکراتا رہتا اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا۔ درباری امراء کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کس طرح اسے مستقبل میں لکھے جانے والے ڈراموں اور ناولوں کے لیے کردار مکالمے اور کہا نیوں کا مواد فراہم کر رہے تھے۔ اس طرح اس نے دربار میں ہونے والی اپنی بے توقیر ی کو ایک مفید اور خوشگوار کھیل میں بدل دیا۔

ہماری جمہوریت کا حال بھی ویمر کے دربار کی طرح ہے بے مقصد، لاحاصل، صرف گپ شپ، عوام کے وسائل پر مزے ہی مزے کرنا اور کچھ نہ کرنا آپ کو اس جمہوریت میں ایسے ایسے دلچسپ کردار دیکھنے اور سننے کو ملیں گے کہ طبعیت ہشاش بشاش ہو جائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب اپنے آپ کو وقت کا سقراط سمجھے بیٹھے ہیں نہ صرف یہ کہ سمجھے بیٹھیں ہیں بلکہ اٹھتے بیٹھتے اور تقریر کرتے وقت اداکاری بھی سقراط کی ہی طرح کرتے ہیں یعنی ہمیں ایک نہیں بلکہ سیکڑوں سقراط سے پالا پڑ ا ہوا ہے آج کل پارلیمنٹ میں بیٹھے تمام سقراط کے درمیان اپنے آپ کو جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن ثابت کر نے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جمہوریت کے حق میں تقاریر لکھنے والوں کی چاندی ہو گئی ہے۔

جتنی بڑی پر جوش اور دھواں دار تقریر اتنی ہی بڑی قیمت مل رہی ہے ایسی ایسی دھواں دار تقاریر ہو رہی ہیں کہ تقریر ختم ہونے کے بعد بھی کا فی دیر تک مائیک کے پاس دھواں موجود رہتا ہے ایک آدھ تقریر کے دوران مقرر کے جذبات کی وجہ سے مائیک میں بھی آگ لگ گئی اور بڑی ہی مشکل سے آگ پر قابو پایا جا سکا کچھ حضرات تو اس قدر جذباتی ہو گئے کہ منہ سے جھاگ اور تھو ک نکلنا شروع ہو گیا لیکن دوسری طرف حسد، جلن اور بغض کا یہ عالم ہے کہ کسی صاحب کی پارلیمنٹ میں جمہوریت کے حق میں تقریر ختم ہو نہیں پاتی ان سے جلن، حسد، بغض رکھنے والے اور جمہوریت دشمن اپنی نفرت انگیز یاداشت کے ساتھ کسی نہ کسی نجی چینل پر اچانک نمودار ہو کر تقریر کرنے والے صاحب کے ماضی کے سارے چھپے راز کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں ۔

خدا غارت کرے اچھی یادداشت کو جس کی وجہ سے مقرروں کے رنگ میں بھنگ پڑ رہا ہے ایسے ہی ایک صاحب کے متعلق دوسرے صاحب جلن اور حسد کی وجہ سے ٹی وی پر فرمانے لگے کہ وہ ضیاء الحق کے وزیر بننے کے موقعے پر پہننے کے لیے ان کا سوٹ لے کر گئے تھے دوسرے ایک اور صاحب نے جنہوں نے اپنی پر جو ش تقریر پر خوب داد حاصل کی تھی۔ ایک نجی ٹی وی چینل نے جب وہ صاحب پرویز مشرف کے دور میں وزیر داخلہ تھے ان کے ماضی کے سارے اقدامات اور تقاریر دکھا کر رنگ میں بھنگ ڈال دی ایک اور صاحب جنہوں نے اپنی تقریر کے دوران حکومت کا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ان کی تقریر کے بعد ایک تجزیہ نگار پروگرام میں بیٹھے ان کے بھائی کا گورنر ہونے اور رشتے داروں کے اراکین پارلیمنٹ ہونے کا بھانڈا پھوڑ رہے تھے اور رکن اسمبلی جمشید دستی نے تو حد ہی کر دی یہ کہہ کر اگر مارشل لا لگا تو ان کے علاوہ یہ تمام فوج کے پیچھے کھڑے ہوں گے اس سے پہلے بھی یہ ہی حضرت ایک اور سچ بول چکے ہیں۔ لگتا ہے جمشید دستی کو سچ بولنے کی بیماری ہے۔ اب تو ایک بات ان سب کو طے کر لینی ہی پڑے گی کہ آیندہ کو ئی سچ بولنے والا رکن پارلیمنٹ کسی بھی صورت میں نہ بننے پائے۔

زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں ایک جو ہو رہا ہے ہونے دو اور برداشت کرتے رہو یا پھر ذمے داری اٹھاؤ اسے بدلنے کی۔ یاد رہے ہم معاف کر دیتے ہیں لیکن تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ تاریخ میں کرداروں کے کردار پر بار بار بات ہوتی رہتی ہے جب ہم آج کے اپنے کرداروں کے کردار پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہماری نظریں شرمندہ ہو کر واپس لوٹتی ہیں کردار مر جاتے ہیں لیکن کرداروں کے کردار کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

آج بھی ماضی کے تمام کردار ہم میں زندہ ہیں سقراط، سولن، ہو مر، اسکائی لس، سو فیکلیز، بلائی ٹس، ورجل، دانتے، مائیکل اینجلو، شیکسپئر، شیلے، جان کیٹس، مو پساں، سارتر، ٹالسٹائی، گورکی، چیخو ف، گوگول، مارکس، بالزاک، چارلس ڈکنز، قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو آج بھی زندہ ہیں اور فرعون، یزید، میر جعفر، ہٹلر، مسولینی، اسکندر مر زا، غلام محمد، ضیاء الحق بھی چشم تصور میں ’’زندہ‘‘ ہیں۔ اور جب ہم مر جائیں گے تو ہمارے دور کے تمام کرداروں کے کردار بھی زندہ رہیں گے اور ان پر بات ہوتی رہے گی۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنا ذکر تاریخ میں کس طرح کر وانا چاہتے ہیں۔

گوئٹے نے کہا تھا ’’جس طرح ایک مجسمہ ساز اپنے خام مال کو من پسند صورت میں ڈھال سکتا ہے اسی طرح انسان کی قسمت بھی اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے تاہم اسے بھی دوسرے لوگوں کی طرح فنکار انہ تخلیقی صلاحیت کا مظاہر ہ کر نا پڑتا ہے ہم پیدائشی طور پر ان صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ‘‘عظیم یونانی شاعر نے کہا تھا ’’اے عظیم ایڈی پس ہمارے شہر پر آسیب کا سایہ ہے جو گھر آباد تھے بر باد ہو گئے ہیں موت کا سایہ بڑھتا جا رہا ہے تو انسانوں میں سب سے عظیم ہے آسمان سے ہم کلام ہونے کا فن جاننا ہے تو نے ایک بار پہلے بھی ہمارے شہر کو موت کے منہ سے بچایا تھا آ ہمارے شہر کو پھر زندہ کر تو یہ تو جانتا ہے کہ زندہ لوگوں پر حکومت کر نا مردہ لوگوں پر حکومت کرنے سے بہتر ہے‘‘۔ اپنے لیے آج یہی دعا ہمارے لبوں پر بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔