- یا تو پورا سیزن کھیلو ورنہ نہ آؤ! عرفان پٹھان نے کرکٹرز کو ذاتی ملازم سمجھ لیا
- خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں داخلے پرپابندی عائد
- بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں مزید 2 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا
- پاک بھارت ٹاکرا؛ ڈراپ اِن پچز کیوں؟ ہربھجن نے تنقید کے نشتر چلادئیے
- اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے 5 اسرائیلی فوجی ہلاک، 7 زخمی
- بجلی صارفین پر 310 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری
- ٹی20 ورلڈکپ؛ آئی سی سی نے بھارت کو پہلے ہی سیمی فائنل سلاٹ الاٹ کردی
- اسپتال مالک کے اغوا برائے تاوان میں ملوث 3 سابق سرکاری ملازم گرفتار
- عمران خان نیب ترامیم کیس میں وڈیو لنک پر سپریم کورٹ میں پیش
- لکی مروت؛ خواتین اساتذہ کو ہراساں کرنے والے محکمہ تعلیم کے اہلکار سمیت 2 گرفتار
- اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کیخلاف درخواست خارج
- جج بننے کے لیے دہری شہریت کی ممانعت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- جمہوریت ہی دے دو
- ٹی20 ورلڈکپ؛ پاک بھارت مقابلے کی میزبانی کرنے والا اسٹیڈیم تیار
- اینٹوں اور سمنٹ کا ماحول دوست متبادل
- انڈونیشیا میں 3 ٹانگوں والے جڑواں بچوں کی پیدائش
- دار چینی، فلو سے لیکر کینسر تک متعدد بیماریوں میں مفید
- اقوام متحدہ کی قرارداد مسترد کرتےہیں، دہشتگرد ریاست قائم نہیں ہونے دیں گے، اسرائیلی وزیراعظم
- عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں، فیصل واوڈا
- پاکستان کی غزہ کے لیے 350 ٹن امداد کی ساتویں کھیپ مصر پہنچ گئی
حاملہ خواتین میں کینسر کے کیسز میں اضافہ
آسٹریلیا میں کی گئی ایک نئی سٹڈی میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ چند عشروں کے دوران حاملہ خواتین میں کینسر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
سٹڈی میں 2007ء کے جائزے کے مطابق ہر ایک لاکھ خواتین میں سے ایک سو بانوے حاملہ یا بعداز زچگی کینسر کی تشخیص کی گئی جبکہ 1994ء میں یہی شرح ایک لاکھ خواتین میں ایک سو بارہ تھی۔سٹڈی آسٹریلوی خواتین پر کی گئی تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج پوری دنیا کی خواتین کے لیے اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔
محققین ایسے واقعات میں اضافے کے پیچھے موجود وجوہات کے بارے میں نہیں جان سکے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات میں خواتین کی شادی میں تاخیر اور کینسر کی بہتر تشخیص بھی شامل ہوسکتی ہے۔سٹڈی کی ایک محقق اور یونیورسٹی آف سڈنی کی کرسٹائن رابرٹس کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اور وجہ حمل کے دوران خواتین کا ہیلتھ سروسز کے ساتھ زیادہ رابطہ بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ساتھی ڈاکٹروں نے کچھ تعداد میں حاملہ خواتین میں کینسر کے کیسز کا جائزہ لیا ہے اور وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس میں خود حمل کا کردار کہاں تک ہے۔
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھیوں نے پیدائش ، کینسر کے واقعات اور ہسپتالوں میں داخلے کے حوالے سے نیوسائوتھ ویلز میں بڑی تعداد میں اعدادوشمار اکٹھے کیے۔اس میں ان سات لاکھ اسی ہزار خواتین کے اعداد وشمار بھی شامل تھے جنہوں نے 1994 سے 2008ء کے دوران لگ بھگ تیرہ لاکھ بچوں کو جنم دیا۔ اسی عرصے کے دوران حاملہ خواتین یا ایسی خواتین جنہوں نے ایک سال قبل بچے کو جنم دیا تھا، میں کینسر کے اٹھارہ سو نئے واقعات منظر عام پر آئے۔سٹڈی میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ہرسال کینسر کی تشخیص کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ہی اوسطاً خواتین کی شادی کی عمر بھی بڑھتی گئی۔
مثال کے طورپر 1994ء میں تیرہ فیصد حاملہ عورتوں کی عمر پینتیس سال تھی جبکہ دو ہزار سات میں ان کی شرح چوبیس فیصد تک پہنچ گئی۔یاد رہے کہ کینسر کا خدشہ بھی عمر کے ساتھ ساتھ ہی بڑھتا ہے اور سٹڈی میں شامل پینتیس سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ خطرہ ان خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ پایا گیا جن کی عمر تیس سال سے کم تھی۔
تاہم محققین کا کہنا ہے کہ عمر بہت کم کینسر کے خدشے میں اضافہ کرتی ہے جبکہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ڈاکٹر سمتھ کے مطابق بہتر تشخیص بھی اعدادوشمار کو زیادہ دکھانے کی ایک وجہ ہے لہذا اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر حاملہ خاتون کو کینسر ہو تو اس سے بچے کی جان بھی خطرے میں ہوتی ہے اور ماں کی زندگی بھی ، جبکہ اس کے اہل خانہ شدید پریشانی اور مایوسی سے دوچار ہوتے ہیںاور انہیں بہتر مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔