گریٹ ٹریجڈی

جاوید چوہدری  جمعـء 27 نومبر 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ادریس جالا ملائشیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ مذہباً عیسائی ہیں‘ یہ گورنمنٹ لنکڈ کمپنیز (جی ایل سی) کے سربراہ رہے‘ جی ایل سی ملائشیا کی طاقتور کمپنیوں کا گروپ ہے‘ ملائشیا کی اسٹاک مارکیٹ کا 36 فیصد حصہ اس گروپ کے پاس ہے‘ یہ دنیا کے طاقتور ترین گروپوں میں بھی شمار ہوتا ہے‘ جالا اس گروپ کے سربراہ تھے‘ انھوں نے گروپ کو ملک کا طاقتور ترین ادارہ بنا دیا‘ یہ ’’بگ فاسٹ رزلٹ میتھڈالوجی‘‘ کے ایکسپرٹ ہیں‘ ان کا فلسفہ ہے‘ آپ اگر بڑے منصوبوں سے جلد نتائج حاصل کر لیں تو آپ پورا کھیل تبدیل کر سکتے ہیں۔

مہاتیر محمد ادریس جالا کے بہت بڑے فین ہیں‘ یہ اپنے دور میں حکومت کے مختلف منصوبوں پر جالا سے مشورے کرتے تھے‘ مشاورت کا یہ عمل مہاتیر محمد کے بعد بھی جاری رہا‘ وزیراعظم عبداللہ بداوی نے انھیں اپنی ٹیم کا باقاعدہ حصہ بنا لیا‘ 2005ء میں ملائشین ائیر لائین شدید خسارے کا شکار تھی‘ حکومت نے ادریس جالا کو اس کا سربراہ بنا دیا‘ انھوں نے دو سال میں نہ صرف ائیر لائین کو خسارے سے نکال لیا بلکہ کمپنی کو منافع بخش بھی بنا دیا‘ حکومت نے 2009ء میں پرفارمنس‘ مینجمنٹ اینڈ ڈیلیوری یونٹ بنایا‘ یہ ادارہ حکومت کی مینجمنٹ‘ پرفارمنس اور سرکاری منصوبوں کی ڈیلیوری تیز کرنے کے لیے بنایا گیا تھا‘ ادریس جالا کو اس یونٹ کا سربراہ بنا دیا گیا‘ ان کا اسٹیٹس وفاقی وزیر کے برابر ہے‘ ادریس جالا نے اپنی بگ فاسٹ رزلٹ میتھڈالوجی کا بھرپور استعمال کیا اور سرکاری منصوبوں کو پر لگ گئے‘ ملائشیا تجارت اور صنعت کے ساتھ ساتھ زرعی طاقت بھی بن گیا۔

منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے وفاقی سیکریٹریوں اور وزراء کی ٹریننگ کے لیے ادریس جالا کو پاکستان بلایا‘ یہ 10 ستمبر 2013ء کو پاکستان تشریف لائے‘ انھوں نے 11 ستمبر کو پلاننگ کمیشن میں بگ فاسٹ رزلٹ تھیوری پر لیکچر بھی دیا اور وفاقی سیکریٹریوں کو کامیاب حکومتوں کی کامیاب پالیسیوں کی ٹریننگ بھی دی‘ ادریس جالا نے ٹریننگ سیشن کے دوران انکشاف کیا‘ ملائشیا کے وزیراعظم روزانہ ناشتے کی میز پر دو وفاقی سیکریٹریوں سے ملاقات کرتے ہیں‘ ملاقات کے دو سیشن ہوتے ہیں‘ سیکریٹری پہلے سیشن میں وزیراعظم کو جاری منصوبوں کی پراگریس بتاتے ہیں‘ دوسرے سیشن میں مستقبل کے منصوبوں پر بات ہوتی ہے‘ میں وزیراعظم کے ہر ناشتے پر موجود ہوتا ہوں‘ میں ساتھ ساتھ نوٹس لیتا رہتا ہوں‘ ناشتے کے ساتھ ہی یہ میٹنگ ختم ہو جاتی ہے‘ میں اس کے بعد میٹنگ میں ہونے والے فیصلوں کے منٹس بناتا ہوں‘ یہ منٹس تمام متعلقہ اداروں کو بھجوا دیے جاتے ہیں اور یوں ان فیصلوں پر اسی دن عمل شروع ہو جاتا ہے‘ اگلے دن دو نئے سیکریٹری ناشتے پر مدعو ہوتے ہیں اور یہ دونوں بھی دو سیشن میں اپنے اپنے محکموں کے ’’آن گوئنگ‘‘ پراجیکٹس کی پراگریس بتاتے ہیں اور مستقبل کے منصوبے ڈسکس کرتے ہیں اور میں منٹس بنا کر اسی طرح مختلف محکموں اور اداروں کو بھجوا دیتا ہوں۔

ادریس جالا کا کہنا تھا‘ پاکستان کے پاس منصوبوں کی کمی نہیں‘ آپ کے پاس درجنوں شاندار منصوبے موجود ہیں‘ آپ کا مسئلہ عمل درآمد ہے‘ آپ کو چاہیے‘ آپ ’’امپلی منٹیشن‘‘ کا فول پروف اور تیز ترین سسٹم بنائیں‘ آپ چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائیں گے‘ ادریس جالا کے لیکچر کے دوران ایک سیکریٹری نے دوسرے سیکریٹری کے کان میں سرگوشی کی ’’کیا وزیراعظم نواز شریف نے آج تک تمہیں ملاقات کے قابل سمجھا‘‘ سیکریٹری نے سرگوشی میں جواب دیا‘ وزیراعظم میرے نام اور میری شکل دونوں سے واقف نہیں ہیں‘ اس سیکریٹری نے یہ سوال بائیں جانب بیٹھے سیکریٹری سے بھی پوچھا‘ اس کا جواب تھا‘ وزیراعظم نے ایک بار میٹنگ کے لیے بلایا تھا لیکن وہ میٹنگ کینسل ہو گئی تھی‘ اس کے بعد سرگوشی کا یہ عمل آگے چل پڑا‘ یہ سوال ہر سیکریٹری کے کان تک پہنچا اور ہر سیکریٹری کا جواب ناں تھا۔

اس سیشن میں 25 وفاقی سیکریٹری اور چیئرمین موجود تھے‘ صرف دو نے ہاں میں سر ہلایا‘ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا‘ میں نے ایک بار اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ وزیراعظم سے ملاقات کی جب کہ دوسرے سیکریٹری کا جواب تھا‘ میں درجنوں مرتبہ وزیراعظم سے ملا ہوں‘ یہ اعتراف سن کر سب کی ہنسی نکل گئی‘ کیوں؟ کیونکہ وہ مواصلات کے سیکریٹری تھے اور وزیراعظم ان کی مدد کے بغیر سڑکیں اور موٹر ویز نہیں بنا سکتے تھے چنانچہ ان سے ملاقات لازم تھی اور یہ ملاقاتیں ہو رہی تھیں‘ باقی تمام سیکریٹریز ادریس جالا سے ’’بگ فاسٹ رزلٹ‘‘ کا فلسفہ سمجھ رہے تھے‘ یہ آج بھی اپنے دفتروں میں فارغ بیٹھ کر ادریس جالا کے فارمولے کے نوٹس پڑھتے ہیں‘ اپنی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں اور سرکاری پلاٹ پر مکان بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ وزیراعظم کبھی ان سے پہلے ملے‘ نہ آج مل رہے ہیں اور نہ ہی یہ مستقبل میں ان سے ملیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ ملک اور عوامی ترقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔

میاں نواز شریف کی نفسیات پر پے درپے ناکامیوں‘ دو بار حکومتوں سے برخاستگی اور طویل جلاوطنی نے برے اثرات چھوڑے ہیں‘ یہ اب کسی پر اعتماد نہیں کرتے‘ انھوں نے اپنے گرد حصار کھینچ لیا ہے‘ یہ خود اس حصار سے باہر نکلتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو اس میں پاؤں رکھنے دیتے ہیں‘ یہ خارجہ امور اور دفاع جیسی وزارتیں بھی کسی کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ وفاقی سیکریٹری تو رہے دور یہ اپنے وزراء تک سے ملاقات نہیں کرتے‘ کچن کیبنٹ بھی اب سمٹ کر دو وزراء تک محدود ہو چکی ہے‘ یہ رات چھ سے آٹھ بجے کے دوران بیڈ روم میں چلے جاتے ہیں اور پھر صبح تک کے لیے تمام رابطے منقطع ہو جاتے ہیں‘ ملک میں اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیش آ جائے تو صرف اسحاق ڈار واحد شخص ہیں جو وزیراعظم کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں اور یہ بھی اپنا یہ استحقاق سال چھ ماہ میں ایک آدھ بار استعمال کرتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی اپنی تمام تر بیڈ گورننس اور کرپشن کے الزامات کے باوجود ہزار درجے بہتر تھے‘ آپ پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی وزیر سے پوچھ لیں‘ یہ گواہی دے گا۔

گیلانی صاحب کے وزراء رات بارہ ایک بجے وزیراعظم ہاؤس جا کر وزیراعظم کو جگا لیتے تھے‘ وزیراعظم سلیپنگ سوٹ میں ان سے ملتے تھے‘ وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کو جگا کر بلوایا جاتا تھا اور ان سے رات کے وقت نوٹیفکیشن جاری کرا دیا جاتا تھا‘ وفاقی سیکریٹری اور چیف سیکریٹری بھی ہنگامی حالت میں ان سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے تھے‘ یہ دل کے بھی کھلے تھے‘ میاں شہباز شریف نے آصف علی زرداری اور وفاقی حکومت کے بارے میں کیا کیا نہیں کہا اور کیا کیا نہیں کیا لیکن گیلانی صاحب نے اس کے باوجود ان پر اپنے دروازے بند نہیں کیے‘ یہ ان سے ملتے بھی تھے اور ان کے کام بھی کرتے تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013ء کا الیکشن لاہور کی میٹرو دکھا کر لڑا تھا‘ میٹرو کے معاملے میں اگر یوسف رضا گیلانی میاں شہباز شریف کی مدد نہ کرتے‘ یہ وفاقی اداروں کو ’’کوآپریشن‘‘ کا حکم نہ دیتے تو پنجاب حکومت کبھی یہ منصوبہ مکمل نہ کر پاتی‘ یہ ایک حقیقت ہے اور دوسری حقیقت جنرل پرویز مشرف کی ٹیم ہے‘ جنرل مشرف بلاشبہ آمر تھے اور ہم نے آمر کی حیثیت سے ہمیشہ ان کی محالفت کی لیکن جہاں تک ان کی ٹیم کا معاملہ ہے تو وہ واقعی شاندار تھی‘ جنرل مشرف نے چن چن کر ماہر لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا‘ یہ ادریس جالا جیسے لوگ تھے اور ان لوگوں نے حقیقتاً کمال کیا‘ افسوس ہم آمر کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن ہم نے اس کی ٹیم کے ساتھ بھارتی جاسوس جیسا سلوک کیا۔

جنرل مشرف کے بعد دو جمہوری حکومتیں آ چکی ہیں‘ یہ دونوں حکومتیں آج تک عبداللہ یوسف جیسا چیئرمین ایف بی آر اور کامران لاشاری جیسا دوسرا چیئرمین سی ڈی اے نہیں لا سکیں‘ باقی وزراء اور چیئرمین دور کی بات ہیں‘ جنرل مشرف اور شوکت عزیز جیسے بھی تھے لیکن انھوں نے بہرحال ڈیلیور کیا تھا‘ شوکت عزیز نے ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کا قرضہ ختم کر دیا تھا‘ اگر فوجی حکومتیں ایسے لوگ تلاش کر سکتی ہیں تو یہ لوگ جمہوری حکومتوں کو کیوں نہیں ملتے؟ حکومتیں ختم ہونے کے بعد ماہر اور تجربہ کار بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کی قومیت کیوں مشکوک ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے لوگ اچھوت کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم نے کبھی سوچا؟ ہماری حالت یہ ہے‘ ہم گورننس سیکھنے کے لیے ادریس جالا کو ملائیشیا سے بلا لیتے ہیں لیکن ہم شوکت عزیز سے یہ نہیں پوچھتے‘ آپ نے ایک چیک کے ذریعے آئی ایم ایف کے سارے قرضے کیسے ادا کر دیے تھے؟

ہم عبداللہ یوسف سے یہ نہیں پوچھتے ’’ آپ کے دور میں ٹیکس وصولی کی شرح کیسے بڑھ گئی تھی‘‘ اور ہم کامران لاشاری کو بلا کر ان سے نہیںپوچھتے ’’ آپ نے اضافی بجٹ کے بغیر اسلام آباد کو کیسے ٹھیک کر لیا تھا‘‘ ہمارے وزیراعظم کے پاس دنیا جہاں کے لوگوں کے لیے وقت ہے‘ یہ کامیابی اور گورننس کے کلیے سیکھنے کے لیے دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی وزراء اور وفاقی سیکریٹریوں کو بلا کر نہیں پوچھا ’’ہم ملک کیسے چلا سکتے ہیں اور کون کون سا منصوبہ زیر التواء ہے‘‘ دنیا کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے لیکن گھر والوں سے ملاقات کے لیے ابھی سورج ہی طلوع نہیں ہوا‘ ہم ان رویوں کے ساتھ ملک کیسے چلائیں گے؟ کیا کسی کے پاس کوئی جواب ہے؟

میرا خدشہ ہے‘ یہ ملک میں کسی نیشنل پارٹی کی آخری حکومت ہے‘ اس کے بعد کمزور حکومتیں آئیں گی اور وہ اپنی دھوتیاں سنبھالنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گی چنانچہ جو کچھ کرنا ہے‘ ان لوگوں نے کرنا ہے‘ یہ زور بھی بہت لگا رہے ہیں‘ ایوب خان کے بعد ملک میں پہلی بار انفراسٹرکچر کے اتنے بڑے منصوبے شروع ہوئے ہیں‘ یہ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی بھی ختم کر دیں گے لیکن سوال یہ ہے‘ جب اسپرنگ واپس اپنی پوزیشن پر جائے گا تو ان میٹروز‘ ان ہائی ویز‘ ان انڈر پاسز اور ان راہ داریوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ انسانوں اور انسانی معاشروں کو ڈویلپ کرنا بھی حکومتوں اور لیڈروں کی ذمے داری ہوتی ہے اور ہمارے وزیراعظم یہ ذمے داری نہیں نبھا رہے‘ یہ ذمے داریاں نبھانے کے لیے وزیراعظم کا دستیاب ہونا ضروری ہوتا ہے اور وزیراعظم اپنے وزراء ہی کو دستیاب نہیں ہیں‘ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے‘ میاں نواز شریف کی پرسنیلٹی میں وزارت عظمیٰ اور لیڈر شپ دونوں ختم ہو رہی ہیں اور یہ صرف میاں نواز شریف کے لیے خطرناک نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ٹریجڈی ہے‘ گریٹ ٹریجڈی چنانچہ میرا مشورہ ہے‘ وزیراعظم یا تو جاگ جائیں یا پھر دبئی میں آصف علی زرداری کے ساتھ والا گھر خرید لیں کیونکہ اس بار کوئے یار سے نکلنے کے بعد کوچہ ملامت کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا اور دنیا میں اس وقت دبئی سے بڑا کوئی کوچۂ ملامت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔