قہر درویش برجانِ درویش

شاہد سردار  ہفتہ 18 جون 2016

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کا سب سے بڑا مسئلہ پانی اور بجلی ہے، جو انھیں دستیاب نہیں ہورہا ہے پیسے (بل) دے کر بھی۔ موجودہ حکومت کوئلے، پانی، ہوا اور تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے مختلف منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ کر عوام کو 2018 تک اندھیرے ختم کرنے کے سہانے خواب تو ضرور دکھا رہی ہے لیکن ان کے عملی شکل اختیار کرنے کے امکانات زیادہ روشن نہیں۔ تقریباً نصف درجن کے قریب جن منصوبوں کا سنگ بنیاد گزشتہ اور اس سے پیوستہ برس رکھا گیا تھا ان پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوسکا اور کئی منصوبے تو ایسے ہیں کہ جن کی تکمیل کرنے والی کمپنیاں ہی ان سے دست کش ہونے کا اعلان کرچکی ہیں۔

ادھر بجلی کی پیداوار اور ترسیل پر نظر رکھنے والے ماہرین کا پورے وثوق سے یہ کہنا ہے کہ ہمارا بجلی کا ترسیلی نظام اس قدر فرسودہ اور بوسیدہ ہوچکا ہے کہ وہ 15 ہزار میگاواٹ سے زیادہ کا بوجھ ہی برداشت نہیں کرسکتا اور اگر پروپیگنڈے سے عوام کے ذہنوں کو مسحور یا مفلوج کرنے سے آگے بڑھ کر بجلی کی پیداوار میں بالفرض اضافہ کر بھی لیا جائے تو ہمارے موجودہ ترسیلی نظام کے ذریعے عوام کو فراواں بجلی فراہم کرنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ بجلی پیداوار اور تقسیم پر مامور کمپنیاں نہ بجلی پوری پیدا کر رہی ہیں اور نہ ہی اپنے لائن لاسز پر قابو پا رہی ہیں۔ ان حالات میں وہ مختلف حیلوں بہانوں سے سروس چارجز اور اس طرح کے دوسرے بوگس چارجز کے نام پر ناجائز طریقے سے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکالتی رہتی ہیں مگر ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔

ابھی تازہ ترین متعلقہ اداروں کو چلانے والوں نے یہ کیا ہے کہ 2015 میں بجلی کے بلوں میں مختلف سرچارج لگا کر صارفین سے 65 ارب روپے اینٹھ لیے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی نے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے جانے سے قبل اس کی نوک پلک خود درست کی تاکہ کوئی ایسا تنازعہ نہ کھڑا ہو جیساکہ گزشتہ سال ہوا تھا۔ نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں ایک ہی دن میں کمی اور اضافے کا بھی ایک حیران کن اور اپنی طرز کا منفرد ریکارڈ بھی قائم کیا ہے کہ اپریل کے لیے بجلی کی قیمت میں 3 روپے 94 پیسے فی یونٹ کی کمی بھی کی جس کا ریلیف عوام کو جون کے آخر میں ملے گا لیکن اس کے ساتھ ہی کے پی کے کی حکومت کو آبی بجلی کا منافع دینے کے لیے بجلی کے فی یونٹ میں ایک روپیہ پچیس پیسے کا اضافہ کرکے ملک بھر کے صارفین پر 40 ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی ڈال دیا ہے جو انھیں 2016-17 میں برداشت کرنا پڑے گا۔

بجلی کے نرخوں میں اضافے کا یہ سلسلہ چونکہ آیندہ مالی سالوں تک بھی جاری رہے گا اس لیے آیندہ چار برسوں میں مجموعی طور پر صارفین بجلی کو 70 ارب روپے مزید ادا کرنے ہوں گے جس سے کے پی کے کو 9 ہائیڈل پاور اسٹیشنز سے پیدا کی جانے والی 17 ارب یونٹ بجلی کا منافع نقد مل سکے گا۔ یاد رہے کہ واپڈا نے اس منافعے کی ادائیگی کے لیے وزارت بجلی و پانی کی اجازت سے مالی سال 2015-16 میں مختلف بینکوں سے 25 ارب روپے ساڑھے سات فیصد سود پر قرض لیے تھے اور اس کی خواہش تھی کہ ڈیٹ سروسنگ پر اٹھنے والے اخراجات بھی صارفین سے وصول کیے جائیں لیکن نیپرا نے اس کی اجازت نہیں دی۔

اس کے باوجود بجلی صارفین پر جو پہلے ہی مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، مختلف حیلوں اور بہانوں سے ڈالے جانے والے بوجھ میں مسلسل اس طرح اضافہ کیا جا رہا ہے کہ بجلی عوام کے لیے ایک بنیادی سہولت کے بجائے اذیت بنتی جا رہی ہے اور اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو بجلی کے لیے پراجیکٹ بے شک نہ چلیں ملک میں بجلی کی فراوانی ہوگی لیکن عوام کی بھاری اکثریت اس کو استعمال کرنے کے قابل ہی نہیں ہوگی۔

اس بات سے ہر ذی ہوش واقف ہے کہ ملک بھر میں بجلی اور پانی کا بحران تمام تر دعوؤں کے باوجود بدستور نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور شدید گرمی میں شہریوں کو شدید ترین دقت کا سامنا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ بجلی کے بل بھی ایک عذاب بن گئے ہیں۔ زائد بلنگ کی شکایات دیرینہ عام ہے اور اس حوالے سے صارفین کو کوئی ریلیف کبھی نہیں دیا جاتا۔ اس حوالے سے ایک بہت بڑا ظلم یہ کیا جا رہا ہے کہ بجلی کے ’’لائن لاسز‘‘ میں کمی کے اقدامات ہونے کے بجائے اس کا بوجھ بھی صارفین کو منتقل کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق بجلی چوری اور لائن لاسز سے ہونے والے نقصانات کو اگلے مالی سال میں داخل ہونے سے قبل پورا کرنے کے لیے کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر اوور بلنگ کی ہے۔ ایک حالیہ تجزیے میں ملک میں بجلی کی تقسیم کار دس کمپنیوں میں میٹر ریڈنگ کرنے کے بجائے اندازوں (ایوریج) پر بل تیار کرنے اور اوور بلنگ کا رجحان ہے جس سے صارفین مشکلات سے دوچار ہیں۔ متعلقہ حکام ان کی شنوائی نہیں کرتے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزارت پانی و بجلی لائن لاسز کم کرنے، بجلی چوری کو ختم کرنے کے لیے مثبت اقدام کرتی لیکن اس کے بجائے اپنی غفلت اور نااہلی کو صارفین پر منتقل کرکے بلوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

ہمیشہ کی طرح بے بس عوام (صارفین) نے احتجاج کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے مطالبہ ہی کیا ہے کہ ایسے اقدام کا فوری تدارک کیا جائے تاکہ ان پر جو اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے اس سے انھیں نجات دلائی جاسکے اور حکومتی سطح پر ایسی ناروا کارروائیوں کو روکا جائے جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بجلی کے بل پر خود ساختہ یا بلاجواز مختلف اقسام کے بوگس ٹیکس اصولی طور پر صارفین بجلی پر دوہرا ظلم ہے اور یہ وصولی کس اذیت پسند، بے رحم اور ظالم اذہان کی تجویز پر شروع کی گئی ہے کم ازکم ہماری ملک کی سپریم عدلیہ کو تو اس کا سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔ یہ ظلم کیا کم ہے کہ صارفین بوگس بلنگ کو عرصہ دراز سے بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ قہر درویش برجان درویش کے مصداق سیلز ٹیکس کا نفاذ برداشت بھی کرلیا جائے تو صارفین کے ماہانہ یونٹس پر بلاجواز محصولات کے نفاذ کا قطعاً کوئی جواز نہیں اس لیے اسے بلاتاخیر کالعدم کیا جانا چاہیے۔

حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ماہ رمضان کے دوران سحروافطار کے اوقات میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی لیکن اس وعدے پر عمل نہیں ہوا اورغریب، بے بس و لاچار عوام سحر و افطار کے اوقات میں روشنی اور پنکھے کی ہوا کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی پر قابو پانے کے حکومتی دعوے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئے، اشیا ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

دکاندار گاہکوں سے منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ ہمارے ہاں ایک بار مہنگی جو چیز ہوجائے وہ پھر کبھی سستی نہیں ہوتی۔ وطن عزیز میں غربت کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے اور کروڑوں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے بہت نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ایسے میں صارفین بجلی پر 65 ارب روپے کا جھٹکا انھیں کہاں لے جاکر مارے گا ہے کسی کے پاس اس کا جواب؟

بیوروکریسی نے پاکستان کے صارف کو لاوارث سمجھ رکھا ہے۔ 65 ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکال کر آیندہ چار برسوں میں70 ارب روپے مزید ان کی جمع پونجی سے وصول کرنے کی پلاننگ نے بھی ریاست کی رٹ کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پھول اور عطر کی خوشبو وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن انسان کے نیک اعمال اور اس کے بہترین کردار کی خوشبو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ کاش ہمارے حکمران یا ارباب اختیار اس تناظر میں اپنے اعمال، افعال اور کردار سبھی کی کردار سازی کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔