- خشک دودھ کی درآمد پر پابندی، امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کا مطالبہ
- گندم اسکینڈل، کسانوں کا 10 مئی سے ملک گیر احتجاج کا اعلان
- جان بچانے والی 100 سے زائد دواؤں کی قلت پیدا ہوگئی
- اے ڈی بی؛ 100 ارب ڈالر کے اضافی فنڈز کے اجرا کا خیرمقدم
- نیپرا، اوور بلنگ پر افسران کو 3 سال کی سزا کا بل منظور
- ایشیائی اور بحرالکاہل کے ممالک معمر افراد کی فلاح و بہبود میں ناکام
- نیا قرض پروگرام، آئی ایم ایف مشن رواں ماہ پاکستان آئے گا
- پی ایس ایل کو مزید مسابقتی بنایا جائے گا
- تعریف کرنے پر حارث کوہلی کے شکرگزار، عامر سے سیکھنے کے منتظر
- موٹروے ایم نائن کے قریب ٹرالر اور وین میں تصادم، 3 مسافر جاں بحق
- دوستی نہیں ٹیم کا سوچیں
- ملک کو سنگین چیلنجز درپیش...انا پرستی چھوڑ کر مل بیٹھنا ہوگا!
- اسرائیل میں حکومت نے قطری نیوز چینل الجزیرہ کی نشریات بند کردی
- ایس ای سی پی نے پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کی تنظیم نو کی منظوری دے دی
- مسلم لیگ(ن)، پی پی پی کے درمیان پاور شیئرنگ، بلاول کی بطور وزیرخارجہ واپسی کا امکان
- تربیتی ورکشاپ کا انعقاد، 'تحقیقاتی، ڈیٹا پر مبنی صحافت ماحولیاتی رپورٹنگ کے لئے ناگزیر ہے'
- پی ٹی آئی نے 9 مئی کو احتجاج کا پلان ترتیب دے دیا
- گندم اسکینڈل؛ تحقیقاتی کمیٹی آج رپورٹ پیش کرے گی
- اے آئی ٹیکنالوجی نایاب عوارض کی قبل از وقت تشخیص کرسکتی ہے، تحقیق
- لِنکڈ اِن نے صارفین کے لیے گیمز متعارف کرا دیے
سمندروں میں آکسیجن کی کمی کا ذمہ دار کون؟
ہیمبرگ: ایک وسیع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ 50 برس میں پوری دنیا کے سمندروں میں آکسیجن کی مقدار کم ہوئی ہے لیکن بظاہر یہ امر ذیادہ تشویشناک نہیں۔
جرمنی میں واقع سمندروں پر تحقیق کے اہم مرکز کے ماہری نے گزشتہ 50 برسوں کا ڈیٹا حاصل کیا ہے اور اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس عرصے میں سمندروں میں گھلی آکسیجن میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ سائنسدانوں نے کے مطابق اگرچہ یہ اضافہ ذیادہ نہیں لیکن اس سے سمندری جاندار متاثر ہوسکتے ہیں جو آکسیجن کے بارے میں بہت حساس واقع ہوتے ہیں۔
ادارے کے سائنسداں داکٹر لوتھر اسٹراما کے مطابق ’ اگرچہ سمندروں میں آکسیجن کی یہ معمولی کمی تشویشناک نہیں لیکن اس کے سمندری مخلوقات پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ سمندروں میں ہرجگہ آکسیجن یکساں مقدار میں نہیں پائی جاتی۔‘
ماہرین کے مطابق 1960 سے 2010 کے درمیان آکسیجن کی مقدار کم ہوئی ہے جس سے مچھلیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ سروے میں سمندروں کی سطح سے لے کر اتھاہ گہرائیوں تک کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے اور اس کے لیے دوردراز مقامات کا ڈیٹا بھی لیا گیا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ سنکے شمٹکو کہتےہیں کہ یہ سمندروں میں آکسیجن کی مقدار ناپنے کا پہلا سروے ہے ۔ اس کا اندازہ سمندروں کے مستقبل کی پیشگوئی کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے روایتی ایندھن استعمال کیا جس سے گلوبل وارمنگ بڑھی ہے۔ پھر یہ حرارت دھیرے دھیرے سمندروں میں سرایت کرتی جارہی ہے۔ گرم پانی آکسیجن نہیں تھام سکتا اور یوں سمندروں کا آکسیجن نکل کر فضا میں داخل ہونا شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2100 تو عالمی سمندروں کی آکسیجن میں 7 فیصد تک کمی واقع ہوگی اور کوئی نہیں جانتا کہ اس سے بحری حیات کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔