- پی ایس ایل کی لیگ کمشنر لیگ کمشنر نائلہ بھٹی بھی مستعفی ہوگئیں
- پولیس اہلکاروں کے ٹارگٹ کلر کے دورانِ تفتیش سنسنی خیز انکشافات
- آڈیو لیکس کیس؛ آئی بی کی بینچ پر اعتراض واپس لینے کی درخواست خارج
- ٹی20 ورلڈکپ؛ کس ٹیم کی مضبوط بیٹنگ لائن اَپ ہے؟ وان نے بتادیا
- اسحاق ڈار کی نائب وزیراعظم تعیناتی کیخلاف درخواست پر دلائل طلب
- سندھ ہائیکورٹ کا تھانوں کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کیخلاف فوری کارروائی کا حکم
- انتخابی فائدے کیلیے مودی مسلم دشمنی میں زہرآلود تقاریر کررہے ہیں، عالمی میڈیا
- سرحدی کشیدگی؛ ایران کا افغانستان کے ساتھ بارڈر سیل کرنے کا فیصلہ
- اے ڈی بی اور ملکی اداروں کا معاشی کارکردگی پراطمینان کا اظہار
- کراچی:غیرقانونی تعمیرات کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کاحکم
- سندھ کابینہ، گاڑیوں کی پریمیم نمبر پلیٹس متعارف کرانیکا فیصلہ
- لاہور؛ نوبیاہتا دلہن کی فلیٹ سے پھندا لگی لاش برآمد
- لائیک، شیئر اور فالوورز برائے فروخت
- آئی ایم ایف مشن کی آمد سے قبل بجٹ اہداف مکمل کرنے کا فیصلہ
- تجارتی خسارے میں 17 فیصد کمی، برآمدات 9.10 فیصد بڑھیں
- پاکستان کا پہلا قمری خلائی مشن آج چین سے لانچ ہوگا
- میگا ایونٹ سے قبل پاکستانی بالنگ لائن کی تعریفیں ہونے لگیں
- مکارم اخلاق
- مستحکم ازدواجی زندگی مگر کیسے۔۔۔۔۔!
- کوہلی کو پیچھے کیوں چھوڑا، بھارتی شائقین گائیکواڈ کے دشمن بن گئے
خواتین وزن کم کرانے کی سرجری کے بعد ایک سال تک حاملہ نہ ہوں
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جن خواتین نے وزن کم کرانے کے لیے سرجری کرائی ہو ، انہیں چاہیے کہ کم از کم ایک سال تک ماں بننے کی منصوبہ بندی نہ کریں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موٹاپے کی حالت میں ماں بننے کے مقابلے میں دبلی حالت میں ماں بننا زیادہ مفید ہے اور اس میں کم پیچیدگیاں ہوتی ہیں تاہم موٹاپے کے لیے سرجری کرانے کے بعد حاملہ ہونے کی صورت میں خواتین کئی قسم کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں جن میں حمل ضائع ہونے کا خدشہ سرفہرست ہے۔ اس لیے ان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایسا کرنے کے بعد کم ازکم ایک سے ڈیڑھ سال تک حاملہ نہ ہوں۔
اعدا دو شمار کے مطابق ماں بننے کی عمر کو پہنچنے والی خواتین میں موٹاپے کی شرح 2015 تک 28 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ایک طبی جریدے میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق عام طورپر جن افراد کا بی ایم آئی چالیس کلو فی مربع میٹر ہو ، انہیں عام طور پر وزن کم کرانے کے لیے سرجری کا مشورہ دیا جاتا ہے جو عام طورپر گیسٹرک بینڈ اور گیسٹرک بائی پاس کے ذریعے کی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق وزن کم کرانے کے آپریشن کے فوری بعد حاملہ ہونیوالی خواتین کو کئی مسائل درپیش آچکے ہیں جس کے واضح اعدادو شمار موجود ہیں۔اس لیے مستقبل قریب میں ڈاکٹروں کے لیے یہ معمول بن جائے گا کہ اس قسم کی سرجری کرانے والے خواتین ان سے پوچھیں گی کہ آیا انہیں اپنے اگلے بچے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے یا انتظار کرنا چاہیے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ ایسی خواتین جو وزن کم کرانے والی سرجری کے بعد حاملہ ہوتی ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ ماہرین کی ایک ٹیم کی مدد لیں جن میں امور زچگی کا ماہر ، سرجن ، فرٹیلٹی سپیشلسٹ اور غذائی ماہر سمیت چار قسم کے ماہرین ہونے چاہیئں۔ ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ایسی خواتین کو مانع حمل ادویات ، غذائی ہدایات اور معلومات اور وٹامن سپلیمنٹ بھی لینے چاہیئں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات ضروری ہے کہ خواتین اس بات سے آگا ہ ہوں کہ موٹاپے کی صورت میں حمل کی صورت میں وہ کئی قسم کے خدشات میں مبتلا ہوسکتی ہیں تاہم ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ موٹاپے کی سرجری کی صورت میں فوری طورپر حاملہ نہ ہوا جائے۔بصورت دیگر ان میں دیگر پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ حمل ضائع ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جائے گا۔
علاوہ ازیں ایک اور سٹڈی سے پتہ چلا ہے کہ وزن کم کرانے کی سرجری کے بعد اٹھارہ ماہ سے پہلے ہونیوالے حمل میں 31 فیصد حمل ضائع ہوئے جبکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ضائع ہونیوالے حمل کی شرح اٹھارہ فیصد رہی۔ہارلو میں منعقدہ پرنسس الیگزینڈرا ہاسپٹل کی ماہر زچگی راحت خان کا کہنا ہے کہ شادی کی عمر کو پہنچنے والی بہت سی خواتین کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔ عام طورپر خواتین شادی سے پہلے اپنا موٹاپا کم کرنے کے لیے سرجری وغیرہ کراتی ہیں اورپھر جب وہ شادی کے فوری بعد ماں بننے کا عمل شروع کرتی ہیں تو ان میں مذکورہ سرجری کی وجہ سے کئی قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔