خواتین؛ معاشرہ جنہیں فراموش کردیتا ہے

محمد عاطف شیخ  اتوار 25 جون 2017
اسلام نے ان ظالمانہ رسموں کو ختم کیا اور بیوہ عورتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ فوٹو : فائل

اسلام نے ان ظالمانہ رسموں کو ختم کیا اور بیوہ عورتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ فوٹو : فائل

’’ ہر کوئی اپنے رویوں سے مارنے پر تلا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ایک بیوہ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُس نے اپنے شوہر کو خود ہی ماردیا ہو‘‘۔

یہ احساسات ایک تعلیم یافتہ اور اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز (ص) کے ہیں جو اپنی 10 سالہ بیٹی کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔کہتی ہیںکہ ایک بیوہ پہلے ہی بہت محدود زندگی گزارتی ہے۔ اس کے باوجود اسکی خوشی اور غمی پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ کبھی شوہر کے مرنے کا طعنہ دیکر اُس کی خوشی چھینی جاتی ہے تو کبھی ہر وقت رونے دھونے اور فریاد کرنے کاکہہ کراُسے اپنے دکھ کو ہلکا کرنے سے روکا جاتا ہے۔

کسی بھی صورت ایک بیوہ عورت کو چین اور سکون سے نہیں رہنے دیا جاتا۔اسلام بیوہ اور یتیموں کے حقوق کو پورا کرنے کی خاص تلقین کرتا ہے ۔لیکن ہمارا معاشرہ اس کے برعکس کرتا ہے۔ہماری جائیداد ہماری جان کی دشمن بن جاتی ہے۔ شاید ہم معاشرے اور اپنی فیملی پر بوجھ بن گئے ہیں۔

یہ وہ مایوسی ہے جو دنیا بھر میں موجود25 کروڑ85 لاکھ بیوہ خواتین کی اکثریت میں پائی جاتی ہے۔ایسا کیوں ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا فرسودہ رسم و رواج کی پیروی، تنگ نظری، ذاتی مفادات کا حصول، خواتین کے حقوق کے بارے میں موجود قوانین میں سقم اُن کے اطلاق میں تساہل اور انصاف کے حصول کا طویل انتظار تو ہے ہی لیکن حکومتی ترجیحات میں خواتین کے حقوق سے متعلق اقدامات اور پالیسیوں کا فقدان دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں بیوہ خواتین کی زندگی کو مصائب کے بھنور میں دھکیل رہا ہے۔

بیوہ خواتین اعداوشمار سے غائب، تحقیق کاروں کی توجہ سے دور، مقامی اور قومی احکام کی نظروں سے اوجھل اور سول سوسائٹی کی جانب سے عموماً نظر اندازکئے جانے کی وجہ سے ان کی حالتِ زار غیر موزوں اور نظر نہ آنے والی ہے۔ اور مختلف معاشروں میں رہنے والی بیوہ خواتین کی حالت زار پر توجہ کی ناکامی ایک عمومی طرز عمل ہے ۔جس کی جانب عام اور خاص کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے23 جون کو بیوہ خواتین کابین الاقوامی دن قرار دیا ۔ 2011 میں پہلی بار یہ دن دنیا بھر میں منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد بیوہ خواتین کو معاشرے میں نمایاں کرنااور انھیں بہتر طور پر زندہ رہنے کے متوازی مواقع مہیا کرنا ہیں۔

1995 میں بیجنگ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی وویمن کانفرنس کے پلیٹ فارم فار ایکشن کی سفارشات کے مطابق حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ صنفی (Gender) اعداوشمار کو بہتر طور پر اکٹھا کریں۔ لیکن اس سفارش پر کافی حکومتوں کیجانب سے پوری طرح عملدرآمد نہیں ہورہا۔ بیوہ خواتین ہی کے اعداوشمار کو لے لیںاکثر ممالک میں اس حوالے کافی تشنگی پائی جاتی ہے۔ کہیں اعدادوشمار ہیں ہی نہیں تو کہیں بہت پرانے اور وہ بھی صرف بیوہ خواتین کی آبادی کے بارے میں ۔ایسے میں قابل اعتبار اعدادوشمار کی کمی بیوائوں کی غربت، اُن پر ہونے والے تشدد اور محرومیوں کو دور کرنے کے لئے پالیسیاں یاپروگرامز بنانے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہیں ۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لئے بر طانیہ میں قائم Loomba Foundation دنیا بھر کے ممالک میں موجود بیوہ خواتین اور اُن کے بچوں کے اعدادوشمار کو جدید انداز میں مرتب کرر ہی ہے ۔

اوراُن کے حقوق کے لئے ایک گلوبل پلیٹ فارم کے طور پر متحرک ہے۔ فائونڈیشن کی گلوبل ویڈوز رپورٹ2015 کے مطابق دنیا کی 9.1 فیصد شادی کے قابل عمر کی خواتین(Percentage of Widows of Marital Age Female Population)بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔رپورٹ کے اعدادوشمار کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس وقت بیوہ خواتین کی دوسری بڑی تعداد جنوب ایشیاء کے خطے میں موجود ہے جو عالمی تعداد کا 22.40 فیصد ہے۔جبکہ خطے کی 8.7 فیصد مذکورہ ایج گروپ کی خواتین بیوگی کا شکار ہیں۔

اس کے علاوہ جنوب ایشیاء کی7 فیصد اور دنیا کی ڈیڑھ فیصدبیوہ خواتین پاکستان میں آباد ہیں۔لومبا فائوندڈیشن کے مطابق پاکستان اس وقت بیوہ خواتین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں 10 ویں نمبر پر ہے۔اور ملک میں اُن کی تعداد کااندازہ 40 لاکھ 50 ہزار سے زائد ہے۔ پاکستان سے پہلے دیگر نو ممالک میں بھارت بیوہ خواتین کی زیادہ تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ چین دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پر ہے۔اس کے بعد بالترتیب روس، انڈونیشیا، جاپان، برازیل، جرمنی اور بنگلہ دیش ہیں۔

اعدادوشمار یہ بتارہے ہیں کہ دنیا بھر میں اورپاکستان میں بیوہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔2010 سے2015 تک دنیا میں بیوہ خواتین کی تعداد میں 9 فیصد اور جنوب ایشیاء میں 6 فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔جبکہ 1998 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق اُس وقت ملک میں 15 سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین کا 5.40 فیصد بیوہ تھیں۔ یہ تناسب بڑھ کر وفاقی ادارہ شماریات کے تازہ دستیاب اعداوشمار کے مطابق 2012-13 تک مذکورہ عمر کے گروپ کے8.45 فیصدتک آچکا ہے۔

ان اعداوشمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بیوہ خواتین کی آبادی کا تناسب سندھ میں موجود ہے جہاں خواتین کا 8.70 فیصد بیوائوں پر مشتمل ہے۔8.64 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ 7.83 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا تیسرے اور6.48 فیصد کے ساتھ بلوچستان چوتھے نمبر پر ہے۔

مسلح تصادم، آفات، مختلف بیماریاں خصوصاً ایڈز دنیا بھر میں بیوائوں کی تعداد میں اضافہ کے نمایاں محرک ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ اوسط عمر پاتی ہیں اس لئے اپنی زندگی کا آخری حصہ عموماً بیوگی میں بسر کرتی ہیں۔اور ہر ملک اور خطے میں جوان بیوہ کی نسبت وسائل تک رسائی کے حوالے سے زیادہ لاچارگی کا شکار ہوتی ہیں۔ بیوہ خواتین کسی ایک معاشرے میں نہیں بلکہ تمام معاشروں میںچاہے وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر محرومیوں شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں۔

کتھم ہائوس (Chatham House ) نامی تھنک ٹینک کے دنیا کے 17 ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں کئے گئے ایک سروے کے63 فیصد رائے دہندگان کے مطابق بیوہ خواتین کے ساتھ عام خواتین کی نسبت بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔کیونکہ دنیا کے سماجی اور معاشی نظام میں بیوہ خواتین اور ان کے بچے سب سے کم تر حیثیت کے حامل ہیں۔اور اکثر معاشروں میں چونکہ خواتین کے حقوق کی پاسداری نہیں کی جاتی اس لئے خواتین کو معاشی اور قانونی تحفظ کے لئے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور شوہر کی وفات کے بعد یہ انحصار بھی ختم ہو جاتا ہے۔

روایتی معاشروں میں اکثر بیوہ خواتین کو وراثتی اور زمین و جائیدادکی ملکیت کے حقوق حاصل نہیں یا بہت محدود پیمانے پر حاصل ہیں اپنے شوہر کا ترکہ اور والدین سے ملنے والے وراثتی حق کے عدم حصول کے باعث بیوہ خواتین معاشی طور پر مستحکم نہیں اور انھیں اپنے شوہر کے خاندان والوں کی خیرات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جو وہ دیں یہ نہ دیں اُن کی مرضی۔ ناخواندگی اور فنی تربیت کی کمی کے باعث بیوہ خواتین اپنی فیملی کی کفالت صحیح طور پر نہیں کر پاتیں اور غربت کے شکنجے میں جکڑ جاتی ہیں۔لومبا فائونڈیشن کے مطابق دنیا میں موجود بیوہ خواتین کا 14.8 فیصد اور جنوب ایشیاء کی 33.4 فیصدشدیدغربت کا شکار ہیں اور اُن کی اور اُن کے بچوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پارہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں بیوہ خواتین کے ساتھ 58 کروڑ 46 لاکھ بچے موجود ہیں۔ جن کاایک چوتھائی جنوب ایشیا میں موجود ہے۔ بیوائوں کے بچے اکثرجذباتی اور اقتصادی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ بیوہ مائیں تن تنہا محدود معاشی مواقعوں کے ساتھ اپنی فیملی کی کفالت کرتی ہیں اور بعض اوقات انھیں اپنے بچوں کو مجبوراً سکول سے بھی اٹھانا پڑتا ہے اور ان کی محنت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بیوہ خواتین کی بچیاں کثیر الجہت محرومیوں کا شکار ہوتی ہیںاور ان سے بد سلوکی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ملک کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی (و) جنہیں بیوہ ہوئے 15 سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ زندگی کے دن بسر کر رہی ہیں۔کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بیوہ کی زندگی بہت مشکل ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اب تمہارا گزارہ کیسے ہوتا ہے۔ عید کے کپڑے بنائے ہیں؟ بچوں کے سکول کی فیسیں دی ہیں؟ اُن کا کہنا ہے کہ میاں کی وفات کے بعد بہت سے لوگ منہ موڑلیتے ہیں حتیٰ کہ بہن بھائی بھی پیچھا چھڑ ا لیتے ہیں کہ اب اس کی ذمہ داری ہمیں سنبھالنا پڑے گی۔ لیکن پابندیاں لگانے والے بہت آجاتے ہیں۔

رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔میں میٹرک پاس ہوں لیکن مجھے اجازت نہیں دی جاتی کہ میں نوکری کروں۔نہ ملازمت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہوتا ہے کریں تو کیا کریں؟کاش میں زیادہ پڑھی لکھی ہوتی تو اپنی فیملی کو سپورٹ کر لیتی۔اس لئے میں کہتی ہوں کہ بچیوں کو پڑھانا ضرور چاہئے اور انھیں ہنر مند بنانا چاہئے۔ تاکہ وہ اپنی فیملی کو سنبھال سکیں اور اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرسکیں۔اس کے علاوہ لڑکی کونڈر ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے شوہر کی چیزوں کے لئے آواز اٹھا سکے۔

بچیوں کی تعلیم بلاشبہ انھیں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی اور ان میں خود اعتمادی اور اپنے حقوق کا شعور پیدا کرتی ہے۔ لیکن ہماری ستم ظریفی ہے کہ ملک میں خواتین کی خواندگی کی شرح ہانپتے کانپتے ہوئے ابھی صرف 49 فیصد تک پہنچ پائی ہے یعنی آج بھی ملک کی 10 سال اور اس سے زائد عمر کی آدھی سے زائد خواتین ان پڑھ ہیں۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تو صورت حال اور بھی زیادہ مایوس کن ہے ۔ بلوچستان کی تین چوتھائی اور کے پی کے کی دو تہائی خواتین لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں۔

کئی ممالک میں بیوہ پن کو بد نامی کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔اور کچھ میں توانہیں جادوگری کے ساتھ بھی منسلک کیا جا تا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تنزانیہ میں سینکڑوں عمر رسیدہ خواتین جن کی اکثریت بیوائوں پر مشتمل تھی ان کو جادوگری کے الزامات کے باعث قتل کیا جا چکا ہے۔

بیوائوں کو کبھی کبھار ان کے گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اور جسمانی طور پر اُن کی تذلیل کی جاتی ہے اور کچھ تو اپنے ہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل بھی ہوجاتی ہیں۔ چونکہ کئی ممالک میں خواتین کی سماجی حیثیت اپنے شوہر کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ اور جب شوہر فوت ہوجائے تو معاشرہ میںخاتون کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔اور اُسے وہ رتبہ دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اپنے مرحوم شوہر کے خاندان کے کسی مرد کے ساتھ بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی عقدِ ثانی کرنا پڑتا ہے۔ یا اُس کے لئے حالات ایسے کر دیئے جاتے ہیں کہ اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی شوہر کی فیملی میں ہی دوسری شادی کرنا پڑتی ہے۔

(ع) تعلیم یافتہ ہیں اور اُنکے مرحوم شوہر معاشی، سماجی اور سیاسی حوالوں سے ایک معتبر حوالہ تھے۔ عرصہ 20 سال سے بیوگی کی مشکلات کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ان کی کوئی اولاد نہیں اورشوہر ترکہ میں وسیع جائیداد چھوڑ کر گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے جائیداد کے حصول کے لئے بیوہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خاندان کے کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور اگر وہ انکار کرتی ہے تو اُسے قتل کر نے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔بیوہ کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ آخر کارجائیداد Surrender کردیتی ہیں اور جو حصہ مانگ لے اور قانونی طریقہ سے حاصل کرلے تو پھر اُس کی جان کی کوئی سیکورٹی نہیں رہتی۔

شوہر کی تجہیز و تدفین اور سوگ کی روایتی رسومات میں بیوائوں کو ذلت آمیز طریقے سے شامل کرنے کا رجحان دنیا کے کچھ ممالک میں آج بھی پایا جاتا ہے۔ جو کہ نقصان دہ اور اُن کی زندگی کے لئے خطرناک بھی ہو سکتی ہیں۔ کہیں بیوہ کو اُس کے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا ہے۔کہیں اُنھیں وہ پانی پینے پرمجبور کیا جاتا ہے جس سے ان کے خاوند کی لاش کو دھویا گیا ہوتا ہے۔ اور سوگ کی باعث صورتوں میں ان کے سرکے بال مونڈ دیئے جاتے ہیں۔ اُن کے میل ملاپ کو نہایت محدود کردیا جاتاہے ۔ اُن کی خوراک کم اور مخصوص کر دی جاتی ہے ۔

لباس اور اُس کے رنگ بھی مخصوص کر دیا جاتا ہے ۔ اس طرح کے مظالم اکثر ثقافتوں میں سماجی اور مذہبی طور پر جائز سمجھے جاتے ہیں۔لیکن اسلام کی تعلیمات بیوہ اور یتیم کے حقوق کی مکمل پاسداری کرتی ہیں۔ علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستہ پروفیسر اویس سرور کا اس حوالے سے کہنا ہے ۔ کہ اسلام سے قبل بیوہ عورتوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ بیوہ کو مالِ وراثت سمجھا جاتا تھا۔ بعض مذاہب میں اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا تھا۔اس کو شادی کی اجازت نہ تھی۔ اسے نحوست کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

اسلام نے ان ظالمانہ رسموں کو ختم کیا اور بیوہ عورتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صَلَّی اﷲ ُعلیہ وآلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے۔ بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے۔اور رات کو قیام کرتا ہے۔ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔میں اس شخص کی نماز ودعا کو قبول کرتا ہوں جو میری عظمت کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے۔

دن کو میرے ذکر میں گزارتا ہے اور بیواؤں اورمسافروں پر رحم کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کے لیے بیوہ عورتوں کے احترام کی جو مثالیں قائم فرمائی ہیں۔ ان میں یہ بھی ہے کہ آپ کے نکاح میں آنے والی خواتین جو کہ امت کی مائیں ہیں۔ ان میں اکثر بیوہ تھیں۔ آپ نے نہ صرف ان سے نکاح فرمایا بلکہ ان کے ساتھ حسنِ معاشرت اور حسن سلوک کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں۔ ان بیوہ عورتوں کو پوری امت کی مائیں قرار دیا گیا اور قرآن مجید میں ان کے فضائل بیان کیے گئے۔ انسانی تاریخ کا کوئی دستور، نظام اور مذہب بیوہ عورتوں سے حسن سلوک کی ایسی مثالیں پیش نہیں کرسکتا۔

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے کہ کسی بیوہ یا مسکین کے ساتھ چل کر جائیں اور ان کی ضرورت پوری کردیں۔ پروفیسر اویس سرور کا کہنا ہے کہ اسلام نے بیوہ عورتوں کے لیے کئی حقوق مقرر کیے ہیں۔

مثلاًبیوہ سے متعلق نحوست کے تصور کو ختم کیا گیا اور ہر معاملے کو انسان کی تقدیر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔مرحوم خاوند کی میراث میں بیوہ کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔بیوہ کی عدت کی مدت کو دائمی سوگ کے بجائے چار ماہ دس دن تک محدود رکھا گیا ہے ۔ اسے شادی کرنے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔بیوہ عورتوں کو وارثوں کے بے جا جبر سے آزاد کیا گیا ہے۔بیوہ کا مال ہتھیانا سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔بیوہ کی کفالت ریاست اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

ملک میں بیوائوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے (ص) کے نزدیک ایک ایسے ادارہ کی ضرورت ہے جو بیوہ خاتون کو ہنر سکھانے اور اُن کے لئے کام کے مواقع مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی عزیز واقارب بیوہ کی جائیداد پر قابض ہیں یا اُن کا حق اُنھیںنہیں دے رہے تو فوری اور مفت مدد فراہم کرے اور بیوہ خاتون کو مکمل سیکورٹی دے۔ (و) کسی ایسے نظام کی متمنی ہیں جس کے تحت بیوگی کے فوراً بعد بیوہ خاتون کوجائیداد میں اُس کا حصہ مل جائے اور اس حوالے سے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بیوہ کو اُس کا حق واقعی مل گیا ہے اور اُس پر کوئی دبائو تو نہیں۔اس کے علاوہ اگر کوئی بیوہ شادی نہیں کرنا چاہتی تو اُس کی معاشی طور پر اتنی مدد کی جائے کے وہ کسی سے مانگے نہ۔ (ع) کا کہنا ہے کہ بیوہ خواتین کی جائیداد کے کیسز کو فوری طور پر نمٹایا جائے۔ اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔اس حوالے سے سخت قوانین بنائے جائیں۔

بیوہ خواتین کو صحت کی مناسب سہولیات تک رسائی، تعلیم، موزوں اور محفوظ روزگار، فیصلہ سازی اور عمومی زندگی کے معمولات میں مکمل شرکت ، تشدد و بد سلوکی سے پاک زندگی اور شوہر کی موت کے غم کے بعد ایک محفوظ زندگی کی تعمیر کے مواقع فراہم کرکے انھیں بااختیار بنانے سے نسلوں تک منتقل ہونے والی غربت اور محرومیوںکو دور کیا جا سکتا ہے۔ اور یہی بیوہ خواتین کی آرزو بھی ہے اور اُن کاحق بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔