کریش 1988، تیس سال بعد بھی معمہ

اصغر عبداللہ  ہفتہ 26 اگست 2017
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

17 اگست 1988ء کے فضائی سانحہ کو جس میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان سمیت پاک فوج کی اعلیٰ ترین قیادت آن واحد میں لقمہ اجل بن گئی، آج قریب قریب تیس برس ہو چکے ہیں۔ اگست 2013ء میں، میں نے ایکسپریس نیوز کے لیے اس سانحہ پر ’’دی کریش یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔میں جنرل (ر) خواجہ ضیاالدین سے بھی ملا۔ وہ بریگیڈئر تھے اور جنرل ضیاء کے نئے ملٹری سیکریٹری بن گئے تھے۔ 17 اگست 1988 ء پر جو پہلی تحقیقاتی رپورٹ تیار ہوئی، اس کے بارے میں ان کی معلومات براہ راست ہیں۔

دوران گفتگو، جنرل ( ر ) خواجہ ضیاالدین نے ایک بڑی عجیب بات بتائی۔ کہنے لگے، سی 130 ہرکولیس طیارہ محفوظ ترین جہاز سمجھا جاتا تھا۔ مگر جنرل ضیاالحق کے  زیراستعمال جہاز بہت پرانے ہوچکے تھے۔حقیقتاً 17 اگست 1988 ء کے سانحہ کے آگے پیچھے عالمی حالات وواقعات کا جو ایک طویل سلسلہ ہے، وہ بجائے خود پیچھے چھپے کرداروں  کو بے نقاب کر دیتا ہے۔مثلاً اوجڑی کیمپ اور جونیجو حکومت کی برطرفی کے فوراً بعد جون 1988ء میں سینئر وزیر محمداسلم خان خٹک نے جنرل ضیاالحق کو یہ اطلاع بہم پہنچا دی تھی کہ ان کی زندگی سخت خطرے میں ہے۔

ان کے الفاظ تھے، خدا کے لیے اپنی سیکیورٹی پر کوئی کمپرومائز نہ کریں۔ دراصل کچھ ہی گھنٹے پہلے ان کو افغانستان کے اندر سے انتہائی باوثوق ذرایع سے اطلاع ملی تھی کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی  ’واد‘ کا ایک اسپیشل یونٹ، جس کو ’کے جی بی‘ کی معاونت بھی حاصل ہے، کو جن لیڈروں کی ہٹ لسٹ دے کر پاکستان میں داخل کیا جا رہا ہے، ان میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کے نام سرفہرست ہیں۔ اس سے پہلے مئی میں  سوویت یونین کی طرف سے جنرل ضیاالحق کو بالواسطہ طورپر مجاہدین کی امداد بند کرنے کے لیے کہا گیا اور ساتھ ہی دھمکی دی گئی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ جنرل ضیاالحق کا جواب تھا، بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔

لہٰذا اس طرح کی دھمکیوں سے مجھے مرعوب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دسمبر 1989ء میں ریڈرزڈائجسٹ نے فوجی امور کے ماہر John Barronکی ایک تحقیقی رپورٹ’’کیا جنرل ضیاالحق کو قتل کیا گیا‘‘ کے عنوان سے شایع کی، جس میں 17 اگست کے سانحہ کے حوالہ سے پہلی بار کچھ اہم نکات اٹھائے گئے۔ مثلاً یہ کہ بہاولپور میں ٹینکوں کی جس نمایش کو دیکھنے کے لیے جنرل ضیاالحق گئے یا ان کو اس کے لیے آمادہ کیا گیا، اس کے لیے ان کا جانا ضروری نہیں تھااور جنرل اختر عبدالرحمان تو پہلے اس میں جاہی نہیں رہے تھے۔ مگر حیران کن طور پر دونوںکو ایک بالکل ایک غیر اہم نمایش دیکھنے پر راضی کر لیا گیا۔

سانحہ کی جو  ابتدائی رپورٹ پاکستانی اور امریکی ائرفورس کے انکوائری بورڈ نے تیار کی، اس میں جہاز کی اندرونی خرابی یا بیرونی حملے  کے امکان کو بالکل مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ  most probabaly was caused by a criminal act or sabotage .  یعنی بادی النظر میں یہ حادثہ  کے بجائے سبوتاژ کی کاروائی معلوم ہوتی ہے۔ انکوائری بورڈ نے مزید تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی سفارش بھی کی۔ جائے وقوعہ پر کیمیائی ماہرین کو جو مواد ملا، اس کا تجزیہ کرنے کے بعدانھوں نے جو رپورٹ دی، وہ یہ تھی کہ A chemical agent may well have been used to cause incapacitation of the flight crew . ، یعنی اغلب یہ ہے کہ جہاز کا عملے کو کسی کیمیاوی عمل سے بے ہوش کر دیا گیا، جس کی  وجہ سے جہاز پر اس کا فضائی عملہ اپنا کنٹرول کھو چکا تھا۔ مختصر یہ کہ پاکستانی اور امریکی ائرفورس کی پہلی انکوائری رپورٹ، جو 365 صفحات پر مشتمل تھی، جہاز میں کسی مکینیکل خرابی کے امکان کو یکسر مستردکردیا گیا۔یہ بات بھی عجیب وغریب تھی کہ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی حادثہ میں ہلاکت کے باوجود امریکی ایف بی آئی نے 17 اگست کے حادثہ میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ بلکہ بہت بعد میں جب وہ آئی بھی، تب بھی اپنی پیشہ ورانہ شہرت کے برخلاف ایک گول مول رپورٹ دے کر خاموشی سے واپس چلی گئی۔

17 اگست کے سانحہ کے بارے میں ان’’سازشی کہانیوں‘‘ کو ایک لمحے کے لیے فراموش کر دیا جائے اور تاریخ و سیاست کے ایک طالب علم کے طور پراس سانحہ پر غورکیا جائے توبھی یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے اواخر میں جب افغانستان سے سوویت یونین کا انخلا ہو رہا تھا اور امریکا، سوویت یونین اور ان کے اتحادی اس خطہ کے لیے نیا منظر نامہ لکھ رہے تھے، تو اس میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ بھارت اور افغانستان کی ایجنسیاں پہلے ہی انگاروں پر لوٹ رہی تھیں۔ ’را ‘سمجھتی تھی، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی کامیابی سے شہ پا کر مقبوضہ کشمیر میں بھی الحاق پاکستان کی تحریک میں تیزی آگئی ہے۔’را‘ کے حوالہ سے یہ بات بروس رائیڈل نے اپنی کتاب … میں بھی لکھی ہے۔ یوں ایک ہی وقت میں پاکستان کے خلاف کے جی بی، سی آئی اے، خاد اور’را‘ ایک صفحہ پر آ چکی تھیں۔ اندرونی اور بیرونی سازش کاروں کو پاکستان کی فوجی قیادت سے بدلہ چکانے کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا۔

عالمی بساط سیاست پر ایک دوسرے کے حریف ایک دوسرے کے خلاف کھلی اور خفیہ ہر طرح کی کارروائیاں کرتے ہیں، مگر زندہ قومیں اس طرح کی کاروائیوں کے پس  پردہ کرداروں کو بہرصورت بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ بدنصیبی بحیثیت قوم شایدہمارے نصیب میں ہی لکھی تھی کہ کریش 1988ء جس میں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف سمیت فوج کے دودرجن اعلی  فوجی افسر شہید ہوگئے، آج تیس سال بعد بھی قوم کو معلوم نہیں کہ اس کریش کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ کارفرما تھے انااللہ وانا الیہ راجعون ۔ شاعر نے کہا تھا ،

نہ دست وناخن قاتل، نہ آستیں پہ نشاں

نہ سرخی لب خنجر، نہ رنگ نوک سناں

کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔