چارلی چیپلن کے بعد 20ویں صدی کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار ’جیری لیوس‘

سید بابر علی  اتوار 27 اگست 2017
جیری لیوس نہ صرف ایک بہترین اداکار بل کہ نہایت حساس طبیعت کے مالک بھی تھے۔ فوٹو : فائل

جیری لیوس نہ صرف ایک بہترین اداکار بل کہ نہایت حساس طبیعت کے مالک بھی تھے۔ فوٹو : فائل

اس کا نام کام یابی کی ضمانت تھا۔ اس کے ایک اشارے پر لوگ دولت کے انبار کھڑے کر دیتے تھے،  دنیا کے بڑے بڑے فلم ساز ادارے اس پر کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اس کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں کر چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا تھا۔ امریکی صدر جس سے دوستی کا دم بھرتا تھا اور وہ دن رات انسانیت کے لیے لوگوں کی خوشی کے لیے کام کرتا رہتا۔ شاید اس کی زندگی کا مقصد ہی خوشیاں بکھیرنے تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا لوگوں کو مسکرانے پر مجبور کرتا رہا۔

چارلی چیپلن کے بعد 20ویں صدی کے سب سے بڑے مزاحیہ اداکار جیری لیوس نے سولہ مارچ 1926ء کو نیوجرسی میں جنم لیا۔ والدین فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ تھے۔ والد ڈینیئل لیوی ٹیک تھیٹر پر کمپیئرنگ اور مزاحیہ اداکاری کرتے تھے جب کہ والدہ ریچل لیوی ٹیک پیانو نواز کی  حیثیت سے ریڈیو سے وابستہ تھیں۔ جیری لیوس کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی جس میں پرفارمنگ آرٹ کو بہت اہمیت حاصل تھی اور اس کے گھر میں فنونِ لطیفہ سے متعلق گفتگو اور سرگرمیاں بھی جاری رہتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ پانچ سال کی عمر میں لیوس نے اپنے والدین کے ساتھ تھیٹر پر پرفارم کرنا شروع کردیا تھا۔

ابتدا میں جیری لیوس نے اپنے حقیقی نام جوئے لیوس کے ساتھ کام کیا، لیکن اُس وقت کے مشہور مزاحیہ اداکار جوئے ای لیوس اور ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن  جوئے لوئس سے مماثلت کی بنا پر اس نے اپنا نام جیری لیوس رکھ لیا اور بعد کے برسوں میں یہی نام اس کی پہچان بنا۔ پندرہ سال کی عمر میں لیوس نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ اداکاری پر مرکوز کردی۔

یہ نوجوان فن کار اب ’ ریکارڈ ایکٹ‘ کے نام سے تھیٹر پروگرام پیش کرنے لگا تھا۔ وہ اس پروگرام میں مشہور گانوں پر دل چسپ حرکات و سکنات سے ناظرین کومحظوظ کرتا اور داد وصول کرتا۔ اسی عرصے میں لیوس نے اپنے والد کے ایک دوست اور کامیڈین میکس کول مین کے مشورے پر نیویارک کے ایک نائٹ کلب میں پرفارمینس دینا شروع کر دی۔

یہ ایک نیا اور مختلف تجربہ تھا جس سے لیوس میں خاصا اعتماد پیدا ہوا اور اس کی صلاحیتوں میں نکھار آیا۔ اسی کلب میں اس کی ملاقات ایک ابھرتے ہوئے نوجوان گلوکار ڈین مارٹن سے ہوئی اور جلد وہ دونوں گہرے دوست بن گئے۔ اس دوستی نے فن کے میدان میں کام یابی اور شہرت کا ایک ایسا سفر شروع کیا جو یادگار بن گیا۔ کلب 500 سے شروع ہونے والی ان دو عظیم فن کاروں کی جوڑی نے امریکا کی شوبز صنعت میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ان کے شو کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ان کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

1949میں اس جوڑی کو فلم’مائی فرینڈ ارما‘ میں کام کی پیش کش ہوئی، فلم میں جیری کے کردار Seymour کو ناظرین کی جانب سے بے حد پسند کیا گیا۔ اس فلم نے جیری کے کیریر میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں اُس وقت کے مشہور ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں مرکزی کردار آفر ہونے لگے۔ لیوس اور مارٹن نے اپنی توجہ فلمیں بنانے پر مرکوز کردی اور اگلے دس سال کے دوران انہوں نے درجن سے زائد فلمیں بنائیں۔ جن میں ’مائی فرینڈ ارما گوز ویسٹ‘، ’دی اسٹوج‘، ’ ہالی وڈ اور بَسٹ‘ بزنس کے اعتبار سے بہت کام یاب رہیں۔

ان کام یابیوں کے بعد جیری لیوس اور مارٹن کے راستے الگ ہو گئے اور اب جیری لیوس نے تنہا اپنی پہچان بنانا شروع کی۔ وہ ایک بہترین اداکار اور ہدایت کار کے طور پر سامنے آئے اور 1957میں انہوں نے پہلی فلم ’The Delicate Delinquent‘ بنائی۔ یہ ایک شان دار مووی ثابت ہوئی اور لیوس راتوں رات اسٹار بن گئے۔  فلم ساز ادارے پیراماؤنٹ پکچرز نے جیری سے سات سال کے لیے ایک معاہدہ کیا، جس کی رُو سے  لیوس کو ایک کروڑ ڈالر اور 14 فلموں کے باکس آفس پر ہونے والے منافع میں سے ساٹھ فی صد کا شراکت دار بنایا۔ یہ معاہدہ اس وقت دنیا کی فلمی صنعت میں کسی اداکار کے ساتھ ہونے والا سب سے پُرکشش معاہدہ تھا۔ 1960 میں جیری نے امریکی فلم انڈسٹری کو ایک اور کام یاب فلم ’دی بیل بوائے‘ دی، اس فلم کی کہانی، ہدایت کاری اور پروڈکشن کے ساتھ ساتھ مرکزی کردار بھی جیری لوئس نے ادا کیا۔

دی بیل بوائے نے جیری لیوس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔ یکے بعد دیگرے ان کی مزید فلموں’دی نٹی پروفیسر‘، ’ تھری آن کاؤچ‘،’دی ڈے دی کلاؤن کرائیڈ‘،’ دی کنگ آف کامیڈی‘،’دی لیڈیز مین‘،’سنڈر فیلا‘،’دی ارینڈ بوائے‘ سامنے آئیں جن کی شہرت دنیا بھر کے فلمی شائقین تک پہنچی اور وہ بھی ان کے مداح ہو گئے۔ دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ نے انہیں چارلی چپلین کے بعد 20ویں صدی کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار قرار دیا۔ سی این این نے ایک انٹرویو میں انہیں ’تنہا لڑکے‘ کے نام یاد کیا۔

ہر مشہور شخصیت کی طرح جیری لیوس کو بھی ان کے چند فیصلوں اور تخلیقی کاموں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی ان کے کام کرنے کے طریقے کار پر انگلی اٹھائی گئی تو کبھی ان کے عطیات جمع کرنے کو شہرت کے حصول کا  ذریعہ قرار دیا گیا۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ زندگی بھر خوشیا ں اور قہقہے تقسیم کرتے رہے۔ جیری لیوس ایک محب وطن، انسان دوست اداکار کی حیثیت سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ رواں سال بیس اگست کو مختصر علالت کے بعد یہ ’’تنہا لڑکا‘‘ دنیا بھر میں اپنے کروڑوں پرستاروں کو ’’تنہا‘‘ کرگیا۔

 ٭ایک درد مند انسان
جیری لیوس نہ صرف ایک بہترین اداکار بل کہ نہایت حساس طبیعت کے مالک بھی تھے اور لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ جیری 1952میں امریکا کی مسکولر ڈسٹرافی ایسوسی ایشن( ایم ڈی اے ) کا حصہ بنے۔ یہ ایسوسی ایشن ایک عضلاتی بیماری مسکولر ڈسٹرافی ( پٹھوں کی ایک بیماری جس کے نتیجے میں انسانی ڈھانچے کے عضلات بتدریج کم زور ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور آخر کار مریض حرکت کرنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے)  کے علاج کے لیے عطیات جمع کر رہی تھی۔ ابتدا میں لیوس نے عطیات جمع کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے۔

1966میں عطیات جمع کرنے کے لیے ’ جیری لیوس ایم ڈی اے ٹیلی تھون‘ کے نام سے ایک لائیو پروگرام کا آغاز کیا۔ امریکا میں ستمبر کے ہر پہلے پیر کو منائے جانے والے یوم مزدور کے موقع پر اس پروگرام کو نشر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جیری لیوس نے چوالیس سال (1966تا 2010) تک اس شو کی میزبانی کی۔ انہوں نے اس شو کے ذریعے دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم جمع کی۔ تاہم اگست 2011 کو کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر جیری لیوس کو ایم ڈی اے ٹیلی تھون کی میزبانی سے ہٹا دیا گیا۔ 2016 میں جیری نے ایک ویڈیو بیان میں ایم ڈی اے کے ساتھ اپنی پچاس سال سے زائد طویل رفاقت کے خاتمے پر لب کشائی کی ۔

جیری لیوس کی زندگی کے چند گوشے
٭ جیری لیوس کی ایک شناخت خوش لباسی بھیتھی۔ وہ اپنے کپڑوں کو ڈرائی کلین کرانے کے بجائے کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔ جیری لیوس دن میں متعدد بار نئی سفید جرابیں پہنتے تھے اور پرانی جرابیں ضرورت مندوں کو دے دیتے۔
٭ 1977میں انہیں عضلاتی بیماری muscular dystrophy کے خلاف عطیات جمع کرنے پر نوبیل انعام کے لیے نام زد کیا گیا۔
٭ جیری لیوس 1950تا 1956کے عرصے میں دنیا بھر کے باکس آفس پر سب سے زیادہ کمائی کرنے والے اداکار رہے۔
٭ وہ دنیا کے پہلے فلم ساز ہیں جنہوں نے لوکیشن پر ویڈیو اسسٹ ڈیوائس استعمال کی۔
٭انہوں نے ہمیشہ Cartierکی بنی چھوٹے ڈائل کی گھڑیاں پہنی جو عموماً خواتین کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اور یہ گھڑیاں اُن کی تمام فلموں میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
٭ان کا شمار امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے نہایت قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔
٭جیری لیوس کو شیروں سے بہت ڈر لگتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ 1961میں فلم’ دی لیڈیزمین‘ کی عکس بندی کے دوران افریقی شیر زیمبا کے ساتھ کام کرتے ہوئے پستول ساتھ رکھتے تھے۔
اور جب زیمبا کے ٹرینر اور مالک رالف یلفر نے جیری کے گن ساتھ رکھنے والی بات سیٹ پر دوسروں کو بتائی تو لیوس نے انہیں فلم سے سیٹ سے باہر نکلوا کر چھے ماہ تک ان کے اسٹوڈیو میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔
٭ وہ اداکار، گلوکار، ہدایت کار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے استاد بھی تھے، اور تمام تر مصروفیات باوجود یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں فلم نگاری پر لیکچرز دیتے تھے۔دس جماعت پاس ہونے کے باوجود انہوں نے کئی سال تک یونیورسٹی آف کیلے فورنیا میں فلم سازی کے کورسز پڑھائے۔ کلا س رومز میں دیے گئے ان کے لیکچرز کو1971میں ’دی ٹوٹل فلم میکر‘ کے عنوان سے کتابی شکل دی گئی ۔ یہ کتاب آج بھی نصاب کا حصہ ہے۔

جیری لیوس کو ملنے والے اعزازات
1952: فوٹو پلے ایوارڈ
1952:بہترین مزاحیہ اداکار کے لیے پرائم ٹائم ایمی ایوارڈ میں نام زدگی
1954:بہترین معاون اداکاری پر گولڈن ایپل ایوارڈ
1965:گولڈن لاریل، اسپیشل ایوارڈ
1978:جیفر سن ایوارڈ
1983:برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈ میں فلم دی کنگ آف کامیڈی میں بہترین معاون اداکار کے زمرے میں نام زدگی
1984: Ordre national de la Légion d’honneurکیویلیئر ایوارڈ، فرانس
1997:لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ، امریکی کامیڈی ایوارڈز
1999:گولڈن لائن اعزازی ایوارڈ
2004:لاس ایلجلس فلم کریٹکس ایسوسی کی جانب سے کیریئر ایچیومنٹ ایوارڈ
2005:پرائم ٹائم ایمی گورنرز ایوارڈ
2005:گولڈن کمیرہ اعزازی ایوارڈ
2006:سیٹلائیٹ ایوارڈ
2006: Ordre national de la Légion d’honneur، کمانڈر ایوارڈ، فرانس
2009:نیو جرسی ہال آف فیم
2009:جین ہرشولٹ ہیومینٹیرین ایوارڈ
2010:آنریری ڈاکٹریٹ آف ہیومن لیٹرز
2011:ایلس آئی لینڈ میڈل آف آنر
2013آنریری ممبر آف دی آرڈر آف آسٹریلیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔