جوانی کی شفق سے کہنہ مشق ایلف شفک تک کا سفر

آصف مسعود  جمعـء 24 نومبر 2017
ایلف شفک اب تک پندرہ کتابیں تصنیف کرچکی ہیں جبکہ ان کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایلف شفک اب تک پندرہ کتابیں تصنیف کرچکی ہیں جبکہ ان کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وہ یونیورسٹی کی ایک حسین و دلفریب اور باکمال طالبہ، اور محبت کی دنیا کی باشندہ تھی۔ اچھے سبھاؤ والی، چہرے پہ شفق کی لالی بھی تھی۔ تصورات کے بازوؤں میں اس کا بسیرا تھا۔ اس کی عمر محض انیس بیس سال تھی جب ایک دن اس کی پلکوں سے چَھن کر ایک نگاہ اپنے سے کئی سال بڑے ایک جہاندیدہ شخص پر جا پڑی اور وہ اس کے سحر میں مبتلا ہوگئی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور مستقبل کے سہانے خوابوں میں گم ہوگئی۔ شاید اسے بھی وہم تھا کہ محبت زندگی کو سیراب کرتی ہے۔

وہ ایک نکھرا ہوا دن تھا، زمین کا چہرہ آسمان کی طرح روشن تھا، صبح کا وقت آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا، سرد ہوائیں درختوں کو چھو کر آرہی تھیں۔ پہاڑوں سے درخت، بیلیں اور پھول جھک کر جھیل میں اپنا عکس تلاش کررہے تھے۔ پرندے جھیل کو صبح کا سلام کررہے تھے۔ کوے باغ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ سڑک پانی کے رخساروں کو چھو کر گزر رہی تھی۔ چہرے خوشی سے گلنار ہو رہے تھے۔ دل پسلیوں سے سر پٹخ رہا تھا جب اس نے پڑھائی ترک کرنے اور یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اس شخص سے شادی کی اور باغِ محبت کے پھول چننےاس کے ساتھ فرانس کے شہر اسٹراسبرگ آگئی، جہاں سے اس کے خاوند کو پی ایچ ڈی کرنا تھی۔

پھول کھلا تو خوشبو کو رہائی ملی۔ یہاں اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور ساتھ ہی ایک اور امکان نے سر اٹھایا۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ زچگی کے کچھ ہی عرصے بعد اسے طلاق ہوگئی اور وہ اپنی شیرخوار بیٹی کو اپنے نازک بازوؤں میں تھامے واپس انقرہ اپنی ماں کے پاس پہنچ گئی۔

ہم زندگی میں جو بھی فیصلہ ہنستے یا روتے ہوئے کرتے ہیں وہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔ باپ پہلے ہی اللہ کو پیارا ہوچکا تھا اور ماں اللہ کے بعد واحد سہارا تھی۔ لیکن کمال ہمت و حوصلے والی بہادر ماں، جو ان دونوں کی ذمہ داری سنبھالنے کےلیے تیار تھی۔

جس رفتار سے انسانی تعلقات آگے بڑھتے ہیں، پھر اتنی ہی تیزی سے غارت ہوجاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں؟ کیا محبت صرف پھولوں، خوشبوؤں اور خوشیوں کا نام نہیں؟ شاید ایسا نہیں۔ محبت کے نازک موضوع پر عبور حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہوا کو مٹھی میں پکڑنے کی کوشش کرے۔ اس صورتحال کو الفاظ کا روپ دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی مصور کےلیے تصویر کے ساتھ درد کھینچنا:

اے مصور!
تجھے استاد میں مانوں گا،
درد بھی کھینچ، میری تصویر کے ساتھ

بہت جلد رشتہ داروں اور آس پاس کے لوگوں نےاس کی ماں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ فوری طور پر بیٹی کی دوسری شادی کردی جائے تاکہ خاندانی عزت اور معاشرتی اقدار کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ مگر عظیم ماں جانتی تھی کہ اقدار اور اصولوں پر قائم رہنا انتہائی ضروری ہے، لیکن انہیں دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرنا پرلے درجے کی نالائقی اور اخلاق کے منافی ہے۔

سوچنے اور تفکر کرنے کی مہلت نہ تھی۔ ویسے بھی مشکلات میں گھرا انسان تیز سوچتا اور تیز ترین دوڑتا ہے۔ لہٰذا بہادر ماں نے کسی کا بھی دباؤ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بیٹی کو دوبارہ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے بھیج دیا اور اس کی ننھی پری کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اس نے ہر قسم کی افواہوں کو پھیلنے دیا۔ خام ذہنوں میں لاوا پکتا رہا۔ لوگوں کی زبانوں سے نامناسب الفاظ جاری ہوتے رہے۔ کچے کان والے انہیں سنتے رہے اور افواہوں کو مزید پھیلا کر مزے لوٹتے رہے۔ اسے شکست اور صدمے سے دوچار کرنے کی سعی لاحاصل کرتے رہے۔

ان چغل خوروں اور غیبت کرنے والوں میں سے کسی نے بے یار و مددگار اور عزلت گزیدہ کا دکھ سمجھنے کی کوشش نہیں کی؛ بلکہ کچھ اچھے اور سمجھ دار لوگ بھی اپنے آپ کو اس آگ کی تپش سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ لوگ بے خبر تھے۔ وہ فقیہہ تھی لیکن فقیر بنی رہی۔ جنون اور تنہائی سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ یہ باتیں اگرچہ دل شکن تھیں مگر وہ جانتی تھی یہ امتحان کا حصہ ہیں۔ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے انسان کو صبر ہی کرنا چاہیے۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، بدل جاتا اور بہت جلد بدل جاتا ہے۔ غم و اندوہ کے بعد ایک نیا موسم نمودار ہوتا ہے۔

اور اس کی بیٹی! وہ ایک انمول ہیرا تھی۔ اس نے ماں کی امیدوں اور آرزوؤں کا قلعہ تباہ برباد نہ ہونے دیا بلکہ ان کا پاس رکھتے ہوئے گریجویشن میں شاندار کامیابی حاصل کی جس کے بعد اسے ترکی کی سفارتی سروس میں شامل کرلیا گیا۔ یوں وہ زندگی کے دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوئی اورپھر اپنی بیٹی کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔

بعض اوقات بہت سی چیزیں واضح نہیں ہوتیں مگر خدا چاہتا ہے کہ ہم ہر چیز صاف طور پر دیکھ لیں۔ اس کی زندگی میں دنیا بھر کی خوبصورتی لوٹ آئی۔ اس نے اب نہایت سنجیدہ رویہ اختیار کرلیا۔ شوخی و شرارت کی جگہ متانت و سنجیدگی نے سنبھال لی۔ اس کے دراز گیسو جو کبھی جھالر کی طرح اس کی سیاہ آنکھوں پر پڑے رہتے تھے، اب انہوں نے سنبھل کر سر کے پیچھے گردن پر ڈیرے جمالیے جن کی وجہ سے ان آنکھوں نے بہت جلد زندگی کے بہت سے رخ اور رنگ دیکھ لیے تھے۔ اب وہ بغیر کسی رکاوٹ کے مزید جدوجہد کرنا چاہتی تھی۔ اب اسے کسی کو کھو دینے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ لطیف و گداز ہوا کی مانند نئے امکانات تلاش کرنا چاہتی تھی۔

تجھ سے گلہ ہے اور نہایت ادب سے ہے۔ دوسروں پر الزام لگانا انسان کی فطرت ثانیہ ہے۔ مگر اس نے کسی کو الزام سے دوچار نہیں کیا۔ اس نے کبھی یہ الفاظ اپنے ہونٹوں کی شاہراہ سے نہ گزرنے دیئے کہ کیا تمہیں وہ عہد و پیماں، وہ قول و قرار یاد ہے۔ نہ ہی اس نے یہ سوال اپنی زبان کی سرزمین پر اترنے دیا کہ وہ کہاں ہے جس کےلیے اس نے اپنا گھربار چھوڑا تھا۔ جو ہونا تھا، ہوچکا۔ اب آگے چل کر نئے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ شاید وہ آگاہ تھی کہ الزام لگانا نالائقی کی علامت ہے۔ انسان سے ناراضگی کیسی، جو میری ہی طرح محکوم و مجبور ہے۔ خدا کی مرضی میں کسی کو دخل نہیں۔

اصل کام ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ اس کا دل ٹوٹ جائے اور اس میں سوز و گداز پیدا ہو۔ کیونکہ گداز روح کے بغیر اچھی طرح خدا کا تصور کیا جا سکتا ہے نہ کائنات کا، نہ آدم کا، نہ اولادِ آدم کی ننھی خوشیوں کا۔ یوں اس نے زندگی میں کچھ اور ہی رنگ بھر لیے۔ اس کا نظریہ حیات و محبت بدل گیا۔

اب محبت کا رخ انسان اور خدمت کی طرف مڑ گیا۔ دل ہر قسم کے ڈر اور خوف سے پاک ہوگیا۔ اس نے زندگی بھر دوبارہ شادی نہیں کی۔ اس نے ایک نئی سچائی تلاش کرلی کہ سچ دلوں کو کشادہ کر دیتا ہے۔ وہ ایک نئی راہ پر چل کر دیکھنا چاہتی تھی کہ جہاں اس کمزور اور نازک، بالکل گلاب کی طرح، مگر لازوال ہمت والی کو ایک بلند پایہ مصنفہ کی پرورش کی ذمہ داری پورے دل و جان سے نبھانا تھی؛ دنیا جس کی راہ میں آنکھیں بچھانے کو تیار کھڑی تھی۔

یہ بیٹی اور مصنفہ کون تھی؟ یہ دورِحاضر کی ایک عظیم مصنفہ، کالم نگار اور پبلک اسپیکر ایلف شفک (Elif Şafak) ہے۔ اس کا تعلق ترکی سے ہے اور یہاں کی سب سے معروف خاتون لکھاری ہے۔ ایک لکھاری کے طور پر بالکل اپنے ملک ترکی کی طرح وہ مغرب اور مشرق کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔ یہ ترکی اور انگریزی زبانوں میں لکھتی ہے، لندن اور استنبول میں رہتی ہے۔ ہمارے وقت کے نہایت اہم سیاسی اور ذاتی موضوعات اس کا موضوعِ سخن ہیں۔ یہ اب تک پندرہ کتابیں لکھ چکی ہے جن میں سے دس ناول ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو سمیت دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ اس کی کتابوں کو دنیا بھر میں انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اسے دنیا کے بڑے بڑے اداروں اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز دینے کےلیے بلایا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت قابل اور انتہائی وسیع المطالعہ خاتون ہے۔

میں نے حال ہی میں اس کی ایک کتاب ’’عشق کے چالیس نرالے اصول‘‘ پڑھی۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور پروقار تحریر ہے۔ ایک حرف بھی سرنگوں نہیں۔

شفک 1971 میں فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں پیدا ہوئی جہاں اس کے فلسفی والد نوری بلجن پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کی پیدائش کے صرف ایک ہی سال بعد اس کی والدہ کو طلاق ہوگئی اور ماں بیٹی کو واپس انقرہ آنا پڑا، جہاں اس کی بہادر اور کمال کا حوصلہ رکھنے والی نانی ان دونوں کی ذمہ داری لینے کےلیے تیار تھی۔ حسب معمول اور ہر بچے کی طرح کچھ عرصہ وہ کھلونوں اور گڑیوں سے کھیلتی رہی اور پھر کتابوں کا بستہ اٹھائے اپنی جہاندیدہ نانی کی انگلی تھامے اسکول چلی گئی۔ اور پھر پوری زندگی کتابیں پڑھنے اور لکھنے کےلیے وقف کردی۔

آج اس کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اگرچہ پندرہ ہوچکی ہے لیکن یہ کام ابھی رکا نہیں بلکہ پورے زور و شور اور تندہی سے جاری ہے۔ اگر اسے اور اس کی کتابوں کو اس کی زندگی میں ہی یہ اعلیٰ مقام مل چکا ہے تو تاریخ یقیناً اسے وہ بلند مقام بھی عطا کرے گی جو وہ آج تک ایسے عظیم لوگوں کو دیتی آئی ہے۔ کیونکہ قدرت اور تاریخ کے اصول اٹل ہیں۔ یہ کسی ایک آدمی کی خاطر اپنے اصول اور فیصلے بدلا نہیں کرتیں۔

یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے شیکسپئر نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا:

’’نہ کوئی سنگ مرمر، نہ ہی شہزادوں کی سنہری یادگاریں، ان شعروں سے زیادہ دیرپا ہوں گی۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف مسعود

آصف مسعود

بلاگر کا تعلق چکوال سے ہے۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں انگریزی کے لیکچرار رہ چکے ہیں۔ پچھلے آٹھ سال سے قطر میں کام کر رہے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں اور شام کو کچھ کمیونٹی سروس بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی بچوں کو اردو اور انگریزی پڑھاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔