سرکاری اسکولوں کی دھماکوں سے تباہی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 9 مارچ 2013
عارضی اسکولوں کو گاؤں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں حصول تعلیم کے مراحل طے کر رہے ہیں۔  فوٹو : فائل

عارضی اسکولوں کو گاؤں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں حصول تعلیم کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پچھلے چھ سال کے دوران تیرہ سو سے زائد سرکاری اسکولوں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے آٹھ سو تعلیمی ادارے صوبے کے بندوبستی علاقے جب کہ پانچ سو فاٹا میں نشانہ بنائے گئے تاہم اب ان حملوں کا دائرہ صوبائی دارالحکومت پشاور تک بھی پھیل چکا ہے جہاں کچھ عرصے میں پچاس کے قریب سرکاری اسکول تباہ کیے گئے مگر ارباب اختیار کی جانب سے ان حملوں کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی نظر نہیں آئی اور نہ ہی تباہ شدہ اسکولوں کو دوبارہ بحال کرنے کا کوئی منصوبہ۔

عارضی اسکولوں کو گاؤں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں حصول تعلیم کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان کے مطابق وہ تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ وہ دو قسم کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں ایک وہ جو لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے نظام تعلیم کے تحت چلتے ہیں اور دوسرے وہ جو فورسز کے اہلکار مورچے کے طور پر طالبان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

وطن عزیز میں تعلیم کے شعبے کی حالت کو کسی بھی اعتبار سے قابل رشک قرار نہیں دیا جا سکتا حالانکہ ساٹھ اور ستر کے عشروں میں لاہور اور کراچی کے کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں یورپی ممالک کے طلبہ بھی داخلہ لیا کرتے تھے جب کہ مشرق وسطیٰ سے میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ کی تعداد بھی نمایاں ہوتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں مختلف شعبے اور ادارے ترقی کرتے ہیں‘ ہمارے یہاں بوجوہ انحطاط کا عمل معکوس طاری رہا اور اب تعلیم کے شعبے میں عجیب سی ہڑبونگ نظر آتی ہے۔ اوپر سے سرکاری اسکولوں پر دہشت گردی کے دھماکوں نے حالات اور زیادہ خراب کر دیئے ہیں۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے لازم ہے کہ ارباب حل و عقد اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور کوئی موثر حکمت عملی وضع کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔