- بلڈرز سریے کی بڑھتی قیمتوں پر دلبرداشتہ، خریداری نہ کرنے کا اعلان
- آرمی چیف کی امریکا دورے سے متعلق قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، آئی ایس پی آر
- عمران خان نااہلی کی درخواست قابل سماعت ہونے پر حتمی دلائل طلب
- شاداب کی شادی میں کپتان بابراعظم شریک نہ ہوئے! مگر کیوں؟
- پشاور دھماکے کے قصوروار وہ ہیں جو یہاں 10 سال حکومت کرتے رہے، مریم نواز
- ملکی سطح پر سونے کے نرخ میں بڑی کمی
- شاداب کی شادی میں کپتان بابراعظم شریک نہ ہوئے! مگر کیوں؟
- پنڈی میں حملوں کی منصوبہ بندی؛ ٹی ٹی پی کے دو انتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار
- آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پیٹرول ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ
- گلیڈی ایٹرز، یونائیٹڈ نے اچانک پریکٹس سیشنز منسوخ کردیئے
- بھارت میں باپ نے بچے کو جنم دیدیا
- چارلی ہیبڈو اسلامو فوبیا سے باز نہ آیا، زلزلے سے ہزاروں اموات کا مذاق بنا دیا
- شمالی وزیرستان میں فائرنگ سے پانچ افراد جاں بحق
- بھارت میں 14 فروری ’گائے کو گلے لگانے‘ کے دن کے طور پر منایا جائے گا
- عام انتخابات؛ مسائل کا حل عوامی فیصلے ہی سے ممکن ہے، چیف جسٹس
- ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے میں اموات 17 ہزار سے تجاوز کرگئیں
- وزیرخزانہ آئی ایم ایف مذاکرات میں پیشرفت، اصلاحات پر اتفاق ہوگیا
- پی ایس ایل8 کیلئے نئی ٹرافی کی رونمائی کردی گئی
- ترکیہ میں 68 گھنٹے بعد ملبے تلے دبے بچے کو زندہ نکال لیا گیا، ویڈیو وائرل
- پختونخوا ضمنی الیکشن؛ پی ٹی آئی نے مستعفی ارکان دوبارہ میدان میں اتار دیے
معیشت اور امن و امان کی زبوں حالی

حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاشی حکمت عملی ہو یا امن وامان قائم کرنے کی حکمت عملی دونوں میں کمی اور کوتاہی موجود تھی۔ فوٹو: فائل
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم از کم چھ ماہ کے لیے ہونے چاہئیں مگر اس وقت سرکاری خزانے کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس صرف 3 ماہ کی ضرورت کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کے لیے رجوع کرنا ہماری مجبوری ہو گی۔ وزیر خزانہ سلیم مانڈی والا نے کہا کہ اس حوالے سے صورتحال پریشان کن ضرور ہے مگر ہم اسے بحران نہیں کہہ سکتے۔
یعنی ایسی کوئی بحرانی کیفیت نہیں کہ مایوسی کا شکار ہو جائیں۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت قابل رشک نہیں ہے، بہرحال موجود حکومت نے تمام تر مشکلات کے باوجود حالات کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا۔جہاں تک زرعی ٹیوب ویلوںکے لیے بجلی کے فلیٹ ریٹ مقرر کرنے کی بات ہے تو اس حوالے سے وزیر خزانہ کی یہ بات درست ہے کہ اس فیصلے سے سبسڈی میں 15 ارب روپے اضافہ ہو گا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سے کسان کو فائدہ ہوگا اور ملک میں فی ایکڑ پیدوار میں اضافے کا امکان ہے۔
حکومت کئی اور مدوں میں بھی سبسڈی دے رہی ہے، اگر کسی معاملے میں زرعی شعبے کو فائدہ ہورہا ہے تو ایسا کیا جانا چاہیے اور حکومت کو اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے مالی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ادھر صدر مملکت آصف علی زرداری نے حیدر آباد میں موٹروے کے سیکشن ایم نائن کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ہمارے ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات نظر آ رہے ہیں، لہٰذا اگلی حکومت پھر پیپلز پارٹی کی ہو گی اور امن امان ہماری اولین ترجیح ہو گی۔
صدر نے کہا میں نے کراچی میں یہ واضح ہدایت کی ہے کہ سیکیورٹی اور صرف سیکیورٹی ہماری ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں ہو گا تو باقی تمام چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا کراچی سمیت سندھ بھر میں امن و امان کے قیام کو اولین ترجیح دی جائے۔ علاوہ ازیں صدر نے ٹھٹھہ کے کوہستانی علاقے جھمپیر میں بنائے گئے دراوٹ ڈیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’حکومت نے جامع توانائی پالیسی مرتب کی ہے جس کا مقصد بجلی کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔
اگرچہ حکومت کو توانائی کا شدید بحران ورثہ میں ملا تاہم اس بحران کے حل کے لیے بڑے اقدامات کیے۔ ‘‘صدر کے ارشادات خاصی حد تک درست ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو توانائی کا بحران ورثے میں ملا ہے لیکن کراچی میں امن وامان کی جو صورتحال ہے کم از کم یہ ورثے میں نہیں ملی۔ حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاشی حکمت عملی ہو یا امن وامان قائم کرنے کی حکمت عملی دونوں میں کمی اور کوتاہی موجود تھی۔ اگر حکومت خود احتسابی کے عمل سے گزرتی تو معیشت اور امن وامان دونوں اتنے خراب نہ ہوتے جتنے اب ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔