بھارت کا بابا رام رحیم

سعد اللہ جان برق  جمعـء 15 دسمبر 2017
barq@email.com

[email protected]

بھارت میں بابا رام رحیم کی کہانیاں تو سب نے سن رکھی ہیں لیکن یہ کسی کو بھی اندازہ نہیں کہ ابھی کتنے ایسے بابے  اور بھی ہیں جو تو ہمات اور مذہب کے نام پر  عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ اپنے ہاں بھی یہ دھندہ کچھ کم بیسٹ سیلر نہیں ہے،  بے شمار دکانیں  مارکیٹ میں طرح طرح کے مال سے سجی ہوئی ہیں جن میں  طرح طرح کے پراڈکٹ لائے جا رہے ہیں لیکن ابھی ہم اتنے بہادر نہیں ہیں اور اپنا سر  ابھی کاندھوں پر بوجھ نہیں بنا ہے اور نہ ہی ہم اپنے جسد خاکی کو کچلی ہوئی حالت میں دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اس لیے بات ۔۔’’بیٹی تم کو کہہ رہی ہوں لیکن سنا رہی ہوں بہو کو۔

بابا رام رحیم کی کہانی جب انڈیا کے چینلوں پر باتصویر لانچ ہوئی تو دنیا حیرت زدہ رہ گئی کہ مذہب اور توہمات کے نام پر کیا کیا ’’گل‘‘ بلکہ گل و گلزار کھلائے جا رہے ہیں۔ مذہب فروشی، اعتقاد فروشی اور توہمات فروشی کا دھندہ اپنے ہاں تو کچھ اور شکلوں یا جماعتوں یا تنظیموں کی شکل میں چل رہا ہے لیکن بھارت میں یہ اتنا زوروں پر ہے کہ آٹھ دس چینل ایسے ہیں جو کرائے پر دستیاب ہیں، ان چینلوں پر وقت بیچا اور خریدا جا رہا ہے۔

چنانچہ ان چینلوں پر بھانت بھانت کے ’’بابے‘‘ رشی منی اور تانترک لوگ وقت خرید کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں، طرح طرح کے لباسوں، ہیئت کذائیوں، ننگے ادھ ننگے بابا لوگ دیوتاؤں کے قصے سنا کر اپنا اپنا ’’دارو‘‘ بیچتے ہیں۔ ان باباؤں میں ایسی ایسی عجیب بلکہ مزاحیہ قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں کہ دیکھ کر ہی ہنسی آجاتی ہے اور پھر سن کر رونا آجاتا ہے کہ یہ انسان بھی کتنا احمق ہے کہ ایسی ایسی چیزوں کو اپنی عقیدت کا مرکز بنا لیتا ہے جن کی شکلیں دیکھ کر ہی ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ بابا کے اشغال بھی عجیب تھے۔

وہ ایک قطعہ اراضی پر کاشتکاری بھی کرتے تھے وہاں وہ جو سبزیاں اگاتے تھے ان کی قیمت ہیرے موتیوں سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ ایک ٹماٹر دو ہزار روپے کا ، ایک کدو پانچ ہزار روپے کا اور ایک مولی ہزار روپے کی ہوتی تھی اور لوگ مارے عقیدے کے پہلے ہی بکنگ کراتے تھے۔اس کہانی میں رومانس کا عنصر بھی بہت زیادہ تھا، ایک تو بابا کی اہم ترین اور خاص الخاص معتقد لڑکی ’’ہنی پریت‘‘ ہے جو اپنی جگہ خود ہی ایک فلم کے برابر کہانی رکھتی ہے۔ ہنی پریت ایک خوبصورت نوجوان لڑکی ہے جو بابا کی گرفتاری کے بعد غائب ہو گئی تھی لیکن مہینہ ڈیڑھ مہینہ کی کاوشوں کے بعد ہاتھ آگئی۔

بابا نے اسے اپنی بیٹی ڈیکلیئر کیا ہوا تھا۔ وہ بھی یہی کہتی ہے لیکن میڈیا نے ایسا بہت کچھ تلاش اور ثابت کرکے دکھا دیا کہ ہنی پریت بابا کی بیٹی نہیں کچھ اور تھی۔ اپنی اصل اور سگی بیٹیاں تو وہ کب کی بیاہ چکے ہیں۔ اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہنی پریت ہی کے لیے بابا نے پاپ میوزک کے جلوے بھی دکھائے، ہپیوں کا سا حلیہ بنا کر اور پاپ میوزک والوں کی طرح گٹار بجا کر وہ ناچتے گاتے تھے، اس حلیے میں داڑھی کے سوا اس کا سب کچھ مائیکل جیکسن جیسا ہوتا ہے۔ اس روپ کے ساتھ ایک بڑا زبردست گانا بھی ریکارڈ کیا گیا ہے ۔

بھول گیا سب کچھ
یا د نہیں اب کچھ

ایک تیری یاد نہیں بھولی۔ جولی میری جولی

میڈیا والوں کا کہنا ہے کہ یہ ’’جولی‘‘ ہنی پریت ہی ہے جس کی اور بابا کی ایسی اور بے شمار تصویریں لانچ ہو رہی ہیں جو کم ازکم باپ بیٹی کی تو نہیں ہو سکتیں۔ ایک بڑی خبر یہ بھی ہے کہ بابا نے ہنی پریت اور اپنی خاص الخاص خواتین کی خدمت پر جو لوگ مامور کیے تھے، ان سب کو نامزد نیبونسک بنایا گیا تھا۔ ایسے لگ بھگ چار سو لوگ بتائے جاتے ہیں جن میں سے ایک نے چینل پر خود اپنی کہانی سنائی ہے کہ بابا نے اسے پینے کے لیے کوئی مشروب دیا جسے پی کر وہ بے ہوش ہو گیا اور ہوش آنے پر پتہ چلا کہ وہ مرد نہیں رہا ہے ’’نیبونسک‘‘ ہو چکا ہے ۔

بابا رام رحیم کی اپنی سیکیورٹی فورس تھی جو بابا کے حکم پر سب کچھ کرنے کو تیار ہوتی تھی، اس فورس کو باقاعدہ فوج اور پولیس کی طرح تربیت دی گئی ہے اور باقاعدہ مشقیں اور پریڈیں ہوتی تھیں۔لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ بھارت میں گند بھی بہت ہے لیکن وہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ کا نظام کافی مستعد اور مضبوط ہے اور بابا کی تمام طاقت کے باوجود وہ اس وقت جیل میں ہے اور ہنی پریت بھی گرفت میں ہے حالانکہ ہنی پریت نے بابا کی ساری دولت کے ساتھ ’’ہر دروازہ‘‘ کھٹکھٹایا اور دھن کا بھر پور استعمال کیا ہے، بابا کے بھگتوں نے کافی ہلہ گلہ مچایا لیکن قانون میں کوئی لچک پیدا نہ کر سکے۔ جیل میں بابا کی خواہش پر اسے پچاس گز کا ایک قطعہ اراضی دیا گیا ہے جس میں وہ سبزیاں کاشت کرتے ہیں لیکن اب اس کی سبزی عام قیدیوں کی خوراک ہے اور کوئی خصوصی قیمت نہیں رکھتی۔

ایک اور بابا آسا رام کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ وہ بھی مالی اور آمدنی کے لحاظ سے اپنی کیٹگری کا بابا ہے۔ وسیع و عریض کلومیٹروں کے حساب سے آشرم اور متعلقہ عمارات کے سلسلے ہیں اور اس پر بچوں کے اغوا اور قتل کے مقدمات قائم ہیں ۔ ابتدا ایک بچے کی لاش سے ہوئی تھی جو آشرم کے قریب جنگل میں پائی گئی اور نہایت ہی مسخ شدہ حالت میں تھی۔

یہ بات ابھی مکمل طور پر ثابت تو نہیں ہوئی ہے کہ بابا کے ہاں دس بارہ سال کے بچے کیوں قتل کیے جاتے تھے لیکن تفتیش کا ایک رخ بچوں کے اعضا بیچنے کی طرف بھی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ انسان اس کم بخت پیسے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کرتا کیسے کیسے سوانگ نہیں بھرتا اور کسی بھی ذلالت سے دریغ نہیں کرتا۔ اسی لیے تو رب جلیل نے فرمایا ہے کہ میں نے تو اسے ’’احسن تقویم‘‘ پر پیدا کیا ہے لیکن یہ خود کو خود ہی ’’اسفلہ سافلین‘‘ میں گرا دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔