سقوطِ ڈھاکا، شہدائے شکرگڑھ اور ’’لمحات‘‘

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 15 دسمبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

16دسمبر کا دن آتا ہے تو متحدہ پاکستان، جو عالمِ اسلام کی سب بڑی مملکت تھی، کے دن بھی یاد آنے لگتے ہیں۔ چھیالیس برس قبل مشرقی و مغربی پاکستان یکجا اور یکجان تھے۔ پھر دشمنوں نے ایسی جنگ چھیڑی کہ مشرقی اور مغربی بازوؤں میں ہمیشہ کے لیے جدائیاں پڑ گئیں۔ سولہ دسمبر کا دن دراصل اپنی پہاڑ ایسی غلطیوں کو پہچاننے اور بھارت ایسے سفلہ دشمن کو ہمیشہ نگاہوں میں رکھنے کا دن ہے۔

آج کے بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، نے ڈھاکا جا کر (وزیر اعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں) فخریہ کہا تھا:’’پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے میں میرا بھی کردار ہے۔‘‘ہم پھر کیسے یقین کر لیں کہ یہ مودی کسی بھی طرح پاکستان کا دوست ہو سکتا ہے؟ یہ مودی ’’صاحب‘‘ ہیں جن کی سر پرستی میں اب بھی پاکستان اور بنگلہ دیش میں غلط فہمیاں پھیلانے اور دُوریاں پیدا کرنے کی دانستہ کوششیں کی جارہی ہیں۔

ہم سب کو اِن پر نگاہ رکھنی ہے اور اپنے سابقہ مشرقی پاکستانی بھائیوں کو خود سے دُور نہیں ہونے دینا۔ واقعہ یہ ہے کہ1971ء میں سیاسی و جغرافیائی حالات خواہ کیسے ہی تھے، پاک فوج کے جوانوں نے وطنِ عزیز کی حرمت اور تحفظ میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ یہ شہدا ہمارے سر کا تاج ہیں۔ ہماری افواج آج بھی پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہُوئے دیوانہ وار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہیں۔ ابھی کل ہی وہاڑی کے اکیس سالہ سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید اور گلگت کے سپاہی بشارت نے وطن کی حرمت پر اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ ہم سب کا انھیں عقیدتوں بھرا سیلوٹ۔ شہادتوں کا یہ سلسلہ شمالی وزیرستان سے شکرگڑھ تک پھیلا ہُوا ہے۔

دوپہر ڈھل چکی تھی جب مَیں پاکستان کی سب سے دُور افتادہ اور پسماندہ تحصیل کے مرکز میں پہنچا۔ تحصیل شکرگڑھ ( ضلع نارووال) ہیڈ کوارٹر میں۔ یہ رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر، دانیال عزیز، کا عزیز از جان شہر اور حلقہ انتخاب بھی ہے۔ یہاں دسمبر1971ء میں پاکستا نی اور بھارتی فوجوں کے درمیان ایک خونریز جنگ لڑی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ 4 تا 16دسمبر1971ء کے تیرہ ایام کے دوران اِس مقام پر ٹینکوں کے بعد دست بدست گھمسان کا رَن پڑا۔ نہائت معمولی ہتھیاروں اور جنگی آلات کی سپلائی منقطع ہونے کے باوجود پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے پاک وطن کے تحفظ میں سر دھڑ کی بازی لگا دی۔

دشمن، بھارت، کی فوجیں بار بار برساتی آبی گزرگاہ، نالہ بئیں،کو عبور کرکے شکر گڑھ شہر پر قابض ہونے کی سر توڑ کوششیں کرتی رہیں لیکن پاک فوج کے دلاوروں نے اپنے پاک خون کی ندیاں بہا کر بھارتی افواج کے ناپاک عزائم ناکام بنا دیے۔ اگرچہ تحصیل شکر گڑھ کا تقریباً نصف حصہ بھارتی قبضے میں چلا گیا تھا اور ہمیں مجموعی طور پر شکست کا داغ بھی سہنا پڑا لیکن پاک فوج کے جوانوں نے قربانی، شجاعت اور دلاوری کی لازوال داستانیں رقم کر دیں۔ ہم ہمیشہ اِن پر فخر کرتے رہیں گے۔

پاک فوج کے شہدائے شکر گڑھ ہمارے دلوں پر راج کرتے رہیں گے کہ انھوں نے اپنی جانیں دے کر محض ایک شہر ہی نہیں بچایا بلکہ دشمن پر یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہائی کمان کی بزدلی کے باوجود وہ اپنے وطن کے دفاع پر بے دریغ اپنی جانیں نثار کر سکتے ہیں۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ شکرگڑھ شہر کے مرکزی چوک کے آس پاس دسمبر 1971ء کی جنگ کے شہدا کی یادگار تعمیر کی گئی ہے۔

مجھے اُسی کی تلاش تھی۔ کئی لوگوں سے پوچھا لیکن کسی کو معلوم ہی نہیں تھا۔ایک ضعیف ٹھیلے والے سے پوچھا تو اُس نے اشارے سے بتایا کہ وہاں ریسٹ ہاؤس میںایک یادگار کبھی ہُوا کرتی تھی، اب معلوم نہیں کہاں ہے؟ریسٹ ہاؤس، مرکزی چوک اور کچہری کی عمارت سے متصل واقع ہے۔ دوپہر ڈھلے مَیں نے وہاں عمارتوں کے اندر جھانکا جھانکی تو بہت کی مگر گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔ اچانک وہاں اسکول کے اوپر ایک باوردی محافظ پر نظر پڑی جو پہلے ہی مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ بڑے ادب کے ساتھ اُن سے شہدائے شکرگڑھ کی یادگار کے بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے اشارے سے کہا: ’’اسکول کے گیٹ نمبر دو سے اندر آئیں۔ یادگار اسکول کے اندر ہے۔‘‘ واپس مڑا۔ اپنا شناختی کارڈ اسکول کے محافظ کودیا اور اندر داخل ہو گیا۔

مغربی کونے میں مطلوبہ یادگار ایستادہ تھی۔ بالکل الگ تھلگ۔ دل کی گہرائیوں سے پاک فوج کے اُن بہادر شہدا کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی جنہوں نے اپنی جانیں قربان کرکے ہمارا آج محفوظ کر دیا تھا۔ شائد کوئی پہلی بار اُن کے سامنے پاک فوج کے شہدائے شکر گڑھ کو یوں خراجِ تحسین پیش کر رہا تھا۔ راقم نے تجسس کی خاطر وہاں کھڑے چند طلبا سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ نوکدار ستون کیا ہے؟ یہ کیوں اور کس کی یاد میں بنایا گیا ہے؟ وہ پہلے جھینپ سے گئے ، پھر کھلکھلا کر ہنسے اور پھر خاموش ہو گئے۔کسی ایک کو بھی معلوم نہیں تھا۔

تعجب ہُوا۔ دل میں خیال آیا: جو قومیں اپنے شہدا کو یوں فراموش کر دیں، وہ بھلااپنی آزادی کا تحفظ کیونکر کر سکتی ہیں؟ انھیں تو اپنے وطن کے دشمنوں کی پہچان تک نہیں رہتی۔مَیں ٹھنڈی یخ ہوتی سہ پہر میں شہدائے شکر گڑھ کی یادگار کے اردگرد گھوم گیا۔ چوکور ستون کے نچلے حصے میں یہ الفاظ لکھے نظر آئے: ’’معرکہ شکر گڑھ: دسمبر 1971ء کی پا ک بھارت جنگ میں 19ایف ایف (بمعہ اضافی دستے) کو شکر گڑھ کا دفاع کرنے کاکام سونپا گیا۔ دشمن نے اِس مشہور شہر اور فوجی نکتہ نظر سے اہم شہر پر قبضہ کرنے کے لیے بار بار حملے کیے، لیکن ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دشمن ہمارے ہاں 53 لاشیں، 79  قیدی اور لاتعداد جنگی سازو سامان چھوڑ گیا۔‘‘

یادگار کی مغربی جانب افواجِ پاکستان کے اُن عظیم شہدا کے اسمائے گرامی کندہ کیے نظر آئے جنہوں نے شکر گڑھ شہر کی حفاظت کرتے ہُوئے اپنی جانیں اللہ کی راہ میں نچھاور کر دی تھیں۔ اُن شہدا کے نام یوں ہیں: میجر ملک محمد افضل، حوالدار محمد نواز، حوالدار میجر محمد عالم، حوالدار رب نواز، لانس حوالدار محمد عجائب، نائیک محمد عارف، لانس نائیک زمرہ خان، سپاہی گل شاہ دین، سپاہی محمد طفیل، سپاہی محمد سرور، سپاہی محمد حسین، سپاہی جناب گل، سپاہی عین الدین، سپاہی محمد حبیب، سپاہی عبدالقادر، سپاہی عبدالسلام، سپاہی عبدالرحیم، سپاہی صدیق الرحمن اور سپاہی عبدالجبار!! شکر گڑھ تحصیل ہی وہ جگہ ہے جس کے ایک علاقے (ہرڑ خورد) میں پاک فوج کے ایک سپاہی سوار محمد حسین نے اکیلے ہی ایسی جگرداری سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ بھارتی فوج کے آگے بڑھتے قدم وہیں روک دیے۔ سوار محمد حسین خود 10سمبر1971ء کو شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد انھیں نشانِ حیدر کے عظیم المرتبت اعزاز سے نوازا گیا۔

جناب سوار محمد حسین شہید ایسے دلیر اور دلاور سپوت پاک دھرتی کی حرمت پراپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔ 16دسمبر 1971ء کا سانحہ مگر ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اِسے یاد رکھنا اور اِس پر اشک بہانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دشمن کا چہرہ ہمہ وقت ہماری آنکھوں کے سامنے رہے۔اب مگر،انشاء اللہ، اُس کی کوئی واردات کامیاب نہیں ہوگی۔

چھیالیس برس پہلے پاکستان دو لخت ہونے کا سانحہ کیونکر معرضِ عمل میں آیا اور بھارت مشرقی پاکستان میں اپنی سازشوں میں کیسے کامیاب ہو گیا تھا، اگر کسی نے سنجیدگی سے اِن وجوہ کا احوال معلوم کرنا ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ صبر ،شائستگی اور تحمل سے لکھی گئی کتاب ’’لمحات‘‘ کا مطالعہ ضرور کرے۔ ہمارے ملک کے ممتاز اور محبِ وطن دانشورخرم مراد صاحب کے یہ ذاتی مشاہدات بھی ہیں اور آنکھوں دیکھا احوال بھی۔

’’لمحات‘‘ میں دشمنِ پاکستان کا چہرہ بالکل عیاں ہو کر سامنے آجاتا ہے اور اُس کے وہ سارے مذموم ہتھکنڈے بھی جنہیں بروئے کار لا کر وہ پاکستان کو توڑنے میں کامیاب ہُوا تھا۔کتابِ مذکور میں ہمارے کئی سیاسی گناہوں اور فوجی غلطیوں کا بھی بے لاگ و مفصّل تذکرہ ہے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کا باعث بنی تھیں۔ اِسے ’’منشورات‘‘ نے شایع کیا ہے۔ دسمبر کے اِن ایام میں تو اِس تصنیف کا بغور مطالعہ از بس ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔