مشرقی پاکستان یاد آتا ہے

عبدالقادر حسن  ہفتہ 16 دسمبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک مرتبہ پھر دسمبر کا مہینہ ہے اور گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس برس بھی دسمبر مجھے اپنے کھوئے وطن مشرقی پاکستان کی یاد دلا رہا ہے، وہی مشرقی پاکستانی جس میں رہنے والے بزرگوں کے دل آج بھی پاکستان کے نام پر دھڑک اُٹھتے ہیں۔ ان کا زندگی بھر کا عشق ہم نے اپنی بے وقوفیوں اور ذاتی پسند ناپسند کی خاطر گنوا دیا لیکن انھوں نے ابھی تک اپنے نئے وطن میں دل نہیں لگایا اور پرانے وطن کی یادوں کے سہارے ہی اپنی زندگی کے دن تمام کر رہے ہیں۔ انھی بزرگوں میں جماعت کے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے مادر وطن پاکستان کے لیے ابھی بھی اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

ان کو وطن سے محبت کے جرم میں غدار قرار دے کر پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے جس کے پھندے کو ہمارے یہ بزرگ پھولوں کا ہار سمجھ کر چومتے ہوئے گلے میں پہن کر اپنی محبت کو امر کر رہے ہیں۔ ہر دسمبر میں اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے میں یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرا کم از کم ایک کالم مشرقی پاکستان کی یاد میں ہو ہم بے قصور عوام اپنے وطن کے اس حصے اور جگر کے اس ٹکڑے کو ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔

اس سانحہ کی یاد اس لیے بھی زندہ رہنی چاہیے کہ ہماری آنے والی نسلیں کے دلوں میں یہ ہمیشہ زندہ رہے، یہ نہ ہو کہ ہم بھی مشرقی پاکستان کی یاد منانا ختم کر دیں اور پاکستان کی تاریخ کا یہ اہم ترین باب تاریخ کے گردو غبار میں گم ہو جائے، نئی نسل کو اس کا علم ہی نہ ہو ہمارے آج کل کے نام نہاد دانشور بھی اس کی تلخیوں کا ذکر کرتے بالآخر اسے بھول جائیں۔

ایسے سانحوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی تاریخ بڑی بے رحم ہے۔ مجھے یہ علم نہیں کہ ہمارے طالبعلموں کو مشرقی پاکستان کی تاریخ کے بارے میں کتنا پڑھایا جاتا ہے اور ان کے نصاب میں اس سانحہ کا اب کس طرح ذکر کیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب میں بھی کئی تبدیلیاں کر دی ہیںجو ہمارے تعلیمی نظام کے بارے میں سوالیہ نشان ہیں، اس کے بارے پھر کبھی عرض کروں گا۔

جیسے ہی دسمبر کی سولہ تاریخ نزدیک آتی جاتی ہے پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے محققین اس سانحہ کے پوشیدہ پہلو تلاش کرتے ہوئے سینتالیس سال گزار چکے ہیں لیکن وہ اس سانحہ کے متعلق کوئی قابل توجہ پہلو بتانے سے قاصر رہے ہیں، لیکن پاکستانی عوام کو سب معلوم ہے کہ یہ سب کیسے اور کیونکر ہوا، اس میں کس کا کیا کردار تھا، یہ اب کوئی مخفی بات نہیں رہی اور حالات کی کوئی پرت گم نہیں ہوئی، اگر کسی کو اس سانحہ کے متعلق نہیں معلوم تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان بے رحم یادوں اور تلخ حقیقت سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

تقریباً نصف صدی گزرنے کو ہے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ آجاتی ہے کہ ہمارے بنگالی بھائیوں نے جذبات میں آکر جو فیصلہ کیا وہ درست ثابت نہیں ہوا وہ آخری وقت تک یہی کہتے رہے کہ ایک اکثریت ایک اقلیت سے کیسے الگ ہو سکتی ہے لیکن ہمارے مغربی پاکستان کے لالچی اور مفاد پرست ٹولے نے ان کے اس استدلال کو بھی غلط ثابت کر دیا اور اس طاقتور اقلیت کے مقابلے میں وہ ہار گئے لیکن آج کا بنگلہ دیش اپنے سابق ہم وطنوں سے نجات پر خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے جو کہ ہم پاکستانیوں کے لیے ایک قابل رشک صورتحال ہے کیونکہ ہم اسلامی جمہوریہ کہلانے والے نہ تو جمہوریہ رہے اور نہ ہی اسلامی اور اس بات کی آج تک سمجھ ہی نہیں آرہی کہ بچے کھچے پاکستان میں اس سانحہ کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

حضورﷺ کا فرمان ہے کہ ’’وہ شخص ہلاک ہوا جس کا آنے والا کل اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہوا‘‘۔ پلٹن کے میدان میں جنرل اروڑا کو اپنا پستول پیش کرتے ہوئے فحش لطیفے سنا کر اپنے فاتح حریف کو خوش کرنے کی بھونڈی کوشش جنرل نیازی ہی کر سکتا تھا۔

قوموں کی زندگی کے ہزار پہلو ہوتے ہیں ان میں بہتری بھی آتی رہتی ہے لیکن جو پہلو سقوط ڈھاکا کا سبب بنا اس میں ہمارے ہاں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آ سکی ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یحیٰ خان کی حماقتوں اور ان کے معاون بعض سیاسی لیڈروں کی ساز باز نے مشرقی بازو کو الگ کر دیا اور دشمن بھارت نے اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس علیحدگی کو ایک حقیقت بنا دیا۔

بنگالی آزاد منش، خود مختار اور عزت کی اعلیٰ قدروں سے آگاہ تھے، انھوں نے اپنے خوابوں کو عملی تعبیر دینے کے لیے اتنی دور سے ایک متحدہ ملک میں شمولیت اور اس کی شہریت اختیار کی تھی وہ تاج برطانیہ کے وظیفہ خوار ایجنٹ یا کوئی بڑے جاگیردار نہیں تھے وہ ایک ایسے ملک میں رہنے کی تلاش میں تھے جہاں وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق مسلمان حیثیت سے عدل و انصاف کی نعمت سے سرفراز ہوں لیکن ہم نے ان کے خوابوں کو شروع میں ہی چکنا چور کر دیا اور نوزائیدہ ملک میں پہلے مارشل لاء نے ان کی امیدوں کی دنیا کو برباد کر دیا۔ انھوں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن جج مغربی پاکستان سے تعلق رکھتا تھا پھر بھی انھوں نے صبر کیا کہ وہ صبر کرنے والی قوم تھے مگر ہم نے ان کو صبر کو بار بار آزمایا اور ان کو مکمل مایوسی میں دھکیل دیا جس کے بعد وہ ہم سے نجات پانے میں کامیاب ہو گئے۔

سقوط ڈھاکا کے سانحے کا ہم نے کبھی دوطرفہ جائزہ لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی شاید اس کی وجہ ایک خوف ہے کہ کہیں اس میں ہم خود ہی مجرم نہ ٹھہرا دیے جائیں اس لیے ہم ہر بار اس کا یک طرفہ جائزہ لینے کو ہی ترجیح دیتے رہے۔ اگر کبھی کسی نے غیر جانبدارانہ طور پر ان تلخ حالات کا جائزہ لیا تو اس کا فیصلہ مختلف ہو گا عین ممکن ہے کہ مشرقی پاکستانی بے گناہ اور ہم مغربی پاکستانی کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں۔

ہم یہاں پاکستان میں بھارت کے ساتھ پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے کو بیتاب و بے قرار رہتے ہیں لیکن اگر یاد ہو تو وہ دن یاد کریں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا تو اس وقت بھارت ان کا سب سے بڑا محسن تھا لیکن انھوں نے مغربی بنگال میں ضم ہونے سے انکار کر دیا حالانکہ ان کا رہن سہن، کھانا پینا اور لباس تک ایک جیسے تھے سوائے مذہب کے لیکن انھوں نے پاکستان سے جدا ہو کر بھی اپنی الگ شناخت برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔ انھوں نے نئے نام سے ملک ضرور بنا لیا لیکن ہندو مسلم دو الگ الگ قوموں کا نظریہ اتنا بڑا سچ ہے کہ اسے تاریخ بھی میلا نہ کر سکی۔

دو قومی نظریہ کسی لیڈر کا پیدا کردہ نہیں اور نہ لفظ نظریاتی کسی کی جاگیر ہے یہ کسی کی ایجاد نہیں اور نہ ہی نظریہ راتوں رات پیدا ہو جاتا ہے یہ ایک طویل تاریخی عمل کا نتیجہ ہے اس نظریے پر کڑے وقت آتے رہے ایک 1971ء میں آیا اور ایک آج کل آیا ہوا ہے۔ اگر ہم اپنی نادان ہٹ دھرم سیاسی لیڈر شپ سے بچ گئے تو اس کڑے وقت میں بھی کامیاب ہو کر نکلیں گے کیونکہ یہ نظریہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ تاریخ اپنی تردید کبھی نہیں کرتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔