مسعود احمد برکاتی میرے عظیم استاد کی چند ذاتی یادیں

برکاتی صاحب ایک اچھے لکھاری اور بہترین مدیر ہونے کے علاوہ کامیاب منتظم بھی تھے

برکاتی صاحب نے روسی زبان بھی سیکھی، البتہ اردو، فارسی اور عربی میں خوب گیرائی رکھتے تھے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

SYDNEY:
استادِ محترم و مکرم سید مسعود احمد برکاتی سے میرا تعلق لگ بھگ تیرہ سال پر محیط ہے۔ فروری 1992 سے لے کر 16 فروری 2005 تک ایک طویل رفاقت ہے جو ماہ نامہ ہمدرد نونہال اور ماہ نامہ ہمدرد صحت کے حوالے سے یادوں کا ایک عظیم ذخیرہ رکھتی ہے۔

استاد گرامی سے میری پہلی ملاقات 1991 کے کسی مہینے ہوئی کہ جب میں ان کے پاس اپنی چند شائع شدہ تحریریں لے کر ہمدرد نونہال کے دفتر پہنچا۔ وہ اس وقت ہمدرد صحت ترتیب دے رہے تھے۔ مجھ سے مختصر سی ملاقات کی اور فرمایا کہ چند روز بعد آنا۔ تاہم، وہ چند روز، چند ماہ میں بدل گئے۔ اس زمانے میں موبائل فون تو ہوا نہیں کرتا تھا، جیسے تیسے لینڈ لائن پر بات ہوئی تو انہوں نے وقت دیا۔ دوسری ملاقات میں انہوں نے میری تحریروں والی فائل دیکھی جس میں کئی مؤقر روزناموں اور جرائد میں شائع شدہ میرے تراجم جمع تھے۔ برکاتی صاحب کےلیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ میں نے چند برس استاد گرامی جناب سید قاسم محمود مرحوم کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہ نامہ سائنس میگزین میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر گزارے ہیں۔ حکیم محمد سعید شہید اور مسعود احمد برکاتی، سید قاسم محمود کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شخص جن ہے، کیوں کہ اس نے وہ کام تن تنہا کیے ہیں جو ادارے کرتے ہیں۔ خیر، برکاتی صاحب نے مجھے دوبارہ آنے کو کہا۔ غالباً انہوں نے میرے جانے کے بعد سید صاحب (سید قاسم محمود مرحوم) کو فون کیا تھا تاکہ وہ میری بات کی توثیق کرسکیں، کیوں کہ ہمدرد میں ملازمت کے کچھ عرصے بعد میری ملاقات سید صاحب سے دورانِ سفر بس میں ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ برکاتی صاحب کا فون آیا تھا، وہ تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے۔

برکاتی صاحب کا حکیم محمد سعید اور ہمدرد نونہال کے ساتھ سفر کا باقاعدہ آغاز 1952 میں ہوا جب حکیم صاحب مرحوم نے انہیں ماہ نامہ ہمدرد نونہال کی ادارت سنبھالنے کو کہا۔ ساتھ ہی ماہ نامہ ہمدرد صحت کے مدیر منتظم کی ذمے داریاں بھی دیں، جبکہ حکیم صاحب ہمدرد صحت کے مدیر اعلا تھے۔ اس سے قبل انہوں نے اپنے بڑے بھائی حکیم محمود برکاتی شہید کے ساتھ مل کر محنت مزدوری کی۔ بتاتے تھے کہ جب پاکستان آنے کے بعد ہم کراچی آئے تو ہمیں پتا چلا کہ حیدرآباد اسٹیشن کی تعمیر ہورہی ہے اور وہاں مزدوروں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم دونوں مزدوری کرنے حیدر آباد چلے گئے۔ حیدرآباد اسٹیشن پر ہم دونوں بھائیوں کے ہاتھ کی لگائی گئی اینٹیں بھی ہیں۔ بعد میں ٹیوشن مل گئیں تو جسمانی مزدوری چھوڑدی اور ذہنی مزدوری پر آگئے۔

ہمدرد سے تقریباً پینسٹھ سالہ پیشہ ورانہ رفاقت کے دوران انہوں نے بلا ناغہ ہمدرد نونہال کو اپنی معیاری تدوین کے ذریعے نسلوں کی ذہنی اور جسمانی نمو کا ذریعہ بنایا۔ مدیر کی حیثیت سے ان کا سب سے بڑا کمال یہ رہا کہ کتنے ہی نشیب و فراز آئے، ٹیکنالوجی بدلی، لیکن انہوں نے ہمدرد نونہال کے معیار اور بالخصوص مزاج پر حرف نہ آنے دیا۔ حکیم صاحب مرحوم کے بہ قول، برکاتی صاحب کا اس سے زیادہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک شمارے میں بھی ایسی بات نہیں لکھی جو ہمدرد نونہال کی ساکھ کو متاثر کرے اور اس کی اشاعت متاثر ہو۔ جو لوگ صحافت اور خاص کر ادارت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس بات کی گہرائی کو محسوس کرسکتے ہیں۔

برکاتی صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے کام اور مزاج کا خوب اندازہ ہوا۔ خاص طور پر جب مذکورہ بالا رسالے مرتب کرتے تو انتہائی یکسوئی اور توجہ سے کام کرتے۔ ایک رسالے کی ترتیب میں عموماً دو ڈھائی گھنٹے اور بعض اوقات چار پانچ گھنٹے لگادیتے تھے۔ اس دوران کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اتنا معیاری رسالہ پینسٹھ سال تک جاری رکھا بلکہ تحریروں کے معیار پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔



تدوین کے مراحل میں پروف خوانی (پروف ریڈنگ) انتہائی مشکل کاموں میں سے ہے اور یہ کام مشاق اور تجربہ کار آدمی ہی کو کرنا چاہیے۔ برکاتی صاحب سے یہ فن بھی خوب سیکھنے کا موقع ملا۔ عموماً لوگ پروف خوانی مبتدین کے ذمے لگادیتے ہیں۔ یہ بڑی غلطی ہے۔ پروف خوانی کے حوالے سے برکاتی صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ جب ان کی ملاقات علامہ سید سلیمان ندوی سے ہوئی تو ان سے باتوں باتوں میں تحریر کی پروف خوانی پر بات چل نکلی۔ برکاتی صاحب نے کہا کہ اس کا کوئی حل بتائیے کہ تحریر شائع ہونے کے بعد جو غلطیاں سامنے آتی ہیں، وہ تحریر کی اشاعت سے پہلے درست کرلی جائیں۔ علامہ ندویؒ نے فرمایا کہ جب آدمی پروف خوانی کرتا ہے تو بعض الفاظ پر شیطان اپنی انگلی رکھ دیتا ہے۔ گویا، کچھ بھی کرلو، چند غلطیاں تو اشاعت کے بعد ہی سامنے آتی ہیں۔

برکاتی صاحب کے ساتھ کام کرکے اندازہ ہوا کہ وہ ایک اچھے لکھاری اور بہترین مدیر ہونے کے علاوہ ایک کامیاب منتظم بھی تھے۔ تیرہ سے پندرہ افراد کے شعبے کو چلانا انہیں آتا تھا۔ تمام افراد کو ان کے مزاج کے مطابق چلاتے تھے۔ کام کے دوران اگر بہت زیادہ جلدی نہ ہو تو دھیمی رفتار سے کام کرتے تھے، کیوں کہ علمی کاموں کےلیے انتہائی یکسوئی اور صبر کی ضرورت ہے جو آج، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ، مفقود ہے۔ کام کے دوران برسبیل تذکرہ، اپنی زندگی کے مختلف واقعات بھی بتاتے رہتے تھے جو میری پیشہ ورانہ زندگی میں بہت ہی کارآمد ہیں اور میرے لیے ایک اثاثہ بھی۔

دراصل، ہمدرد فاؤنڈیشن میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملاقات دنیا کے بڑے ذہنوں سے ہوتی رہتی تھی اور وہ اپنی یادداشتیں اگرچہ تحریر تو نہ کرپائے، لیکن زبانی ذکر ضرور کرتے تھے۔

ہمدرد فاؤنڈیشن میں اُن کا رعب اور دبدبہ خوب تھا۔ کہتے تھے کہ میں اگر دفتر میں نہ ہوں، تب بھی سب کو دیکھتا رہتا ہوں۔ دوسری جانب کسی کی بہتر کارکردگی پر کچھ تعریف و تحسین بھی کرتے تھے۔ اول، انتہائی سینئر تھے اور دوم، سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے، اس لیے عملہ ان سے دور ہی رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ تاہم، بعض عوامل کے باعث میں چند امور پر ان سے نہ صرف اختلاف کیا کرتا تھا بلکہ ان سے ادب کے ساتھ اس اختلاف کا اظہار بھی کرتا تھا۔ چنانچہ آخری چند برسوں میں وہ مجھ سے کئی ادارتی، ادارہ جاتی اور ذاتی معاملات پر مشورہ بھی کرنے لگے تھے۔


ایک مرتبہ میں نے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیا اور برکاتی صاحب کو اپنا استعفا پیش کیا۔ نوجوانی کا جوش تھا اور کوئی گھریلو ذمے داریاں نہ تھیں، لہٰذا ایسا کرنے میں مجھے کوئی پس و پیش نہ تھا۔ برکاتی صاحب نے پوچھا، اپنی والدہ کو بتایا ہے کہ تم استعفا دے رہے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے میری والدہ کو فون کردیا اور مجھ سے اظہارِ ناراضی کیا کہ جب تک تمہاری والدہ مجھے نہیں کہیں گی، میں تمہارا استعفا قبول نہیں کروں گا۔ مزید تعلیم حاصل کرنی ہے تو یہیں رہتے ہوئے تمہارے پاس بہت موقع ہے۔

برکاتی صاحب کو دنیا بچوں کے ادب کے حوالے سے جانتی ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو یہ پتا ہے کہ برکاتی صاحب کا نام اُردو تدوین اور انشا پردازی میں سب سے بلند ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اردو قواعد و انشا پر سب سے بڑی اتھارٹی ڈاکٹر رشید حسن خاں صاحب (شاہ جہاں پور، ہندستان) نے اپنی ایک کتاب ''اُردو املا'' کا انتساب ہی مسعود احمد برکاتی صاحب کے نام منسوب کیا۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے دَورِ ہمدرد میں دیکھا کہ ڈاکٹر شان الحق حقی مرحوم جو اس زمانے میں آکسفورڈ کی مشہورِ زمانہ ڈکشنری کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کررہے تھے، جب وہ کسی لفظ کے ترجمے میں پھنس جاتے تھے تو برکاتی صاحب کے پاس آجایا کرتے تھے اور ان سے اس مشکل لفظ کا ترجمہ پوچھتے تھے۔

برکاتی صاحب اور حقی صاحب کے درمیان اس دَور کی مجلسیں میرے لیے نہ صرف ناقابل فراموش یادیں ہیں بلکہ میرے پیشہ ورانہ علم اور تجربے میں نایاب اضافہ بھی۔ جب ترجمے کے کسی مسئلے پر حقی صاحب مرحوم پھنس جاتے تو برکاتی صاحب کے پاس آجاتے۔

برکاتی صاحب مجھے بلالیتے، کیوں کہ پے در پے مختلف لغات کی ضرورت پڑتی تھی اور ادارتی عملے میں واحد نوجوان میں ہی تھا جو بھاری بھرکم لغات سے واقف بھی تھا اور انہیں اٹھا کر برکاتی صاحب کی میز تک پہنچا سکتا تھا۔ چنانچہ برکاتی صاحب کے کمرے میں بڑی میز کے ایک جانب برکاتی صاحب ہوتے تو دوسری جانب ان کے سامنے ڈاکٹر شان الحق حقی؛ اور میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ان دونوں کی لغوی بحثوں سے محظوظ ہوتا۔ اس دوران میں نے ان دونوں اُردو دانوں کو ایک لفظ کی زیر زبر پیش پر وَاللہ، دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے بحث کرتے دیکھا۔

لغت کی بات چلی تو میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ برکاتی صاحب کے دفتر میں اردو، عربی، فارسی اور روسی زبانوں کی درجنوں لغات موجود تھیں۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ انہوں نے ایک زمانے میں روسی زبان بھی سیکھی تھی، لیکن اس میں مہارت نہیں تھی۔ البتہ اردو، فارسی اور عربی میں خوب گیرائی رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی صاحب نے ایک ترجمے میں ''دماغ افروغ'' لکھا تو لغات کھول کر بیٹھ گئے اور تقریباً پون گھنٹے کی تحقیق کے بعد انہوں نے اسے ''ذہن افزوں'' سے تبدیل کرڈالا۔ لغت کا استعمال خوب کیا کرتے تھے۔ ان کی صحبت کے باعث مجھ میں بھی یہ عادت پختہ ہوگئی۔

میں آج دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے اہل زبان اور اہل قلم، بہ شمول صحافی، لغت سے استفادے کی اس عظیم صفت سے عاری ہیں۔ چنانچہ انہیں لفظ کا شعور ہے نہ وہ زبان دانی کا مزاج رکھتے ہیں۔ اپنی سستی اور علمی نادوستی کے باعث انہوں نے غلط العوام ہی کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔

استاد محترم و مکرم کا پورا نام سید مسعود احمد برکاتی تھا، لیکن وہ اپنا نام ''مسعود احمد برکاتی'' ہی لکھا کرتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ یہ ذکر چھیڑا تو کہنے لگے کہ تین لفظی قلمی نام ہی سب سے اچھا لگتا ہے۔ دو لفظی نام چھوٹا ہوجاتا ہے جبکہ تین سے زائد الفاظ کا نام بولنے اور یاد کرنے میں بھاری ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مسعود احمد برکاتی صاحب حکیم نہیں تھے۔ میں نے فیس بک پر بعض افراد کی پوسٹس دیکھیں جن پر ''حکیم مسعود احمد برکاتی'' درج تھا۔ شاید یہ غلط فہمی ان کے بڑے بھائی حکیم محمود احمد برکاتی شہید کے نام سے مماثلت کے باعث ہوئی ہے۔

استادِ گرامی سے میری آخری ملاقات مؤرخہ 2 نومبر 2015 کو ان کے دفتر واقع ہمدرد فاؤنڈیشن، ناظم آباد، کراچی میں ہوئی۔ اس کے بعد سے میری کوشش یہ رہی کہ ایک نالائق (یا لائق) شاگرد کی حیثیت سے اپنےاستاد محترم کا جامع انٹرویو کرلوں۔ ان سے دو تین مرتبہ فون پر اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے سوالات لکھ کر بھیج دو۔ میں نے چند سوالات مرتب کیے اور انہیں کوریئر کردیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان تک یہ سولات پہنچے یا نہیں، کیوں کہ اس کے بعد ایک آدھ مرتبہ جب میں نے ان سے انٹرویو کی بات کی تو انہوں نے یہی فرمایا۔

میں آج جس منصب اور مرتبے پر ہوں، اور جس معیار کا پیشہ ورانہ کام کررہا ہوں، اس شخصیت کی تشکیل اور پیشہ ورانہ مہارت میں میرے استادِ عظیم مسعود احمد برکاتی مرحوم کا بہت کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ استاد گرامی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلا ترین مقام عطا فرمائے (آمین)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story