20 کروڑ کنگلے حاکم

جبار جعفر  ہفتہ 23 دسمبر 2017

یہ جاننے کے لیے کہ پاکستان کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے؟ کسی کو سقراط کی کھوپڑی میں بقراط کے دماغ کی ضرورت نہیں پڑتی، مسئلہ سامنے ہے یعنی ’’غیر نمایندہ اسمبلیاں‘‘ اگر کسی کو دعویٰ ہے کہ یہ غلط ہے تو وہ ثابت کرے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جاگیرداروں اور صنعتکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ گن پوائنٹ پر تو ووٹ لے کر نہیں آتے تو پھر یہ ہر 5 سال بعد جو الیکشن الیکشن کھیلا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟

20 کروڑ کنگلے حاکم تو الیکشن میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ ان کے پاس اخراجات کے لیے الیکشن کمیشن کی منظور کردہ رقم 30 لاکھ تو کجا الیکشن ہارنے کی صورت میں ضبط کرانے کے لیے زرضمانت تک نہیں ہوتا جو پیشگی نقد جمع کرانا پڑتا ہے۔ نتیجتاً 2 فیصد ارب پتی خادم 3D ٹیکنالوجی (دھن، دھونس، دھاندلی) سے کامیابی حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔ 70 سال پہلے جو عزت مآب صوابدیدی اختیارات کی پوٹلی تھے آج میگاکرپشن کا صندوقچہ بن چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو مادرزاد اشرافیہ کو جنم دیتے ہیں؟

1۔ ووٹ ڈالنے کی شرح کم ازکم اور جعلی ووٹ بھگتانے کی شرح زیادہ سے زیادہ ہو۔

2۔ جاہل عوام، جن کو گاؤں کے مولی صاب (مولوی صاحب) اللہ کے عذاب سے ڈراکر اور مادر زاد اشرافیہ تھانیدار کے چھترول سے ڈرا کر قابو میں رکھ سکیں۔

3۔ برادری سسٹم۔ جس میں قیمتی تحائف پیش کرکے، رشتے داریوں قائم کرکے سیاسی تعلقات مستحکم کرکے حلقہ آبائی اور نشست وراثتی بنائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں مادرزاد اشرافیہ وجود میں آتی ہے اور ملک کا آئین اور قانون ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن جاتا ہے۔ مثلاً سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دے کر فارغ کردیا۔ قانوناً وہ اپنی پارٹی کی صدارت بھی نہیں کرسکتے تھے لیکن نااہل وزیراعظم نے اپنے نامزد وزیراعظم کے ذریعے اسمبلی میں قانون میں ترمیم و اضافہ کرکے دوبارہ اپنے آپ کو پارٹی کی صدارت کا اہل بنالیا۔ گویا آئین پاکستان ملکی استحکام اور عوام کی خوشحالی کا ضامن بننے کے بجائے مادرزاد اشرافیہ کی مرضی کا پابند بن گیا۔ یہ دو چار برس کا قصہ درویش نہیں ہے بلکہ 70 سال کی داستان غم ہے۔

اس بات میں رتی بھر شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اسمبلیوں پر ان عناصر کا قبضہ ہے جو مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ یہ پاکستان کے آئین و قانون کے ساتھ جو چاہیں کرسکتے ہیں مثلاً 1۔ سادہ اکثریت کی صورت میں قانون سازی میں حزب اختلاف کی رائے کو بلڈوز کرسکتے ہیں۔ 2۔ دو تہائی اکثریت درکار ہو تو ارکان اسمبلی کو خرید سکتے ہیں۔ 3۔ اگر یہ بھی نہ کرسکیں تو خفیہ طور پر قانون میں رد و بدل کے لیے جعلسازی بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے ایجنڈے پر بڑے خطرناک عزائم ہیں۔

کیونکہ وراثت Status Quo کی نیابت اور جمہوریت Status Quo کی مشابہت ہوتی ہے۔ اس لیے وراثت اور جمہوریت میں ازلی دشمنی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ جاگیردارانہ نظام کے زیر عاطفت آبائی حلقوں اور وراثتی نشستوں کے ملاپ سے مادرزاد اشرافیہ کی ولادت باسعادت ہوتی ہے اس لیے یہ Electoral بھی ہوجاتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے نور نظر اور لخت جگر بھی بن جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ میری جیب میں چند کھوٹے سکے بھی ہیں۔ یہ جب آپس میں مل کر پارٹی بناتے ہیں تو وہ مسلم لیگ بن جاتی ہے یا یہ زیرگردش کسی اچھی مسلم لیگ کو چھانٹ کر اس میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔

ایوب خان نے پہلی مرتبہ ان پر ہاتھ ڈالا ان کو چن چن کر نااہل قرار دیا اور گھر بھیجا۔ لیکن جب ایوب خان کو اقتدار کو طول دینے کے لیے کنونشن لیگ بنانے کی ضرورت پڑی تو معاملہ الٹا ہوگیا۔ نتیجتاً محترمہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب میں ایوب خان سے ہارگئیں۔ بھٹو صاحب سوشلسٹ نظریات لے کر میدان سیاست میں اترے۔ خوب رنگ جمایا لیکن اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لالچ میں مادرزاد اشرافیہ کے نرغے میں پھنس گئے۔ پھانسی چڑھ گئے۔ ضیا الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ان کی ضرورت پڑی انھوں نے مخلص مشورہ کی رونقیں دوبالا کردیں۔ پرویز مشرف کو (ن) لیگ نے سہارا دیا۔

بقول ایک قدیم فارسی شاعر انوری کے ’’جب بھی آسمان سے کوئی بلا نازل ہوتی ہے وہ انوری کے گھر کا پتا پوچھتی ہوئی آتی ہے‘‘ غور کیجیے، جاری کامیاب جمہوریت کے دوران حکمران اشرافیہ نے میگا کرپشن کے وہ ریکارڈ قائم کیے ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہمت کرے گا۔ اچانک آسمان سے قہر پاناما لیکس کی صورت میں نازل ہوا (پاکستان کا پتا پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔) ساری مادرزاد اشرافیہ اس وقت پکڑ میں ہے۔ آہنی اعصاب کی حامل عدالت ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ چوکنے عوام کی ہر چیز پر نظر ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ، فوج اور عوام ایک پیج پر موجود ہیں۔ اگر انجام بخیر، اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔