میڈ اِن چائنا

وجاہت علی عباسی  پير 18 مارچ 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

آپ نے یقینا سنا ہو گا کہ تعلیم حاصل کرو، چاہے اس کے لیے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، یہ مثال پاکستانیوں کے لیے نہیں تھی یعنی مثال میں ’’چین‘‘ کا ذکر کسی دور دراز ملک کے لیے کیا گیا تھا اور چین پاکستان کے لیے تو بس اگلی گلی سے رائٹ مڑ کر ہے یعنی بہت قریب، پھر بھی ہماری یوتھ اس مثال کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اپنی سی پوری کوشش کر رہی ہے کہ چائنا جا کر تعلیم حاصل کرے۔

پاکستان دنیا کے بیشتر ملکوں سے تعلیم کے معاملے میں بہت پیچھے ہے ہماری سوسائٹی کی ایک بڑی کمزوری ہمارا کمزور تعلیمی نظام ہے اگر آپ ہزاروں روپے ماہانہ فیس کے اسکول اپنے بچوں کے لیے نہیں افورڈ کرسکتے تو حکومت نے آپ کے لیے ملک بھر میں اسکول کھولے ہیں تعلیم کے نام پر بنے ان اسکولوں میں سے سیکڑوں اسکول کبھی کھلے ہی نہیں اور جو اسکول کھلے ہیں وہاں ہزاروں ایسے ٹیچرز ہیں جو حکومت سے تنخواہ تو ٹائم پر لے رہے ہیں مگر اسکول کبھی نہیں آتے اور جو آتے ہیں وہ اکثر بچوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کرتے ہیں کہ بچے اسکول کو مصیبت سمجھتے ہیں اور اکثر اسکول آنا ہی بند کر دیتے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو گی کہ پاکستان کے قانون کے مطابق اگر ٹیچر بچے کو پیٹ پیٹ کر جان سے بھی مار دے تو یہ کرمنل آفینس نہیں ہو گا، پاکستان پینل کوڈ سیکشن 89 کے مطابق اسکولوں میں بچوں کو مارنا غیر قانونی نہیں ہے یہاں تک کہ بچہ اگر مار کھاتے کھاتے مر جائے تو حادثاتی موت مانا جائے اور ٹیچرز کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ پاکستان میں بچہ اسکول کو مصیبت اور مشکل کا دور سمجھتا ہے جہاں اسے زبردستی اور ڈر کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے سندھ اسمبلی نے قرارداد بھی پاس کی ہے کہ سیکشن 89 میں تبدیلی آنی چاہیے لیکن کوئی بھی قانون کلچر میں فوری تبدیلی نہیں لا سکتا، اسکول کے اساتذہ کے ہاتھوں میں ڈنڈا اور بچوں کے ذہن میں ڈر، ہماری سوسائٹی کی بنیادوں کو کیسے کمزور کر رہا ہے اس کا ہمیں شاید صحیح طرح اندازہ نہیں۔ ان اسکولوں سے نکلنے والے بچوں کو دو خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے ایک وہ جو اسکول کے دباؤ کی وجہ سے بغاوت کرنا سیکھ جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس دباؤ کی وجہ سے زندگی میں ہار مان بیٹھتے ہیں۔ ہار مان جانے والے زندگی میں کچھ بڑا نہیں کرتے ان کی زندگی کا مقصد صرف Survival ہوتا ہے، جو انھوں نے اسکول میں سیکھا یعنی کسی طرح بچ کر رہو، عام سی نوکری اور ایک معمولی زندگی کی طرف جدوجہد کرتے ہوئے وقت گزار دیتا ہے اور بغاوت کرنے والے اپنے لیے بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ ملک، قوم، پاکستان کے کل میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

’’پاکستان میں کچھ نہیں ہے‘‘ سوچنے والے ساٹھ فیصد نوجوان آج کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھیں کہ تم آنے والے پانچ سال میں پاکستان کے لیے کیا کر لو گے تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، لیکن وہی طالب علم اپنے لیے ذہن میں اگلے پانچ سال میں گھر، گاڑی، اچھی نوکری سب بنا چکا ہوتا ہے۔ ہاتھ میں چھڑی پکڑے ٹیچر اپنی یوتھ کو اپنے ملک، اپنے سسٹم سے پیار کرنا نہیں سکھاتا جس میں یوتھ کی کوئی غلطی نہیں۔

کچھ دن پہلے انڈیا کے مشہور اداکار عرفان خان کو امریکا کے ایئرپورٹ پر روک کر گھنٹوں تلاشی لی گئی جب کہ عرفان خان انڈین فلم انڈسٹری کے وہ اداکار ہیں جنہوں نے ہالی وڈ کی فلموں میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اس کے باوجود شاہ رخ ہوں یا عرفان امریکا، انگلینڈ کے ایئرپورٹس پر پہنچ کر صرف ’’خان‘‘ رہ جاتے ہیں۔ جب یہ مشہور لوگ اس فرق کرتے مغرب سے نہیں بچے تو ہمارے یہ طلبا کس کھیت کی مولی ہیں؟

پچھلے کچھ سال میں ہمارے لیے بہت سی چیزیں بدلی ہیں ان میں سے ایک ہے ہمارے طالب علموں کو باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنے میں مشکل ہونا، لیکن ہمارا ’’ہر حال میں ملک چھوڑ دوں گا‘‘ والا جذبہ رکھتا طالب علم ملک سے باہر کہیں بھی جانے کو تیار ہے، چاہے وہ چین ہی کیوں نہ ہو۔

آج پاکستان کے ہر بڑے شہر میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طالب علم چینی زبان سیکھ رہے ہیں اور چینی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ ان طالب علموں کے مطابق آج پاکستانیوں کو کوئی بھی ملک پسند نہیں کرتا لیکن چینی قوم ایسی نہیں، وہ ہمیں کھلے دل سے اپنے ملک آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہاں تعلیم سستی بھی ہے جو مڈل کلاس پاکستانی افورڈ کر سکتا ہے۔

چائنا جانے کے اس رجحان سے ایک بڑا نقصان ہے اور وہ یہ کہ جو طلباء پچیس ہزار ڈالر سالانہ فیس امریکا جا کر نہیں دے سکتے۔ وہ مجبوری میں ہی سہی لیکن پاکستان میں رہ کر ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب چند ہزار ڈالر خرچ کر کے چائنا چلے جائیں گے اور یقینا وہاں رہ کر وہاں کی زبان اور طور طریقے بھی سیکھ جائیں گے، جس کے بعد ان کا وہاں سے آنا مشکل ہو جائے گا۔

اسلام آباد میں اب ایک انسٹیٹیوٹ بارہ سال کی عمر سے ہی بچوں کو چائنیز سکھانے کی کلاسیں دے رہا ہے۔ ادارے کے مالک کے مطابق انھیں بہت اچھا رسپانس ملا ہے اور وہ چائنیز سکھانے کے لیے ایسی ہی دو سو شاخیں پاکستان بھر میں کھولنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔

پاک چین دوستی کے باوجود پاکستان میں صرف دس ہزار چائنیز رہتے ہیں اور اس وقت صرف طالب علموں ہی کی گنتی کریں تو چائنا میں آٹھ ہزار پاکستانی طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

چین میں پاکستانیوں کی تعداد شاید بہت جلد بڑھنے والی ہے، چائنا کی کئی چیزوں کو دنیا میں معیاری نہیں مانا جاتا جس میں ایک ان کی تعلیم بھی ہے، چائنا میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جہاں کا معیار دنیا کے پچاس ٹاپ موسٹ تعلیمی اداروں میں شمار کیا جائے، چائنا کی بنائی اکثر چیزوں کو ویسٹ میں اکثر سستا اور غیر معیاری سمجھا جاتا ہے۔

آج ہماری مڈل کلاس پاکستانی یوتھ چائنا انجینئر، ڈاکٹر بننے جا رہی ہے وہ ذہین دماغ جو ہمارے کل کو بہتر بنا سکتے ہیں انھیں ہم نے ڈنڈے مار مار کر ’’میڈ اِن چائنا‘‘ بننے پر مجبور کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔