شہید پروین رحمان
اس کہانی کا مرکزی خیال زمین کے لیے انسان کی ختم نہ ہونے والی ہوس ہے۔
zahedahina@gmail.com
شاہ عنایت شہید کے جلسے میں شرکت کے لیے حیدرآباد جاتے ہوئے میں صدیوں پرانی اس جدوجہد کے بارے میں سوچ رہی تھی جس میں شاہ شہید کا ساتھ دینے والے ہزاروں کسان اپنی جان سے گئے تھے اورکراچی کی طرف سفر کرتے ہوئے تاحدِ نظر تک پھیلی ہوئی زمین مجھے اداس کرتی رہی۔کاش یہ زمین ہاریوں میں تقسیم کردی گئی ہوتی، یہاں تک نہریں نکالی جاتیں اور اس پر فصلیں لہلہاتیں۔
اب تو کہیں کہیں کھیت تھے اور اس میں کام کرتی ہوئی عورتیں اور مرد ، یہ زمین اب سیکڑوں ہزاروں ایکڑ کے حساب سے ہڑپ کی جانے والی تھی۔ مجھے عالمی شہرت یافتہ ادیب لیوٹالسٹائی کی وہ کہانی یاد آگئی جو اس نے 1886 میں لکھی تھی اور جس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ ا ردو میں کئی مرتبہ منتقل ہوئی۔ کسی نے اس کا نام ''دو بیگھا زمین'' اور کسی نے دو گز زمین رکھا۔
اس کہانی کا مرکزی خیال زمین کے لیے انسان کی ختم نہ ہونے والی ہوس ہے۔ ایک شخص جس سے کہا جاتا ہے کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین طے کر لے گا، وہ زمین اس کے نام کردی جائے گی۔ یہ سن کر وہ شخص چلنے کے بجائے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ سورج ڈوبنے تک وہ بہت بڑا رقبہ طے کرلیتا ہے لیکن اس دوران وہ نڈھال ہوچکا ہے، اتنا نڈھال کہ گر پڑتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے تب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ''ایک انسان کو آخر کتنی زمین درکار ہے؟'' اس سوال کا جواب بھی اسی کہانی میں موجود ہے کہ ہر انسان کو زندگی کے اختتام پر صرف دو گز زمین درکار ہوتی ہے جس میں وہ دفن کردیا جاتا ہے۔
سفرکے د وران ٹالسٹائی کی یہ کہانی یاد آئی تو کراچی کے بدن کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے وہ افراد اور وہ چند نام نہاد تعمیراتی ادارے یاد آتے رہے جو ''کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد'' کا شاندار نعرہ لگاتے ہوئے نئی رہائشی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں۔ کچھ تو صرف کاغذ پر ہوتی ہیں اور کچھ کے لیے غریبوں کی زمین چھینی جاتی ہے،سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ ہوتا ہے اورایسا کرنے والے راتوں رات لکھ پتی،کروڑ پتی اور ان میں سے بعض ارب پتی بن جاتے ہیں۔
چندہ دے کر سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوجاتے ہیں یا اپنی تنظیمیں بنالیتے ہیں۔ سماج میں باعزت مقام حاصل کرلیتے ہیں، ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے ہوتے ہیں جن کی ستائش کی جاتی ہے۔ زمین پر قبضے سے جو کالا دھن حاصل ہوتا ہے، اس کی بناء پر وہ اہم ترین لوگوں کے قریبی احباب میں شامل ہوجاتے ہیں۔ وزیروں، پولیس افسروں اور دیگر بااثر افراد یا اداروں کی سرپرستی میں قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچتے اور وہ ہر سزا سے محفوظ رہ کر ملک اور شہر کے باعزت افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
حیدرآباد سے واپس آنے کے چند دنوں بعد میں دبئی کے لیے روانہ ہورہی تھی کہ ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی ایک خبر نے دہلا کر رکھ دیا۔ اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ کرکے قتل کردیا گیا جب وہ شام ڈھلے اورنگی میں اپنے دفتر سے گلستان جوہر کے لیے روانہ ہورہی تھیں۔ ہم دونوں ہم محلہ تھے۔ ایک چوڑی سڑک ہم دونوں کے فلیٹوں کے درمیان تھی۔ میرا ذہن اس ہولناک خبر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
انائونسر بتارہی تھی کہ کراچی کی مضافاتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کی طرف سے انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کو اگر عملی جامہ پہنادیا گیا تو اس لیے کہ پروین رحمان ایسے لوگوں کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھیں اور وہ ایسے ہر قبضے کی نشان دہی کرتی تھیں اور کالا دھندا کرنے والوں کے لیے ایک دردِ سر بنی ہوئی تھیں۔
پروین نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ خون کا دریا تیر کر پار کیا۔ اس سے پہلے کیمپ میں زندگی بسر کی، قریبی دوستوں اور عزیزوں کو جان سے گزرتے دیکھا اور جب کراچی پہنچیں تو پھر سے تنکا تنکا جوڑ کر اس خاندان نے اپنا آشیانہ بنایا۔ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے دائود انجینئرنگ کالج سے آرکٹیکچر کی ڈگری لی۔ اپنی ذہانت کی بناء پر روٹرڈیم کے انسٹی ٹیوٹ آف ہائوسنگ اسٹڈیز سے ہائوسنگ بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں مہارت حاصل کی۔
ان ڈگریوں کے بعد دوسرے متعدد پاکستانی ماہرین کی طرح وہ بھی پہلی دنیا کے کسی اہم ادارے سے وابستہ ہوسکتی تھیں اورکروڑوں کا بینک بیلنس رکھتے ہوئے ایک پُر آسائش زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس کے برعکس وہ پاکستان پلٹ آئیں۔ یہاں پہنچ کر وہ اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ ہوگئیں۔ خان صاحب کا ذکر اب کم کیا جاتا ہے لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے تقسیم سے پہلے انڈین سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی لیکن کمشنر یا کلکٹر کا عہدہ لینے کے بجائے سول سروس سے استعفیٰ دیا۔
پاگل اور خبطی کہلائے اور خدمت خلق میں مصروف ہوئے۔ پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کراچی ہر جگہ انھوں نے غریبوں کی آبادکاری اور انھیں عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا، یہ بتایا کہ اپنی زندگی کو تم ا پنی ہمت اور اپنی مدد آپ کے تحت بدل سکتے ہو، بہتر بناسکتے ہو۔ انھوں نے سابق مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے لیے اورنگی کی کچی آبادی میں کام شروع کیا۔ یہ ان کا وہ کارنامہ ہے جس پر انھیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ بڑے بڑے بین الاقوامی انعامات اور اعزازات انھیں دیے گئے اور وہ دنیا کے ایک شاندار شہری کے طور پر آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
او پی پی 1980 میں قائم ہوا، پروین رحمان دسمبر 1981 میں روٹر ڈیم سے واپس آئیں اور او پی پی سے اس طرح وابستہ ہوئیں کہ جان بھی اسی کی ایک سڑک پر دی۔ وہ خان صاحب کو اپنا گُرو کہتی تھیں اور ان ہی کی طرح کی سادہ زندگی خدمتِ خلق میں گزار دی۔ وہ اپنے ادارے کی ڈائریکٹر تھیں، ان کے بارے میں ڈاکٹر معصومہ حسن کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ 32 ہزار تھی اور مراعات کے نام پر انھیں دفتر سے ایک چھوٹی گاڑی ملی ہوئی تھی جس کے ڈرائیور کی تنخواہ اور ان کے موبائل کا بل او پی پی ادا کرتا تھا۔
اختر حمید خان کی رہنمائی میں پروین نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اورنگی کے نچلے متوسط طبقے کی بہتری کے لیے وقف کردیا۔ پاکستان کے مشہور ٹائون پلانر عارف حسن نے خان صاحب کی دنیا سے رخصت کے بعد پروین اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا ساتھ دیا جس کے لیے پروین ان کی بہت شکر گزار تھیں۔ انھوں نے جس مستقل مزاجی اور محنت کے ساتھ ساتھ اورنگی والوں کو تکنیکی امداد فراہم کی اس کی وجہ سے انھیں اس کام میں اختصاص حاصل ہوگیا اور اپنی اس مہارت کی بنیاد پر وہ بارہا پاکستان سے باہر بلائی گئیں۔
اورنگی والوں نے محبت میں انھیں ''گٹر باجی'' کا نام دے دیا تھا۔ اورنگی میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اورنگی کے وسیع علاقے میں انھوں نے پائپ بچھوائے جس سے بلا مبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ایک خاموش انقلاب آگیا۔ ان لوگوں نے غلاظت اور بدبو سے نجات پائی اور ان کے بچے نالیوں پر بیٹھ کر فارغ ہونے کی ذلت سے آزاد ہوئے۔ عورتوں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ انھوں نے غلاظت کی صفائی سے نجات پائی۔
پروین سے میری کبھی کبھی کی ملاقات تھی۔ اس سے کہیں زیادہ ہماری فون پر بات چیت ہوجاتی اور وہ بھی شہر کے کسی مسئلے کے بارے میں۔ ان سے کہیں زیادہ تعلق ان کی بہن عقیلہ اسماعیل سے تھا جو اب باہر رہتی ہیں۔ وہ انگریزی کی ادیب ہیں اور اردو کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتی ہیں۔ پروین اور عقیلہ سے آخری ملاقات آکسفورڈ کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہوئی۔ پروین ہمیشہ کی طرح مسکرا رہی تھیں۔ ان کا لہجہ نرم اور شائستہ ہوتا تھا۔
اس روز ہم تینوں حضرت محل اور 1857 کی جنگ آزادی پر کنیزے مراد کے نئے ناول کی تقریب اجراء میں کنیزے کی باتیں سننے کے لیے اس چھوٹے سے ہال میں داخل ہورہے تھے جس میں شہر کے متعدد جانے پہچانے چہرے نظر آرہے تھے۔ ہم دونوں نے جلدی میں ایک د وسرے سے ملنے کا وعدہ کیا اور پھر جدا ہوگئے۔ میرا خیال تھا کہ پروین سے کسی نہ کسی دن ملاقات ہوجائے گی لیکن کسی خیال کو خاک میں ملتے کتنی دیر لگتی ہے۔ نشانہ لے کر چلائی جانے والی چند گولیوں نے ملک اور شہر کے لیے طرۂ امتیاز بننے والی اور غریبوں کی دوست داری میں غرق ایک درد مند اور انسان دوست عورت کو مٹی میں سلادیا۔
پروین اس نسل سے تعلق رکھتی تھیں جسے نفسا نفسی کے اس دور میں بھی وہ لوگ پیارے تھے جو سماج کے حاشیوں پر زندگی گزارتے ہیں، جن کا کوئی پُرسان حال نہیں اور جو ذلتوں کے مارے اور دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ پروین جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے، وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
اب تو کہیں کہیں کھیت تھے اور اس میں کام کرتی ہوئی عورتیں اور مرد ، یہ زمین اب سیکڑوں ہزاروں ایکڑ کے حساب سے ہڑپ کی جانے والی تھی۔ مجھے عالمی شہرت یافتہ ادیب لیوٹالسٹائی کی وہ کہانی یاد آگئی جو اس نے 1886 میں لکھی تھی اور جس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ ا ردو میں کئی مرتبہ منتقل ہوئی۔ کسی نے اس کا نام ''دو بیگھا زمین'' اور کسی نے دو گز زمین رکھا۔
اس کہانی کا مرکزی خیال زمین کے لیے انسان کی ختم نہ ہونے والی ہوس ہے۔ ایک شخص جس سے کہا جاتا ہے کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین طے کر لے گا، وہ زمین اس کے نام کردی جائے گی۔ یہ سن کر وہ شخص چلنے کے بجائے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ سورج ڈوبنے تک وہ بہت بڑا رقبہ طے کرلیتا ہے لیکن اس دوران وہ نڈھال ہوچکا ہے، اتنا نڈھال کہ گر پڑتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے تب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ''ایک انسان کو آخر کتنی زمین درکار ہے؟'' اس سوال کا جواب بھی اسی کہانی میں موجود ہے کہ ہر انسان کو زندگی کے اختتام پر صرف دو گز زمین درکار ہوتی ہے جس میں وہ دفن کردیا جاتا ہے۔
سفرکے د وران ٹالسٹائی کی یہ کہانی یاد آئی تو کراچی کے بدن کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے وہ افراد اور وہ چند نام نہاد تعمیراتی ادارے یاد آتے رہے جو ''کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد'' کا شاندار نعرہ لگاتے ہوئے نئی رہائشی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں۔ کچھ تو صرف کاغذ پر ہوتی ہیں اور کچھ کے لیے غریبوں کی زمین چھینی جاتی ہے،سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ ہوتا ہے اورایسا کرنے والے راتوں رات لکھ پتی،کروڑ پتی اور ان میں سے بعض ارب پتی بن جاتے ہیں۔
چندہ دے کر سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوجاتے ہیں یا اپنی تنظیمیں بنالیتے ہیں۔ سماج میں باعزت مقام حاصل کرلیتے ہیں، ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے ہوتے ہیں جن کی ستائش کی جاتی ہے۔ زمین پر قبضے سے جو کالا دھن حاصل ہوتا ہے، اس کی بناء پر وہ اہم ترین لوگوں کے قریبی احباب میں شامل ہوجاتے ہیں۔ وزیروں، پولیس افسروں اور دیگر بااثر افراد یا اداروں کی سرپرستی میں قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچتے اور وہ ہر سزا سے محفوظ رہ کر ملک اور شہر کے باعزت افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
حیدرآباد سے واپس آنے کے چند دنوں بعد میں دبئی کے لیے روانہ ہورہی تھی کہ ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی ایک خبر نے دہلا کر رکھ دیا۔ اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ کرکے قتل کردیا گیا جب وہ شام ڈھلے اورنگی میں اپنے دفتر سے گلستان جوہر کے لیے روانہ ہورہی تھیں۔ ہم دونوں ہم محلہ تھے۔ ایک چوڑی سڑک ہم دونوں کے فلیٹوں کے درمیان تھی۔ میرا ذہن اس ہولناک خبر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
انائونسر بتارہی تھی کہ کراچی کی مضافاتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کی طرف سے انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کو اگر عملی جامہ پہنادیا گیا تو اس لیے کہ پروین رحمان ایسے لوگوں کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھیں اور وہ ایسے ہر قبضے کی نشان دہی کرتی تھیں اور کالا دھندا کرنے والوں کے لیے ایک دردِ سر بنی ہوئی تھیں۔
پروین نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ خون کا دریا تیر کر پار کیا۔ اس سے پہلے کیمپ میں زندگی بسر کی، قریبی دوستوں اور عزیزوں کو جان سے گزرتے دیکھا اور جب کراچی پہنچیں تو پھر سے تنکا تنکا جوڑ کر اس خاندان نے اپنا آشیانہ بنایا۔ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے دائود انجینئرنگ کالج سے آرکٹیکچر کی ڈگری لی۔ اپنی ذہانت کی بناء پر روٹرڈیم کے انسٹی ٹیوٹ آف ہائوسنگ اسٹڈیز سے ہائوسنگ بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں مہارت حاصل کی۔
ان ڈگریوں کے بعد دوسرے متعدد پاکستانی ماہرین کی طرح وہ بھی پہلی دنیا کے کسی اہم ادارے سے وابستہ ہوسکتی تھیں اورکروڑوں کا بینک بیلنس رکھتے ہوئے ایک پُر آسائش زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس کے برعکس وہ پاکستان پلٹ آئیں۔ یہاں پہنچ کر وہ اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ ہوگئیں۔ خان صاحب کا ذکر اب کم کیا جاتا ہے لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے تقسیم سے پہلے انڈین سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی لیکن کمشنر یا کلکٹر کا عہدہ لینے کے بجائے سول سروس سے استعفیٰ دیا۔
پاگل اور خبطی کہلائے اور خدمت خلق میں مصروف ہوئے۔ پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کراچی ہر جگہ انھوں نے غریبوں کی آبادکاری اور انھیں عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا، یہ بتایا کہ اپنی زندگی کو تم ا پنی ہمت اور اپنی مدد آپ کے تحت بدل سکتے ہو، بہتر بناسکتے ہو۔ انھوں نے سابق مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے لیے اورنگی کی کچی آبادی میں کام شروع کیا۔ یہ ان کا وہ کارنامہ ہے جس پر انھیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ بڑے بڑے بین الاقوامی انعامات اور اعزازات انھیں دیے گئے اور وہ دنیا کے ایک شاندار شہری کے طور پر آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
او پی پی 1980 میں قائم ہوا، پروین رحمان دسمبر 1981 میں روٹر ڈیم سے واپس آئیں اور او پی پی سے اس طرح وابستہ ہوئیں کہ جان بھی اسی کی ایک سڑک پر دی۔ وہ خان صاحب کو اپنا گُرو کہتی تھیں اور ان ہی کی طرح کی سادہ زندگی خدمتِ خلق میں گزار دی۔ وہ اپنے ادارے کی ڈائریکٹر تھیں، ان کے بارے میں ڈاکٹر معصومہ حسن کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ 32 ہزار تھی اور مراعات کے نام پر انھیں دفتر سے ایک چھوٹی گاڑی ملی ہوئی تھی جس کے ڈرائیور کی تنخواہ اور ان کے موبائل کا بل او پی پی ادا کرتا تھا۔
اختر حمید خان کی رہنمائی میں پروین نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اورنگی کے نچلے متوسط طبقے کی بہتری کے لیے وقف کردیا۔ پاکستان کے مشہور ٹائون پلانر عارف حسن نے خان صاحب کی دنیا سے رخصت کے بعد پروین اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا ساتھ دیا جس کے لیے پروین ان کی بہت شکر گزار تھیں۔ انھوں نے جس مستقل مزاجی اور محنت کے ساتھ ساتھ اورنگی والوں کو تکنیکی امداد فراہم کی اس کی وجہ سے انھیں اس کام میں اختصاص حاصل ہوگیا اور اپنی اس مہارت کی بنیاد پر وہ بارہا پاکستان سے باہر بلائی گئیں۔
اورنگی والوں نے محبت میں انھیں ''گٹر باجی'' کا نام دے دیا تھا۔ اورنگی میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اورنگی کے وسیع علاقے میں انھوں نے پائپ بچھوائے جس سے بلا مبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ایک خاموش انقلاب آگیا۔ ان لوگوں نے غلاظت اور بدبو سے نجات پائی اور ان کے بچے نالیوں پر بیٹھ کر فارغ ہونے کی ذلت سے آزاد ہوئے۔ عورتوں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ انھوں نے غلاظت کی صفائی سے نجات پائی۔
پروین سے میری کبھی کبھی کی ملاقات تھی۔ اس سے کہیں زیادہ ہماری فون پر بات چیت ہوجاتی اور وہ بھی شہر کے کسی مسئلے کے بارے میں۔ ان سے کہیں زیادہ تعلق ان کی بہن عقیلہ اسماعیل سے تھا جو اب باہر رہتی ہیں۔ وہ انگریزی کی ادیب ہیں اور اردو کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتی ہیں۔ پروین اور عقیلہ سے آخری ملاقات آکسفورڈ کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہوئی۔ پروین ہمیشہ کی طرح مسکرا رہی تھیں۔ ان کا لہجہ نرم اور شائستہ ہوتا تھا۔
اس روز ہم تینوں حضرت محل اور 1857 کی جنگ آزادی پر کنیزے مراد کے نئے ناول کی تقریب اجراء میں کنیزے کی باتیں سننے کے لیے اس چھوٹے سے ہال میں داخل ہورہے تھے جس میں شہر کے متعدد جانے پہچانے چہرے نظر آرہے تھے۔ ہم دونوں نے جلدی میں ایک د وسرے سے ملنے کا وعدہ کیا اور پھر جدا ہوگئے۔ میرا خیال تھا کہ پروین سے کسی نہ کسی دن ملاقات ہوجائے گی لیکن کسی خیال کو خاک میں ملتے کتنی دیر لگتی ہے۔ نشانہ لے کر چلائی جانے والی چند گولیوں نے ملک اور شہر کے لیے طرۂ امتیاز بننے والی اور غریبوں کی دوست داری میں غرق ایک درد مند اور انسان دوست عورت کو مٹی میں سلادیا۔
پروین اس نسل سے تعلق رکھتی تھیں جسے نفسا نفسی کے اس دور میں بھی وہ لوگ پیارے تھے جو سماج کے حاشیوں پر زندگی گزارتے ہیں، جن کا کوئی پُرسان حال نہیں اور جو ذلتوں کے مارے اور دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ پروین جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے، وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔