الیکشن والوں کی باتیں
پاکستان کے دشمنوں میں سر فہرست بھارت ہے جس کے ساتھ کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں
اگرچہ الیکشن یعنی ووٹ ڈالنے کا دن ابھی مقرر نہیں ہوا یعنی یوم حساب ابھی باقی ہے لیکن لا تعداد اندیشوں کے باوجود قومی الیکشن اب ہونے ہی والے ہیں۔ الیکشن کو ملتوی کرنے کا امکان صرف اس صورت میں ہو گا جب ملک بھر میں امن و امان اس قدر بگڑ جائے یا بگاڑ دیا جائے کہ ووٹروں کا جمع ہونا اور ووٹ دینا عملاً ممکن نہ رہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر امن رکھنے کے لیے فوج سے مدد لی جائے لیکن ووٹروں کے گھروں اور آبادیوں میں بھی امن لازم ہے تا کہ ووٹر گھر سے باہر نکل کر اور جان بچا کر ووٹ دے سکے اور گھر سے پولنگ اسٹیشن اور پھر گھر تک واپس آ سکے۔
ملک کی سلامتی کے لیے الیکشن لازم ہے۔ ملک کے بزرگ اور غیر جانبدار شخص، سربراہ الیکشن کمیشن نے کئی روز پہلے کہہ دیا تھا کہ الیکشن نہ ہوا تو پھر ملک نہیں رہے گا۔ یہ کسی جذباتی نوجوان یا کسی مایوس سیاستدان کی نہیں، ایک بہت ہی عالم و فاضل اور گرم و سرد چشیدہ بزرگ کی بات تھی جن کی بصیرت یہ سب کہہ رہی تھی۔ ملک کی اندرونی بے مثال بدنظمی اور کرپشن نے ملک کو اس قدر کمزور بلکہ لاچار کر دیا کہ اس کے دشمنوں کے لیے پاکستان کے حالات کو بگاڑنا بہت آسان ہو گیا۔ ملکوں اور حکومتوں کے لیے چند کروڑ اور اب چند ارب روپے کسی دشمن کو جنگ کے بغیر ہی ادھ موا کر دینے کے لیے آسانی کے ساتھ صرف کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کے دشمنوں میں سر فہرست بھارت ہے جس کے ساتھ کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں باقی ہے، اس کے علاوہ پانی پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ایک نیا مسئلہ ہے جو کسی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان کے ایسے دشمن کے لیے اس ملک میں اس قدر بدامنی پیدا کر دینا کہ وہاں اس کی بقا اور بچائو کے لیے الیکشن نہ ہو سکیں، ایک بہت ہی ضروری مسئلہ اور معمولی بات ہے۔
ہم پاکستانی یہ بھی یاد رکھیں کہ بھارت کی کوششوں سے پاکستان کے اندر ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے اور اس طبقے نے غیر ملکی مالی امداد سے یہاں ایسے مستقل ادارے قائم کر لیے ہیں جو بھارت کے ساتھ کسی قریب ترین تعلق کے لیے مرے جا رہے ہیں تا کہ دونوں ملک پھر سے ایک ہو جائیں، بھارتی ہندو کے اکھنڈ بھارت کے قدیمی منصوبے کے مطابق۔ اس پس منظر میں پاکستان کے اندر بدامنی اور بے چینی پیدا کی جا سکتی ہے اور کی جا رہی ہے کہ یہاں الیکشن مشکل ہو جائے۔ کئی پاکستانی گھن گرج کر الیکشن کے خلاف بات کر رہے ہیں اور منصوبے بنا رہے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ صرف ہم پاکستانی کر سکتے ہیں۔
ہمیں اپنا انتخابات جیسا اہم ترین مسئلہ سامنے رکھ کر اس کے لیے قومی اتحاد کی ضرورت ہے اور انتخابات کے دشمنوں کو مسترد کرنا لازم ہے۔ ہمارے دشمنوں کو خوب معلوم ہے کہ کون پاکستانی ان کے آلہ کار بن سکتے ہیں چنانچہ کروڑوں روپوں کی مدد سے ایسے لوگوں کو پاکستان میں سرگرم کیا جا رہا ہے، وہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ پاکستانیوں کی بھاری اکثریت نے ان لوگوں کو مذاق میں اڑا دیا ہے لیکن وہ بدستور اپنی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسی دھمکیاں جاری کرتے رہتے ہیں کہ الیکشن کے انعقاد کو مشکل بنا سکیں۔
الیکشن کے ان بیرونی خطرات کے باوجود ملک کے اندر کی فضا اس وقت انتخابات کی فضا ہے۔ لوگ کامیابی کے لیے پارٹیاں بدل رہے ہیں اور اپنے حامیوں کو ڈیروں پر جمع کر رہے ہیں۔ بڑے جماعتی لیڈر قومی سطح پر جلسے جلوس کرنے والے ہیں اور شروع کر چکے ہیں۔ جلسوں کی انتخابی سرگرمی اور سیاست میں عمران خان سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ وہ قومی سطح پر بھرپور انداز میں پہلی بار الیکشن میں آ رہے ہیں۔ لاہور اور بعض دوسرے شہروں میں وہ جلسے کر چکے ہیں اور اب وہ لاہور میں 23 مارچ کو ایک اور بڑا جلسہ کرنے والے ہیں اور یوں قسمت آزمانے آ رہے ہیں۔ متوقع انتخابی معرکے میں عمران خان ایک بڑا نام ہے، اس پر کوئی بڑا الزام نہیں ہے اور عوام الناس انھیں پسند بھی کر رہے ہیں۔
اسی دوران میاں نواز شریف بیرونی سیر سپاٹوں کے بعد اپنی جماعت کے ساتھ الیکشن کے معرکے میں کود چکے ہیں۔ پنجاب میں ان کے بھائی میاں شہباز شریف نے ایسے ترقیاتی کام کیے ہیں کہ ان سے انکار ممکن نہیں، وہ اندھوں کو بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ انھوں نے وزارت اعلیٰ کا حق ادا کیا ہے۔ دوسرے وزرا ئے اعلیٰ بھی ایسے ہی کام کر سکتے تھے مگر انھوں نے آرام کرنا زیادہ پسند کیا۔ اس سے میاں شہباز کو ایک فائدہ ہوا کہ دوسرے صوبوں کے ساتھ ان کا موازنہ کیا گیا، ان کے کام اور دوسرے صوبوں کی حالت اور حکومت کا تقابلی جائزہ لیا گیا اور یہ مسئلہ ایک الجھن بن کر سامنے آیا کہ چاروں صوبوں کے حکمرانوں میں انصاف کون کرے۔ قوم جو دیکھ رہی ہے وہی کہہ بھی رہی ہے۔
دن کی روشنی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ الیکشن جیتنے والے روایتی لیڈروں کی بڑی تعداد میاں صاحب کے ساتھ ہے جو ہمارے ہاں بہت اہم سمجھی جاتی ہے، اس طرح میاں صاحبان پاکستان کی سیاست میں ایک اہم فریق ہیں۔ دیکھیں انتخابات میں یہ سب کچھ ان کی کس قدر کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک اور بڑا اتحاد جماعت اسلامی اور ڈاکٹر قدیر خان کا ہے، اس پر حرف گیری ممکن نہیں۔ نہ صرف ان لوگوں کی دیانت و امانت بلکہ اہلیت کی بھی مثال دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کی تاریخ کے ایک عظیم ترین انسان ہیں۔ قائد اعظم کے بعد ان کا نام آتا ہے۔
جماعت کے سید منور حسن ایک بے داغ شخصیت ہیں، ان کا اور ڈاکٹر قدیر خان کا ایک آئیڈیل سیاسی اتحاد ہے لیکن کیا یہ لوگ ہماری قسمت میں ہیں یا نہیں اس کا پتہ بعد میں چلے گا۔ میرے خواب و خیال میں تو یہ بات ہے کہ عمران خان سید منور حسن اور ڈاکٹر صاحب اگر ایک ساتھ ہوں تو آپ کوئی بھی پیش گوئی کر سکتے ہیں لیکن یہ اتحاد عملاً نہیں ہو سکا اگرچہ کوشش کی گئی۔ میں اپنی ایسی زبان میں کہا کرتا ہوں کہ ہماری قوم اپنے اعمال کی وجہ سے ایک بد دعائی ہوئی قوم ہے، پہلے وہ کئی بار اپنے پائوں پر کلہاڑی چلا چکی ہے، اب وہ کہیں سر پر نہ دے مارے، اس سے کچھ بعید نہیں۔
میں ایک بات ذاتی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی ذاتیات کو نہیں صرف پاکستان کو سامنے رکھا ہے، کسی شناسا کی بدخوئی کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں اور اگر کہیں ایسی کوئی بات آپ دیکھیں تو فوراً ہی مجھے اس سے لاتعلق قرار دے دیں، میں اپنے ہم قلم اور ہم عصر دوستوں کی بے حد قدر کرتا ہوں، گائوں کی زندگی میں نے ترک کر دی، اب یہی دوست ہیں جو شہروں میں آباد ہو گئے ہیں اور میرے ہم شہر ہیں۔ کوئی اپنا شوق میرا نام لیے بغیر پورا کر لے تو شکریہ!